از /سید منصورآغا، نئی دہلی/صداٸے وقت۔
=============================
گزشتہ ہفتہ’حکیم عبدالحمید کی انفرادیت اورخدمات‘ عنوان سے میرے کالم کی اہل علم ودانش نے جو پذیرائی کی اس کا لیے ممنون ہوں۔ لیکن یہ سوال ابھی جواب کا منتظر ہے کہ ملک کے موجودہ حالات میں ان کی خدمات اورانداز کار کی کیامعنویت ہے۔ بیشک 2014میں مرکز پر آرایس ایس کی زیر کمان حکومت قائم ہوجانے کے بعد کمزورطبقوں اور اقلیتوں، خصوصاً مسلم اقلیت کے لیے عرصہئ حیات تنگ کرنے کے حربے اختیار کئے جارہے ہیں۔ چنانچہ ان کا سیاسی وزن ہوا میں تحلیل ہوگیا ہے۔ مئی2019 کے انتخابی نتائج کے بعد تشویش اوربڑھی ہے کہ فرقہ ورانہ نفرت کو بنیاد بناکر سیاست کی جارہی ہے۔ زیادہ فکرمندی کی بات یہ ہے کہ ملک تیزی سے تنزلی کی طرف جارہا ہے۔ بڑے بڑے کارخانے بند ہورہے ہیں۔ بازاروں میں مندی کا دور ہے۔ سرکاری خزانے خالی ہوچکے ہیں۔ریزوبنک سے محفوظ رقم لے کرکام چلایا جارہا ہے۔ بنکوں کی حالت خراب ہے۔کاشتکاروں کا حال بھی خراب ہے۔ آلو اورپیازکو کوئی پوچھ نہیں رہا۔ گویا مالی بدحالی کا دورشروع ہوگیا ہے۔بدنظمی، بدعنوانی، جھوٹ اور فریب کاری کی جے جے کارہورہی ہے اور قوم ان سب سے بے خبرپڑوسی ملک اوراقلیت دشمنی کے خمار میں بدمست ہے۔ کشمیر کے بارے میں جو خبریں آرہی ہیں اس سے نہیں لگتا کہ مرکز کی نظر میں اس ریاست کے عوام بھی ملک کا حصہ ہیں اوران کو بھی عزت اورآزادی سے جینے کا حق ہے۔ لگتا ہے کہ کوئی غیرقوم ہے اوراس کے اوپر سامراجی نظام مسلط کیاجارہا ہے۔ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
ڈاکٹرمحمد منظورعالم نے اپنے ایک حالیہ کالم کی سرخی جمائی ہے: ’مومنانہ فراست کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا جائے‘۔ انہوں نے ملی اتحاد کی بات بھی کی ہے، جو ہمیشہ کی جاتی ہے۔وائے حسرت کہ بعض الفاظ صرف لغت کی زینت بن کر رہ گئے ہیں۔ ان میں ایک ’ملی اتحاد‘ بھی ہے۔ بیشک اتحاد اہم ہے لیکن اس ناچیز کی نظر میں پہلے ’اتحادفکروعمل‘ کی فکر کرنی چاہئے۔ پہلے اپنی فکروعمل کی اوراس کے بعد باہر کمندیں ڈالنے کی اور وسیع تردائرہ سے تعاون کی جستجو کریں۔ اصول بیشک عزیز ہوتے ہیں مگر عملی اقدام کے لئے قربانی دینی ہوگی۔ جیسے صلح حدیبیہ میں ہم نے دیکھا۔
ڈاکٹرصاحب نے مومنانہ فراست کے ساتھ مومنانہ جرأت کو بھی پکارا ہے۔ فراست، جرأت اور اتحاد فکرو عمل کے لیے صبروتحمل بالفاظ دیگر جہد مسلسل کی زنجیرچاہئے۔ حکیم عبدالحمید صاحب مرحوم میں ہمیں حسن کردار کی یہ کڑیاں باہم پیوست نظرآتی ہیں۔بیرونی حالات کتنے ہی ناموافق کیوں نہ ہوں،اگراندرون مضبوط ہے اور قدم سیدھی راہ پر اٹھ رہے ہیں تورکاوٹیں راہ دیتی چلی جاتی ہیں۔
مومنانہ فراست اورجرأت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ہم مایوس اوربددل نہ ہوں۔ تاریخ سے تقویت حاصل کریں۔ جس دورسے آج ہم گزررہے ہیں اس سے زیادہ سخت دور ہم پر گزرچکے ہیں۔
پلاسی کی شکست
