Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, September 10, 2019

آر ایس ایس اور مسلم تنظیمیں۔۔۔۔۔۔ماضی ، حال اور مستقبل کے آٸینے میں !!!

از قلم /محمد عظیم:/صداٸے وقت۔
=========================
ماضی کی اوراق گردانی کرنے والے دوراندیش اور حالات پر نظر رکھ کر ماضی سے عبرت لینے والوں کو معلوم ہوگا کہ آر ایس ایس کے وجود میں آنےکےبعد سے ہمیشہ اس کی ایک ہی دھن رہی ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانا ساورکر کے نظریئے کو فروغ دے کرہندوستان کو ہندو نظریات وتہذیب کے رنگ میں سب کو رنگ دینا،
  گہرائی میں جانے کے بعد معلوم ہوگا کہ اصل ہندوکی تعداد بہت کم ہے اگر ہندو مذہب وذات اس کے کلچر وتہذیب کو تقسیم کرکے دیکھیں تو سمجھ میں آئے گا کہ ان کی اصلی تعداد فیصد کے اعتبار سے بہت قلیل ہے برہمن بنیا کتنے فیصد ہیں سب کومعلوم ہے ، جین ان سے بالکل الگ ہیں ان کا طریقہ عبادت ان کے رسومات سب الگ ہیں ، آریہ سماج بھی ان کا حصہ نہیں ، پارسی بالکل جدا ہیں ، سکھ عیسائی کا ان سے کوئی میل نہیں ، دلتوں کی راہیں بھی ان سے بالکل مختلف ہیں برہمن کے عبادت خانوں میں ان کا داخلہ تک ممنوع ہے لیکن ان سب کے باوجود آر ایس ایس نے حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کو ایک دھاگے میں پروکر 14 تا 20 فیصد مسلمانوں کے مقابلے میں ان سب کی ایسی ذہن سازی کی کہ آج سب مل کر ہندو80 ،85 فیصد کہلاتے ہیں جبکہ الگ الگ ان میں سے کوئی بھی  20فیصد تک بڑی مشکل سے پہنچ سکتاہے 
لیکن افسوس کہ مسلمان ٢٠ فیصد ہیں اور مسلکوں میں بٹنے والوں کو یکجاکرکے مسلکوں سے اوپر اٹھکرکوئی ایک پلیٹ فارم کیا بناتا آج مسلمان خود اپنے آپ کو "مسلم اقلیت"  یا " مسلمان اقلیت میں ہیں"  کہتے لکھتے اور بولتے نہیں تھکتا
   جبکہ صورت حال یہ ہے کہ وہ 80فیصد خود آپس میں بڑا بھید بھاؤ رکھتے ہیں اور ایک بڑاطبقہ اس تفریق سے نالا بھی ہے مگراس تفریق کے باجود مسلمانوں کے مقابلے میں ان سب کی سنگھی ذہنیت سب سےاوپر ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ آریس یس کا جو ہدف تھا اس نے اس کے لئے جو محنت خصوصا آزادی کے بعد سے کیبوہ اس میں پورے طور پر کامیاب ہیں اسی کا نتیجہ ہے کہ آج وہ پورے ملک پر قابض ہیں  سیاسی سماجی  اعتبار سے بڑی بڑی پارٹیاں ان کے سامنے بے بس نظر آتی ہیں ہندوستان کے ہر کونے میں اور ہر شعبہ میں نہ صرف یہ کہ ان کی نمائیدگی ہے بلکہ ہر جگہ وہی حاوی وغالب ہیں
