Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, September 22, 2019

” ہمراہی“۔۔۔۔ایک افسانہ

                            ۔ہمراہی۔
                     از  ظفر امام ،  
           صداٸے وقت۔   /عاصم طاہر  اعظمی۔                      _____________________
ظفر امام

____
     ریل گاڑی کی تیزگامی اور برق رفتاری ہولے ہولے اب مدھم روی اور سست رفتاری کا شکار ہوئ جارہی تھی ، اور میرے " ہمراہی " کی منزل قریب سے قریب تر ، جوں جوں میرے " ہمراہی" کی منزل قریب سے قریب تر ہوتی جارہی تھی توں توں اس کی جدائ اور ہجر کے خوف سے میرے دل کی دھڑکنیں بھی تیز سے تیز تر کی طرف قدم بڑھاتی جارہی تھیں ، اور گاہے شدت و افراطِ غم کے مارے اتنی تیزی اختیار کرلیتیں کہ اس کی "دھک دھک" کرتی آواز کانوں کے پردے پر نمایاں طور پر محسوس ہونے لگتی ، اور لا شعوری طور پر لوحِ قلب پر طرح طرح کے امڈتے خیالات کا سیلِ رواں جاری ہوجاتا اور پھر یہ سوچ کر کہ:- اب اس سے آگے " ہمراہی " کا کیا مقدر بنےگا ؟ اور خدا جانے اسے کن کن دشوار گزار اور پُر خار مراحل سے گزرنا پڑےگا ، پلکیں نم اور آنکھیں بھیگ سی جاتیں ؛
                             اوائلِ نومبر کی ایک ابتدائی خنک شب تھی، دن کے پردہ فرمائ کے بعد رات کی جلوہ آرائ تھی، انسان اور حیوان ، سب کمر کھولنے کے لئے اپنے اپنے ٹھکانوں کو پہونچ چکے تھے ، پرند و پکھیرو کی چہکاریاں اور نوا سنجیاں اب ان کے آشیانوں میں مقید و محبوس ہوچکی تھیں ، تال تلیوں کی آبی سطح پر مچھلیاں کسی شکاری اور مچھیرے کے جال سے بےخوف اپنے گلپھڑے  کھلائے اور آنکھیں نکالے خشکی دنیا کی بو قلمونیوں اور رنگینیوں کا نظارہ کر رہی تھیں ، رات کی تیرہ وتار گھٹاؤں نے انوار وتجلیات کو اپنی دبیز چادر میں چھپایا ہوا تھا ، ردائے آسمان کی سیاہی ستاروں کے پُھندنوں سے جِھل مِل جھِل مِل کر رہی تھی ، سماں میں خنک اور سرد فضاؤں کی گرم بازاری تھی ، اوس و شبنم کے قطرات مثیلِ ابر باراں تسلسل کے ساتھ زمین پر نازل ہورہے تھے ، بادِ صرصر کے تیز جھونکے مساماتِ جسم کے راستے نس نس میں خنکی کا احساس دلا رہے تھے ؛
                اس پُرکیف فضا اور سرور و مستی کی رات میں میری ٹرین کسی برقی لہر کی مانند اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی ، اور میں اپنے  کیبن میں اپنی نششت گاہ پر پاؤں پھیلائے بیٹھا اپنے گرد و پیش سے بےخبر کسی سحر انگیز اور جلوہ ریز ناول نگار کی سحر انگیزی اور جلوہ ریزی سے معمور " سیریز " کے مطالعہ میں غرق تھا ، اور اس کی حلاوت و چاشنی سے کافی حظ  اٹھا رہا تھا ، باوجودیکہ کھڑکیوں کے راستے آتی خنک اور ٹھنڈی ہواؤں کے من لُبھاون اور پر مست جھونکے آنکھوں کو دعوتِ نوم دے رہے تھے ، لیکن اس " سیریز " کی ظاہری دلچسپی و خوش منظری اور باطنی حلاوت و چاشنی مجھے ابھی تک سونے کی بالکل اجازت نہیں دے رہی تھی ؛