آئیے ہندستان میں مسلم اقتدارکے خاتمے اورانگریزی سامراج کے قیام کی تاریخ کے چنداوراق الٹ کردیکھیں۔ سب س ے پہلے چلتے ہیں کلکتہ سے 150کلومیٹر شمال میں دریائے ہگلی کے کنارے پلاسی کے مقام پر جہاں برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے22جون 1757کو نواب سراج الدولہ کو شکست دے کرہندستان میں اپنے قدم جمائے تھے۔ اس کے بعد دہلی کے تخت وتاج پر قبضہ کرنے میں ان کو سوسال اورلگے۔جب جنگ پلاسی کا نام آتا ہے تونواب کے باغی سپہ سالارمیرجعفرکا نام توآتا ہے،لیکن قوم کے غداروں اوربرطانوی سامراج کے طرفداروں میں مہتاب چند سیٹھ، سوروپ سیٹھ اوران کے ساتھ امی چنداوررائے درلبھ کا کوئی ذکر نہیں آتا۔
سلطان ٹیپو کی شکست
اس کے بعددوسرا بڑاسانحہ 1779میں سری رنگاپٹنم پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی چوتھی یلغار میں شیر میسور ٹیپو سلطان کی شہادت اورریاست میسور پربرطانوی تسلط ہے، جس نے پورے ملک پربرطانوی اقتدار کی راہ کو آسان کردیا۔ بات ناگوار ہے مگرتاریخ بتاتی ہے اس معرکہ میں ٹیپوسلطان کے پاس اعلیٰ تربیت یافتہ 30ہزار فوجی تھے۔جب کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس مراٹھوں کو ملاکر بمشکل صرف 14 ہزارفوجی تھے۔ حیدرآباد کے نظام نے اس موقع پر ایسٹ انڈیا کمپنی سے ایک معاہدہ کرکے ٹیپو کے مقابلہ انگریزوں کی مدد کے لیے دس بٹالین فوج بھیج دی جس میں 16 ہزارگھوڑ سوارتھے۔پھرعیار انگریزوں کو ٹیپو کی کابینہ میں ایک میرصادق عرف گڈوخان بھی مل گیا، جس نے نمک حرامی کی اورسلطان کی شکست میں مدد گاربنا۔ مگر وہ خود عوام کے ہاتھوں مارا گیا۔
لال قلعہ پر قبضہ
پھر1857کا وہ سانحہ یاد کیجئے جب انگریزوں نے لال قلعہ پر قبضہ کیا۔ بہادرشاہ ظفر کوعرب سرائے سے قید کرلیا اوران کے دونوں بیٹوں کو دہلی گیٹ کے پاس گولی مارکران کے سرقلم کرکے خوان میں سجا کرشاہ کو بھیج دئے۔اگلے چندروز میں دہلی گیٹ پر معروف اردوصحافی مولوی محمد باقرسمیت سینکڑوں افراد کوسرسری سماعت کے بعدگولی ماردی گئی یا پھانسی دیدی گئی۔ ایک مورخ نے لکھا ہے مہرِوَلِی سے دہلی گیٹ تک ہر درخت پر لاشیں اس طرح لٹکی ہوئی تھیں جیسے بیا کے گھونسلے۔ ان کو اتارنے کی اجازت نہیں تھی، یہاں تک کہ گل سڑ کر نیچے گر جائیں۔ان میں بڑی اکثریت داڑھی والے اور بااثر مسلمانوں کی تھی۔ کہتے ہیں کہ اس معرکہ میں ایک لاکھ سے زیادہ علماء قتل کئے گئے اور مولوی کا مطلب ’باغی‘ ہوگیا تھا۔ یہ سارے مقتولین کسی ایک فرقہ یا مسلک کے نہ تھے بلکہ شیعہ اورسنی سبھی شامل تھے۔دیوبندی اوربریلوی کا اس وقت تک قصہ ہی نہیں تھا۔
تقسیم کا دور
اس کے بعد یاد کیجیے 1947کاسانحہ۔ راجدھانی دلی سمیت شمالی ہند کی کوئی بستی ایسی نہیں تھی جہاں خون خرابہ نہ ہوا ہو۔ ہندوبھی مارے گئے اورمسلمانوں کا تو پوچھئے ہی نہیں۔ ریلوں کوروک روک کر مسافروں کوہلاک کر دیا گیا۔خاص طور سے صوفیاء کی سرزمین پنچاب (جس میں موجودہ ہریانہ،ہندستانی وپاکستانی پنچاب اور ہماچل پردیش شامل تھے) کا چپہ چپہ خون آلود تھا۔بہت سی لڑکیوں کو پکڑ کر ان سے جبری شادی کی گئی۔ ہزاروں خواتین کی عزتیں لوٹ کرمارڈالا گیا۔ میں نے ایک موقع پرسرہند کے قریب ایسے کنویں دیکھے ہیں، جن کے بارے میں بتایا گیا مسلم خواتین کی لاشوں سے پٹے پڑے تھے۔