  اس کا راز یہ ہے کہ اس نے صرف اپنی دھن میں لگ کر افراد سازی پر محنت کی آریس یس کے اتنے طویل سفر کے دوران آپ نے کبھی کوئی اتنابرا اجلاس نہیں دیکھاہوگا جس میں کروڑوں روپیہ خرچ کرکے پورے ہندستان کو بیک وقت مدعو کررکھاہو ، نہ انھوں نے کانفرسوں میں بے تہاشا وبے دریغ پیسے خرچ کئے ہوں ، نہ انھوں نے تجاویزوں کے پاس کر تجاویزوں کا دفتر جمع کرنے میں وقت ضائع کیا اس لئےآج ان کے اپنے کالج ، اپنی یونیورسٹیاں ان کے سنگھی نصاب ہیں ، اپنے اسپتال اور ہرشعبہ سے متعلق نہ جانے کتنے کوچنگ سینٹر موجود ہیں جو افراد سازی کے میدان میں اپنی مثال آپ ہیں ، اور ان کی جو دیگر تنظیمیں ہیں وشوہندوپریشد ، بجرنگ دل ، سیو سینا ، کرنی سینا، ہندویواواہنی سب نظریات وخیالات کے اعتبار سے بھی یک رنگ ہیں اور اپنے اپنے میدان میں اسی اعتبار سے کام کرتے ہیں
  اور آج ہم کہاں کھڑے ہیں، ہندوستان میں ہمارے وجود کی حیثیت کیا اور کیسی رہ گئ ہے ، نہ ہمارے اپنے کالج ،  نہ کوئی  یونیورسٹی نہ ہمارے اپنے اسپتال ومیڈیکل کالج ، اور نہ ہی کوئی قابل قدر کوچنگ سینٹر ، ہاں ہمارے یہاں اجلاسوں وکانفرنسوں کی ایک طویل تاریخ ضرور ہے جس سے وہ محروم ہیں
    آزادی کے بعد سے ملت اسلامیہ نے جتنے اجلاس کئے شاید ہی کوئی قوم اس کی ہمسری کرسکے اور ان اجلاسوں میں جو صرفہ ہواہے چاہ کر بھی کوئی قوم اسکے عشر عشیر کو بھی نہ پہنچ سکے گی تبلیغی جماعت ہو کہ جماعت اسلامی ، جمعیت اہل حدیث ہو کہ جمعیت علماء ہند ، مسلم پرسنل لاء اور بریلوی حضرات وسیعہ جماعت اتنے اجلاس کرلئے کہ آزادی کے بعد سے ان صرفوں کو نہ کرکے یاکم کرکے نہ جانے کتنے کالج ویونیورسٹیاں وجود میں آتیں ، اسپتال ومیڈیکل کالج کے ذریعہ نہ جانے کتنے ڈاکٹر انجینئر وکیل وجج پیدا کرلئے ہوتے افسوس کہ اس حوالے سے پورا ماضی تاریک ہے
   اس کا نتیجہ یہ ہےکہ آج جن لوگوں نے انگریزوں کے تلوے چاٹے اور ان کی وفاداری میں مخصوص جانور کے دم کی طرح ہردم ہلاتے رہے اور ملک کو داؤں پر لگا یا وہ آج ان ہندوستانی مسلمانوں سے وفاداری کاثبوت مانگتے ہیں جن کے اباء واجداد اور اکابر اسلاف نے ملک کی آزادی کے لئے پھانسی کا پھندا چوما
ملک کے لئے غیروں کے پسینےسے زیادہ اپناخون بہایا کبھی سرانگا پٹنم میں ٹیپو کے ساتھ ، کبھی مشر شدآباد میں نواب سراج الدولہ کی سر کردگی میں،  کبھی بالا کوٹ میں کبھی شاملی کے میدانوں میں ، جن کے علماء کی قربانیوں کی گواہ ہندوستان سے لے کر کالاپانی تک کی جیلیں ہیں آج ان کی روحانی اولادوں کو ان لوگوں کے سامنے اپنے اکابر اسلاف اپنے ہی آباء واجداد کی قربانیاں بیان کرنی پڑتی ہیں جنکا ملک کی آزادی میں پسینہ بھی نہیں بہا آج وہ ملک کے سیاہ وسفید ک

ے مالک ہیں
افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم غیروں کو کیا کہیں خود اپنوں کو بھی ملک کی آزادی کی تاریخ سے آگاہ نہ کرسکے اور اپنے اباء واجداد کی قربانیوں سے روشناش نہ کراسکے