                  کہ دفعۃً ایک معمر اور کہن سال بزرگ زمانے کے حوادثات اور حالات کے تھپیڑوں سے جوجھتا ہوا ہاتھ میں ایک  دیمک خوردہ چوب دستی لئے اور اس پر ایک فرسودہ زنبیل لٹکائے ، بدن پر چیتھڑے زدہ گدڑی ڈالے ، پیروں میں قدیم ڈھانچے  کی چپل گھسیڑے ، شانے پر بوسیدہ اور پھٹے ہوئے شال چھوڑے ، آنکھوں میں نظر کے چشمے لگائے ، کانوں میں مائیکرو فون رکھے اور لبوں پر ایک پھیکی اور کسک آمیز سی مسکراہٹ سجائے کسی سائے کی مانند عین میرے سامنے آ نمودار ہوا ؛
             اس کی بگڑی ہیئت ، پراگندہ بال ، کثافت آمیز بدن اور اترا چہرہ اس بات کا غماز تھا کہ وہ اجنبی کسی اجنبی منزل کا راہی و مسافر ہے ؛
         ہر چند کہ وہ ہر زاویے اور ہر گوشے سے در ماندگی ، تعب زدگی اور شکستہ خوردگی کا ایک پیکرِ مجسم لگ رہا تھا ، لیکن اس کے باوجود اس کے چہرے پر سکون و اطمینان کے آثار و علائم  ہُویدا تھے ، اس کی ظاہری حالت باطنی کیفیت سے یکسر جداگانہ اور بالکل مختلف  تھی ؛
                  بہرکیف وہ کس راستے سے آیا ، کب آیا اور کیسے آیا مجھے اس کا احساس تک نہ ہوا ، احساس تو مجھے تب ہوا جب اس کے تبریدی ہاتھوں کا لمس میرے پیروں نے محسوس کیا اور انہوں نے اپنی لرزتی اور کپکپاتی انگلیوں کے سہارے میرے پرسکون پیروں پر حرکت دے ڈالی ، اور اپنے لبوں کو وا کرتے ہوئے " اسکیوز می " کہ کر میرے روئے سخن کو اپنی طرف پھیرنا چاہا ، اول اول تو مجھے اس کی اس الہڑ پنی اور خشک مزاجی پر کافی گرانی گزری ، چہرہ غصہ کے مارے تمتمانے لگا اور ماتھے کی سلوٹیں غیظ و غضب کے مارے واضح طور پر نظر آنے لگیں کہ انہوں نے بے وقت مداخلت سر انجام دینے کا بیڑا اپنے سر اٹھایاتھا ؛
               قریب تھا کہ میری زبان سے کچھ جلی کٹی اور کھری کھوٹی باتیں نشتر و ناوک کی طرح بڑے میاں کے نحیف اور کمزور جسم کو چھلنی چھلنی کردیتیں ، لیکن مصورِ ازل نے فطری طور پر انسان کے اندر جو انس و محبت ، الفت و مؤدت اور لینت و رأفت کا خمیر رکھا ہوا ہے؛ اس نے عین وقت پر میری دستگیری اور رہنمائ کی( اور یوں میں ایک بہت بڑے ظلم سے بچ گیا ) معاً اپنی پلکیں اوپر اٹھاتے ہوئے نرم رویہ اور سرد لہجہ اپناتے ہوئے بڑے میاں سے پوچھا ، بولو بابا! کچھ کہنا ہے؟ بابا کی لڑکھڑاتی زبان اور رندھتے گلے سے صرف میں نے اتنی بات سنی کہ بیٹا! مجھ غریب پر دَیا ( رحم ) کرو ؛ دیکھو! مجھے پَو پھٹے تک سفر کرنا ہے ، تم مجھ پر صرف اتنی سی مہربانی کردو کہ مجھے اپنی سیٹ پر بیٹھنے کی اجازت دیدو ، نہ جانے بابا کی  اس بھرائ آواز میں کون سی کشش اور جاذبیت انگڑائیاں لے رہی تھیں کہ اس نے مجھے اپنا اسیر اور گرویدہ بنا لیا ، اور بلا کسی تاخیرکے انگلیوں کے اشارےسے بابا کو بیٹھنے کو کہہ دیا ؛
