Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, September 15, 2019

قرآن کریم اور فرقہ واریت۔!!!

از:  ڈاكٹر محمد اكرم ندوى
آكسفورڈ/صداٸے وقت۔
========================

====
ہم بد ترين حد تك فرقه پرست ہوچكے ہيں، ہمارے نزديك حق وباطل كا معيار دليل نہيں، بلكه مصنوعى انتسابات  اور عارضى وابستگياں ہيں، شيعه، سنى ، بريلوى اور ديوبندى وغيره تقسيمات ہى  كيا كم تهيں، اب نئى تفرقه  بازيوں نے ہميں كهوكهلا كرنے ميں كو كسر نہيں چهوڑى ہے،   قاسميوں كے نزديك ندوى گمراه ہيں،   اور ندوى قاسميوں سے متنفر ہيں، ہم بر ملا كہنے لگے ہيں كه جو ہمارے مسلك كا متبع ہے وه نجات يافته ہے، اور جو ہمارے مسلك كا متبع نہيں وه جہنمى ہے، فكرى طور پر ہم اس قدر قلاش ہو گئے ہيں كه  يه سوچ نہيں سكتے كه جو ہمارا ہم مشرب نہيں وه بهى درست ہوسكتا ہے، بلكه وه ہم سے بہتر ہوسكتا ہے، يه صورت حال ہمارے درميان نفرت ودشمنى اور كشمكش كى بنيادوں كو جس طرح مستحكم كر رہى ہے اس نے ہميں ذلت كى پستيوں ميں ڈهكيل ديا ہے، يه تحرير اسى افسوسناك صورت حال سے آگاه كرنے كے لئے ہے۔
انفرادى شناخت ايك  عطيۂ خداوندى ہے، يه ہر انسان ميں موجود ہے، ہر  انسان كے ماں باپ ہيں، اور ہر  انسان كا ايك ماضى ہے،  اور يه دونوں چيزيں حياتياتى اور تہذيبى  دائرۂ كار كا تعين كرتى ہيں، جس كے بغير فرد كے حدود واضح نہيں ہوسكتے اور نه اس كا  كوئى قابل امتياز  تشخص  ارتقاء پزير ہوسكتا ہے، افراد كى شناخت حياتياتى طور پر آباء واجداد سے اور تہذيبى طور پر مقامى حالات سے تشكيل پاتى ہے، جس طرح جسمانى ساخت   موروثى ہوتى ہے، اور ناك نقشه   ماں باپ سے ملتا ہے، اسى طرح اپنے قريبى خاندان اور اپنے ہم عمروں كے ذوق، پسند ونا پسند اور ترجيحات سے ہم متاثر ہوتے ہيں۔
شناخت كى يه سطح مادى ہے اور بڑى حد تك نا قابل تبديل، تا ہم  اس سے كسى قسم كى مشكلات نہيں پيدا ہوتيں، البته جب شناخت كسى سياسى جماعت كے عزائم كى علامت بن جاتى ہے، تو پهر  وه مقابله آرا ئى وستيزه كارى كو جنم ديتى ہے،  اوركبهى كبهى   جارحيت وتشددپسندى كے آلۂ كار كے طور پر مستعمل ہوتى ہے، اور اس طرح ايك ساده شناخت فرقه واريت كا روپ دهار ليتى ہے۔
نظرياتى  فرقه بندى سب سے زياده نقصان ده اور شر انگيز ہوتى ہے، كيونكه يه سياسى عزائم كے ساته ساته خود فريب ديندارى كے لباده ميں ظاہر ہوتى ہے، اس كى نگاه ميں  دوسرے نظريات وافكار كے ماننے والے صرف دوسرے نہيں، اگر ايسا ہوتا تو يه بات كسى حد تك قابل برداشت ہوسكتى تهى، نظرياتى فرقه پرست دوسروں كو  غلط ، اخلاقى حيثيت سے پست تسمجهتے  ہيں، بلكه انہيں گمراه اور جہنمى گردانتے ہيں، فرقه پرستى كا يه زہر مسلمانوں ميں سرايت كر گيا ہے، اور علماء كے دل ودماغ بهى اس زہر سے آلوده ہيں، بلكه اپنى زبانوں اور تحريروں سے اس آلودگى كو وبائے عام بنانے كى سعى ناپاك ميں ہمه تن مصروف ہيں۔