    ہندوستان میں جو مسلم تنظیمیں ہیں ان میں خود آپس میں ہمیشہ اتحاد کا فقدان رہا جمعیت نے کوئی ہدف طے کیا تو دیگر تنظیموں کو قبول نہیں ، دوسروں نے پیش کیا تو اوروں کو قبول نہیں،  ہمیشہ ایک دوسرے کو ہدف تنقید بناتے رہے اہل حدیث حضرات اپنے علاوہ دوسروں کو مشرک گردانتے رہے، سنی حضرات دوسروں کو کافر بنانے پر پورا زور صرف کرتے رہے دیوبندیوں نے بھی اپنے علاوہ سب کو اچھوت ہی سمجھا، کیاہی اچھا ہوتا کہ سب اپنے اپنے حلقوں میں اپنے اپنے مسلک پر عمل کرتے اور اسے فروغ دیتے لیکن ملت کے مفاد میں سب یک جان دوقالب ہو کر اتحاد واتفاق کا مظاہرہ کرتے اور ملی مسائل پر ہمیشہ ایک دوسروے کے ادب واحترام کے ساتھ ایک صف میں کھڑے ہوکر " واعتصموا بحبل الله جمعيا " کی عملی تفسیر بن جاتے
عوامی سطح پر پورے ملک میں جمعیت علماء ہند کو جو مقبولیت حاصل رہی وہ کسی  بھی بھی دوسری جماعت کو حاصل نہ ہوسکی سیاست کے گلیاروں میں بھی اس کا اثرورسوخ رہا سیاسی جماعتیں بھی اس کی طاقت کی قائل رہیں لیکن اس نے بھی تقسیم در تقسیم سے اس کی فولادی قوت کمزور ہوگئی دوسروں سے کیاگلا
  اب پھر جمعیت علماء ہند اپنا صد سالہ اجلاس دیوبند میں کرنے جارہی ہے ملت کے کتنے سو کروڑ اس اجلاس کی نظر ہوجائیں گے کچھ پتہ نہیں
  اس اجلاس سے کیا حاصل ہوگا اس کے اثرات و مستقبل میں اس سے قوم کے وابستہ فوائد کیا ہیں یہ معلوم ہو کہ نہ ہو
لیکن سیاسی اعتبار سے اس کے منفی اثرات ہونا یقینی ہے
  کیا ہی اچھا ہوتا کہ جمعیت اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرے اور اس صد سالہ اجلاس کے بجائے کوئی ایسا بڑا کام کرتی جس سے قوم کا مستقبل تابناک ہوتا تو اچھا تھا
   اس طرح ہر سال اجلاس کے عنوان پر خطیر رقم خرچ کرنے کے بجائے ہر میدان میں ہر موضوع کے ماہرین پیداکرنے کی سمت کوئی ٹھوس قدم اتھایا جائے تو شاید آنے والی نسلوں کو سیاسی اعتبار سے اتنا کمزور نہ کیا جاسکے
  کاش ہمارے موجوہ قائدین کو اللہ یہ سمجھ دیدے کہ امت کی زبوں حالی کے اس نازک وقت میں امت کوشجرکاری کی نہیں بلکہ صحیح قیادت کی ضرورت ہے اور عصری میدانوں کے ماہرین اور عصری علوم کے حاملین میں دینی فکر پیداکرنے کی ضرورت ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو اس بات کا رونا نہ ہو کہ ہندوستان کا ہر شعبہ ، ہر میدان مسلم نمائندگی سے محروم ہے ورنہ مستقبل کا مؤرخ ضرور لکھے گا کہاکیسویں صدی کے ربع اول میں جب امت زبوں حالی کاشکار تھی ہر طرف ظلم کادور دورہ تھا اسلام اورشعائر اسلام ہی باطل طاقتوں کے نشانے پر تھے ، مسلمانوں کی جان مال عزت آبرؤ لٹی جارہی تھی کشمیر جل رہاتھا کشمیر میں عزتیں نیلام ہورہی تھیں 
تو ہماری قیادت یاخاموش  تھی یا شجرکاری میں مصروف تھی یاپھر سیمیناروں کی تیاری میں اس قدر مشغول تھے کہ انھیں فرصت نہ مل سکی