                اس کے بعد میری نگاہ پھر سے کتاب پر مرتکز ہوگئ ، لیکن اب مجھے کتاب کے پڑھنے میں کوئ دلچسپی نہیں معلوم ہورہی تھی ، بار بار ذہن کے دریچے سے بابا کا وہی بگڑا سراپا ابھر کر نگاہوں کے سامنے رقص کرتا نظر آتا ، اور کبھی بابا کی وہی بھرائی ہوئ آواز کانوں کے پردے پر دستک دیتی محسوس ہونے لگتی ، جس کی بناء پر ذہن میں اس" سیریز " کے سارے تانے بانے " تارِ عنکبوت " کی مانند بکھر کر رہ جاتے ؛ چار ناچار میں نے کتاب کو حوالۂ سوٹ کیس کیا ، اور" ہاں بابا! آپ کو کہاں تک جانا ہے" ؟ کا سوال داغ کر  سکوت اور خامشی کے اس لمبے دبیز پردے کو چاک کر ڈالا ، بابا، جو بیٹھتے ہی اپنےگرد و پیش سے بے خبر اپنے ماضی کے کسی خیالات کی تہ میں غرق ہوچکے تھے ، میری بات سن کر چونکتے ہوئے عالمِ خیالات سے باہر نکل آئے ، اور آنکھوں میں اشکوں کے موٹے موٹے قطرے لئے، ایک لمبی سانس کھینچتے ہوئے کہنے لگے ؛
بیٹا! مجھ سے یہ نہ پوچھو کہ" کہاں اور کدھر جانا ہے " ، کیونکہ مجھے خود نہیں معلوم کہ میں کہاں جارہا ہوں، میں انجان راہ کا ایک انجان راہی  ہوں ، نہ جانے میری قسمت مجھے کہاں تلک لیکر جائےگی ؟ بابا کے ان چند الفاظ نے مجھے حیرت و استعجاب کے سمندر میں ڈال دیا تھا ، اور مجھے ان کی کتابِ زندگی کا عکس کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگ گیا تھا ، تاہم ابھی تک چونکہ اس کے اکثر ابواب مقفل تھے ، اور بھلا میرا تجسسانہ ذہن ان کو کھولے بغیر کب چین کی سانس لے سکتا تھا ، اس لئے میں نے بات کے سلسلے کو طولانی کا جامہ پہناتے ہوئے بابا سے درخواست کرڈالی تھی کہ:- بابا! اگر آپ کو بارِ خاطر نہ ہو تو ذرا کھل کر اپنے بارے میں بتائیں گے؟ میری بات سن کر بابا پھر کسی گہری سوچ میں پڑگئے تھے ، اور پھر ایک لمبی" سرد آہ بھرتے ہوئے " اپنا درد و غم سے لبریز قصہ کچھ یوں سنانے لگے تھے کہ بیٹا! میں نے ایک خوش حال اور فارغ البال گھرانے میں اپنی آنکھیں کھولی تھی ، گھر میں ہر چیز کی فراوانی میسر تھی ، نہایت ہی آسودہ حالی اور خوش گواری کے ساتھ زندگی گزر رہی تھی ، ابو ، امی کی خوش گپیوں ، بھائ بہنوں کی شرارتوں اور ہُڑمستیوں ، رفیقۂ حیات کے ناز و نخروں اور بال بچوں کی کُلکاریوں اور چہکاریوں سے میرا گھرانہ کسی "جنت نشاں" سے کم نہیں لگ رہا تھا ،  ہمارا کاروانِ زندگی انہیں موج و مستیوں کی شاہ راہ پر گامژن اور رواں دواں تھا اور سفینۂ حیات ساحلِ بامراد کی طرف محوِ سفر کہ نہ جانے اس لہلہاتے اور گلِ گلزار چمن پر کس کی نظر لگ گئ ، اس کے بعد بابا پھر تھوڑ دیر رکے  اور ایک لمبی سانس ہوا میں خارج کرتے ہوئے ، اپنے لہجے میں درد والم کا ایک طوفان سمیٹے کہنے لگے ؛