ان واقعات کا تذکرہ اس لیے کیا ہے کہ جس قوم نے ایسے سخت حالات کودیکھا ہے، اپنی مضبوط سلطنتوں کواپنو ں کی ریشہ دوانیوں سے مسمار ہوتے اورملک کو قبضہ غیر میں جاتے دیکھا، اس کو کیا مسلم دشمنی کی موجودہ لہر اور لنچنگ جیسی وارداتوں سے خوفزدہ اوربے حوصلہ ہوجانا چاہئے؟ اللہ محفوظ رکھے۔ کہیں اگرآزمائش کی گھڑی آجائے تو ایمانی فراست سے کام لیجئے۔جان توایک دن جانے والی چیز ہے۔لیکن بزدلی کی موت بدترین موت ہے۔
لنچنگ یا ہجومی تشدد
یہ بھی غورکیجئے ہجومی تشدد میں اموات جس کو لنچنگ کہتے ہیں، ان سے توہمارا واسطہ پرانا ہے۔ آزادی کے بعد سے ملک بھر میں پانچ ہزارسے زیادہ مسلم کش دنگوں میں ہزاروں افراد مارے گئے اورکروڑوں کی املاک تلف ہوگئیں۔ 1983میں نیلی (آسام) کا قتل عام، 1984میں ہاشم پورہ،2002میں گجرات اور 1984 میں دہلی کی خونی وارداتوں پرغورکیجئے۔ کیا یہ ہجومی تشدد کے زمرے میں نہیں آتیں؟ فرق صرف یہ ہوا ہے پہلے جرم کو چھپایا جاتا تھا،اب تشدد اورہلاکتوں کو بڑے فخرکے ساتھ سوشل میڈیا پر دکھایا جاتا ہے۔ اس کے ایک پارٹی سیاسی فائدہ اٹھاتی ہے۔اورپھرانسانیت کے قاتلوں کو بچایا جاتا ہے۔ چنانچہ وہ جو احساس گناہ تھا اس کو ہندتووا کے نظریہ نے مٹادیا ہے۔خطاکاروں کی گلپوشی میں وزیروں، لیڈروں کو شرم نہیں آتی۔
تفصیل بہت کچھ ہے۔ ان حالات کا مقابلہ’مومنانہ فراست اورجرأت‘ سے کس طرح کیا جائے؟ ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دئے جانے کے فلسفے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ اسلام نے ہمیں یہ نہیں سکھایا کہ کوئی ہمارے کسی بے قصورکو ماردے توہم اس کے جواب میں اس کی قوم کے بے قصورکو نشانہ بنانے کی غلطی کریں۔ ہر گز نہیں۔ اس کا جواب مومنانہ شان سے دیا جائے گا۔ اور اسلام کی عظمت کو ٹھیس نہیں لگنے دی جائے گی۔
بلاتفریق خدمت خلق
یہ بات پہلے بھی عرض کی گئی ہے کہ ان تمام امراض کا علاج مذہب وملت کے فرق کے بنا خدمت خلق میں ہے۔ ہماری نفسیات کا عجیب معاملہ ہوگیا ہے۔ مظلوم اورمظلوم میں فرق کیا جاتا ہے اوروہ بھی اس کے مذہب، مسلک اورفرقہ کی بنیاد پر۔ اس نظریہ کوانسانیت نوازی اور رواداری کے نظریہ سے بدلنے کی ضرورت ہے۔ بیشک اپنوں کا خیال زیادہ آتا ہے۔ لیکن اگرایک بستی میں آگ لگی اور اس میں کچھ گھر غیروں کے بھی گھرراکھ ہوگئے توانسانیت کا تقاضا پورا کیجئے۔ حضورصلعم نے میدان جنگ میں دیکھا کہ ایک نوجوان لڑکی بغیر دوپٹہ، چادر اپنے بیٹے کی تلاش میں ادھرادھر بھاگی پھررہی ہے۔ آپ ؐ نے اپنی چادراتار کرایک صحابی کو دی کہ اس کو اڑھادو۔ کہا گیا وہ توہمارے دشمن فریق کی بیٹی ہے توفرمایا،توکیا ہوا، ہے توکسی کی بیٹی ہی۔“ یہ ہے وہ تعلیم جس پر ہمیں عمل کرنا ہے۔ ہم آگے بڑھیں اورہرمظلوم کا سہارا بن جائیں توانشاء اللہ ماحول بدلے گا۔ایسے موقع پر افضل یہ ہوگا کہ پہلے غیر کی خبرگیری کی جائے تاکہ اس کا دل پسیجے اورمخالفت کا رویہ ترک کردے۔
فروغ تعلیم کے ادارے