سوال يه ہے كه نظرياتى بنيادوں پر قائم شناختوں كے تئيں مسلمانوں كا صحيح اسلامى موقف كيا ہو؟   كيا اس موقف  كا ماخذ والدين يا آباء واجداد ہوں گے؟ يا ہمارے اكابر اور مذہبى پيشوا ؟ يا وه  قصے اور روايات جو ہمارے معاشروں اور تعليمى اداروں ميں رائج ہين؟،  ظاہر ہے كه ان ميں سے كسى كو ماخذ بنانا فرقه واريت كو بڑهاوا دينے كے مرادف ہے،  اس كا  محفوظ اور مستند ماخذ خدا اور اسى كے پيغمبر كى تعليم يا كتاب وحكمت  كے سوا كچه اور نہيں ہوسكتا، مستند مذہبى صداقتوں كے سياق ميں ہر طرح كے انتساب اور وابستگى  كو ايك طرف كردينا چاہئے، كيونكه يه سارے انتسابات قيامت كے دن ايك طرف كرديئے جائيں گے، اس وقت كوئى انتساب انسان كى كوتاہيوں پر پرده نہين ڈال سكے گا، نه خون كا رشته، نه وطن كا تعلق، اور نه  ہى مسلك، رائے اور نظريه كى وابستگى۔
مذہب، عقيده، اور طريقۂ حيات سے متعلق اختلافات سے نپٹنے كے لئے قرآن  ہميں كيا ہدايت ديتا ہے؟ كتاب الهى ميں بار بار فرمان خداوندى سے انحراف كرنے والوں كو "گمراه" كہا گيا ہے، ليكن ان كے بارے ميں عمومى بيان نہيں ديا گيا،  بلكه ان كى خوبيوں كا اعتراف كيا گيا، كچه لوگوں كے بارے ميں كہا گيا كه وه اپنى عبادتوں ميں خشوع كرتے ہيں، وه رونے اور تواضع ميں مخلص ہيں، وه لين دين ميں امانتدار اور قابل اعتماد ہيں، حالانكه وه مسلمان نہيں،  جب غير مسلم گروہوں كے متعلق ان كے انتساب كى بنياد پر  كوئى حكم نہيں لگايا گيا، بلكه حقيقى قدروں كو اہميت دى گئى، تو ظاہر ہے كه مسلمانوں كے سلسله ميں محض ان كے انتساب كى بنياد پر كسى فيصله كى اجازت كيونكر ہوسكتى ہے، بلكه مسلمانوں كے سلسله ميں اور زياده احتياط كى ضرورت ہے، اور انہيں قدروں كے معيار سے جانچا جانا چاہئے، نه كه مصنوعى وابستگى كے مظاہر سے۔
غير مسلم گروہوں كے ساته تعامل كى يه قرآنى ہدايت مسلمانوں كے لئے ممكن بناتى ہے كه وه غير مسلموں كے ساته اپنے تعلقات قائم كريں اور  ان كو تقويت ديں، اس كى وجه يه ہے كه مسلمانوں كو حكم ہے كه غير مسلموں كى ہدايت كے لئے اميد باقى ركهيں ، ان كے متعلق آخرى فيصله خدا كے حواله كريں، اور خود كو ان كا داروغه يا چوكيدار نه سمجهيں۔
اس كے بر خلاف مذہبى گروہوں اور فرقوں كا عام رويه يه ہوتا ہے  كه قدروں كو نظر انداز كرديتے ہيں، شريفانه اخلاق اور عام انسانى فضائل سے چشم پوشى كرتے ہيں، اور لوگوں كى قيمت كا  تعين كسى گروه يا نظريه سے انتساب كى بنا پر كرتے ہيں،  ان كے نزديك وه كمالات بے معنى ہيں جنہيں قرآن وسنت ميں معيار بزرگى وترجيح قرار ديا گيا ہے۔
قرآن كريم كى تعليم ہے كه لوگوں سے تعامل ميں تهذيب، اخلاق اور روادارى كا مظاہره ہو، جبكه فرقوں اور مذہبى گروہوں كا طريقه يه ہے كه تناؤ بڑهايا جائے، اختلافات ميں مبالغه كيا جائے، عدم اعتماد كى فضا كو ہوا دى جائے، اور  دوسروں كے خلاف نفرت، كشمكش اور تشدد كو  بهڑكايا اور پهيلايا جائے۔
كيا ہم مسلمانوں كے لئے قرآن كريم كى واضح ہدايات كافى نہيں؟ كيا خدا كے پيغمبروں ميں ہمارے لئے اسوه نہيں؟ كيا ہمارے لئے يه مناسب نہيں كه ہم مصنوعى شناختوں اور مسلك واداره كے انتساب كو غير ضرورى اہميت نه ديں، اور فضائل وكمالات كى بنياد پر لوگكوں سے تعامل كريں، كاش كه ہم ياد ركهيں كه قيامت كے روز يه انتسابات كنارے كرديئے جائيں گے، اور خدا كى عدالت ميں صرف قدروں كى بنياد پر فيصله ہوگا۔