                   کہ :- بیٹا! اور پھر ایک دن میری زندگی کے دمکتے اور چمکتے کھلیان میں میری حیاتِ مستعار کا سب سے بڑا المناک ، درد ناک اور کربناک حادثہ رونما ہوا کہ ایک دن میں اور میرے سارے فیملی ممبرس کسی غیر متوقع حادثہ کا شکار ہوگئے ؛ اور خدا کے کرنے سے اس حادثے میں سوائے میرے اور کوئ بھی نہ بچ سکا،
اور دیکھتے ہی دیکھتے میری قسمت نے یوں قلابازی کھائ کہ چشمِ زدن ہی میں میری آرزؤوں اور تمناؤں کا شیش محل خس و خاشاک کی مانند کسی تیز رو پانی کے بہاؤ میں بہہ گیا ؛
                بیٹا! وہ دن ہے اور آج کا دن کہ آج برسوں کی مدت گزرجانے کے بعد بھی وہ حادثہ کسی خاردار درخت کی مانند میرے جسم کے انگ انگ کو ہر آن و ہر لمحہ چھلنی چھلنی کئے رہتا ہے ، اس کے بعد اس حادثہ کی وحشتناکی اور الم انگیزی میرے خانۂ دل کے نہا خانوں میں کچھ اس طرح پیوست اور جاگزیں ہوگئ کہ میں نے دوبارہ اپنے گھر کا رُخ ہی نہیں کیا ، اور کرتا بھی کیسے کہ وہاں اب سوائے صحراء وسَراب اور چند وحشتناک اور بھیانک عمارات و کھنڈرات کے رکھا ہی کیا تھا ؛
           بیٹا! تم ہی بتاؤ کہ جس کا نہ کوئ  گھر ہو اور نہ کوئ در بلکہ اس کی دنیا مٹی کے ذروں کے نصیب بن گئ ہو ، اب وہ تم کو اپنی منزل کہاں اور کس جگہ بتائے ، سو میری کوئ منزل ہی نہیں ، اللہ کے نام پر نکلا ہوں ، اور صبح ہوتے ہی اتر جاؤنگا ، مجھے خود نہیں معلوم کہ میری قسمت نہ جانے مجھے کون سی منزل تک پہونچاتی ہے، یہ تو میری زندگی کی روٹین بن گئ ہے کہ صبح کہیں ہوتا ہوں اور شام کہیں اور ؛
                     بابا بے خودی کے عالم میں اپنی دکھ بھری سر گزشت سنائے جارہے تھے اور مجھے اپنی طرف بنائے رکھنے کے لئے بار بار اپنے مرتعش اور لرزیدہ ہاتھوں کو میرے شانے پر حمائل کئے جارہے تھے ، اور میں تھا کہ کسی مصنوعی مورت اور  تراشیدہ بُت کے مانند ان کی باتوں کو سنے جارہا تھا ، اور آنکھیں تھیں کہ کسی ساون کی گھٹا کی مانند برسی جارہی تھیں ، دل تھا کہ افسوس کے مارے اس کا شیرازہ بکھر چکا تھا اور اب اشکوں کی لڑیاں میرے رخسار کی حد کو پار کرکے ٹھڈی کو تربتر کر رہی تھیں ؛
               اسی محویت کے عالم میں رات کب رخصت ہوئی اور سورج کب طلوع ہوا ، کچھ پتہ ہی نہ چلا ، اور ابھی میں اسی عالمِ خیالات میں غلطاں و پیچاں ہی تھا کہ اچانک اور یک بیک ایک زور کے جھٹکے کے ساتھ ٹرین رکی اور ساتھ ہی میرے خیالات کے ہجوم نے بھی دَم توڑ ڈالا ، فوراً ہی اپنے گرد وپیش پر نگاہ دوڑائ ، دیکھا کہ بابا اپنی اُس مختصر سی دنیا { چوب دستی اور اس پر لٹکی زنبیل } لئے ٹرین سے نیچے اتر چکا ہے ، اور جب مجھے اس کے درد کے مداوٰی کا کچھ خیال آیا تب تک کافی دیر ہوچکی تھی، بس! میں اپنا دل مسوس کر رہ گیا ، اور جب تک کہ وہ نگاہوں سے اوجھل نہ ہوگیا ، حسرت بھری نظروں سے انہیں دیکھتا رہا ؛
                         ظفر امام ، کھجورباڑی
                        ٹیڑھاگاچھ ، کشن گنج