دوسرا اہم پہلو فروغ تعلیم کا ہے۔ تعلیمی اداروں کے قیام کے وقت ہم اپنے مشن میں غیرمسلم بچوں کو شامل کرنے کو بھول جاتے ہیں اوراپنے اداروں کو اپنے بچوں کے لیے گھیٹو بنادیتے ہیں۔ ہم اپنے اسکولوں میں ایسا ماحول بنائیں جب ہمارے بچے میدان عمل میں جائیں توغیرمسلم ان کو اجنبی نہ لگیں۔ایسے اداروں کی چندمثالیں میرے سامنے ہیں۔مسلم یونیورسٹی اورجامعہ ملیہ توروز اول سے اسی نظریہ پر قائم ہیں۔ چند سال قبل میگھالیہ میں یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹکنالوجی جانے کا موقع ملا۔ یہ یونیورسٹی علی گڑھ سے انفارمیشن ٹکنالوجی کے ایک نوجوان گریجوئیٹ محب الحق کی سوجھ بوجھ کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے ایک ٹرسٹ بناکر کام ایک چھوٹے انفارمیشن ٹکنالوجی انسٹی ٹیوٹ سے شروع کیا۔ یونیورسٹی کا منصوبہ بنایا، جس پر آسام حکومت نے توتوجہ نہ دی، لیکن میگھالیہ حکومت نے تعاون کا ہاتھ بڑھایا۔ گواہاٹی سے قریب یونیورسٹی کے لئے ایک بڑی آراضی الاٹ کر دی۔ٖفنڈس بھی دئے۔ 2005میں علاقے میں پہلی پرائیویٹ یونیورسٹی قائم ہوگئی۔ معیاراعلیٰ ہے اور اس میں طلباء واسٹاف میں کوئی مذہبی تفریق نہیں۔ ایسے ہی بیدر(کرناٹک) میں ایک انجنیر ڈاکٹرعبدالقدیر نے شاہین گروپ آف ایجوکیشن قایم کیا ۔ کئی ایکڑ میں پھیلے اداروں میں ہزاروں بچے تعلیم پارہے ہیں۔بچیوں کے سیکشن میں ہم نے دیکھا نصف سے کچھ کم غیرمسلم بھی ہیں اورمسلم بچیوں کے ساتھ شیروشکر ہیں۔ اس ادارے کی خصوصیت یہ ہے کہ نئے حفاظ میں میڈیکل کالجوں اور دیگرپیشہ ورانہ کورسز میں داخلہ کی اہلیت پیداکردیتا ہے۔کئی سوحافظ فیضیاب ہوچکے ہیں۔ حیدرآباد میں ڈاکٹرفخرالدین محمد(میسکو) بنگلور میں ڈاکٹرممتاز خاں کی الامین ایجوکیشنل سوسائٹی اورپونا میں پے اے انعامدارکی سرپرستی انوکھا اعظم کیمپس۔ سب یہی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ نام اوربھی ہیں۔ یہ سب صاحبان خاموشی سے کام کرنے والے ہیں۔ ابھی بدایوں میں بھی ایک نیا چمن آراستہ ہورہا ہے، کلیم الحفیظ اکیڈمی۔ ہائی اسکول اورانٹرمیں صدفیصد نتائج اوراب شاہین کا حافظ پلس کورس بھی شروع ہوگیا۔ یہ سب اسی راہ کے مسافر ہیں جس کے نقوش حکیم عبدالحمید کے کردار میں ملتے ہیں۔ حکیم صاحب کو سیرسید ثانی کہا جاتا ہے۔ مگردونوں میں ایک بڑافرق تھا۔سرسید کے یہاں دھوم دھڑلا بہت تھا، حکیم صاحب کے کام میں خاموشی تھی۔
بدگمانی اوربد گوئی
آخری نکتہ یہ ہے کہ ہماری ملت میں بدگمانی اوردوسروں کی ٹوپیاں اچھالنے کا مرض بہت عام ہے۔ بعض لوگوں کو تواس کے سوا کچھ اورکام ہی نہیں۔ ان کا یہ رویہ اتحاد کی شہ رگ پر چھری ہے۔اب خیرسے یہ صاحبان سوشل میڈیا پر ٹرالنگ میں بھی سکون پاتے ہیں۔ہمیں اپنے اعمال سے زیادہ دوسروں کے عقائد کی فکر کھائے جاتی ہے۔ اس رویوں سے بچناچاہئے۔ میں نے گاندھی جی کو پڑھنے کی کوشش کی ہے۔ جب کبھی کسی مسئلہ پر رائے دینے سے بچنا ہوتا، وہ چپی کے روزے یعنی’مون برت‘ کا حربہ اختیارکرلیتے۔ بعض اوقات خاموش رہنا بولنے سے بہتر ہوتا ہے۔ مگرشیطان اندرگھس جاتا ہے۔ ہم نے نہ خاموش رہنے کی مصلحت کوسمجھا ہے اورنہ گویائی کے آداب کو۔ مومنانہ فراست اس کے بغیر کیسے پروان چڑھے گی؟
: 8077982485