Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, September 22, 2019

ٹیپو سلطان شہیدؒ کی محفل میں چند روز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دوسری قسط۔


✏ فضیل احمد ناصری/صداٸے وقت۔
=============================
*سری رنگا پٹنم کو ہماری روانگی*
طے شدہ پروگرام کے مطابق ہمیں ایک بجے نکلنا تھا، مگر نکلتے نکلتے ڈیڑھ بج گئے۔ ہماری گاڑی شارعِ عام پر لگی تھی۔ پہونچے تو دیکھا کہ ایک بڑی خوب صورت عمارت میرے سامنے ہے۔ دروازے پر ایک صاحب جلوہ فرما تھے۔ دیو ہیکل۔ بڑے بڑے اور بے تکے بال۔ داڑھی ندارد۔ ہاتھ میں رکشا بندھن جیسے دھاگے۔ میں نے انہیں سے پوچھا کہ یہ شادی ہال ہے کیا؟ کہا: ہاں! پھر وہیں کسی نے بتایا کہ یہ عمارت کبھی سینما ہال ہوا کرتی تھی، اب اسے شادی خانہ میں بدل دیا گیا ہے۔
پونے دو بجے ہماری گاڑی چلی۔ اس میں ہمارے کاروانِ دیوبند کے ساتھ دو افراد اور بھی تھے۔ ہمیں بتایا گیا کہ سری رنگا پٹنم یہاں سے 120 کلومیٹر دور ہے۔ ہماری گاڑی کے ساتھ دو تین گاڑیاں اور بھی تھیں، جن میں حضرت سید صبغت اللہ صاحب دام ظلہم کی گاڑی بھی تھی۔ ہم بنگلور یونیورسٹی کے راستے ہوتے ہوئے آ گے بڑھے۔ بڑھتے رہے۔ راستے میں بنگلور کی مرکزی جامع مسجد بھی پڑی۔ سڑک کے دونوں طرف کے نظارے بڑے دل فریب تھے۔ خوب صورت عمارتیں اور ہر دو قدم پر ہرے بھرے درختوں کی قطاریں۔ ناریل کے باغات بہ کثرت نظر آئے۔ دن کے پونے چار بج چکے تھے کہ ہماری گاڑی اچانک رک گئی۔ بائیں طرف سہارا نامی ایک ہوٹل تھا۔ بتایا گیا کہ ہمارا ظہرانہ یہیں ہے۔ ہمارا پورا قافلہ ہوٹل میں داخل ہوا۔ کھانے کے لیے ہمارے پاس جو اشیا آئیں ان میں تیتر مسلّم بھی تھا۔ میں نے تیتر پہلے کبھی کھایا نہیں تھا۔ مرغ مسلّم کے بجائے تیتر مسلّم!! میں چونک گیا۔ مولانا زین الدین صاحب زید مجدہم نے بتایا کہ بنگلور میں مرغ کی جگہ تیتر ہی استعمال میں ہے۔ کھایا تو بڑا ذائقہ بخش لگا۔ ھنیئاً مریئاً۔ بکرے کی بریانی سے بھی لذت یاب ہوا۔ ضمیمے کے طور پر چائے نوشی بھی رہی۔
*مہدوی گاؤں*
ہم ہوٹل سے باہر نکلے تو میں نے اپنے ایک رفیقِ سفر سے پوچھا کہ یہ کون سا علاقہ ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ *چندن پٹن* ہے۔ پھر کہنے لگے کہ مہدوی فرقے کے افراد پورے کرناٹک میں سب سے زیادہ یہیں آباد ہیں۔ یہاں کی کل آبادی میں 70 فی صد مہدوی ہیں۔ اترپردیش کے جون پور *محمد* نامی ایک شخص اٹھا تھا، جس نے مہدویت کا دعویٰ کر کے ہندوستان کی فضا کو خراب کرنے کی کوشش کی۔ اس کی پیدائش 1443 ء میں، جب کہ وفات 1505ء میں ہوئی ہے۔ یہ شخص ایران ہوتے ہوئے مکہ گیا اور وہاں اپنے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا۔ علمائے امت نے جب اس کا تعاقب کیا تو وہ ہندوستان لوٹ آیا۔ افغانستان کے فراہ میں اس کی موت ہوئی اور وہیں مدفون ہے۔ مہدوی فرقے کے نزدیک محمد جونپوری حضورﷺ کو چھوڑ کر بقیہ سارے انبیاء سے افضل ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو محمد جونپوری کو مہدی نہ مانے وہ کافر ہے۔ اس فرقے کے لوگ عام مسلمانوں کی طرح ہی رہتے ہیں۔ اس کے بعض مذہبی رہ نما ہمارے ہی مدارس کے تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔
اسی محمد جونپوری کا ایک مرید ملاّ محمد اٹکی بھی تھا۔ جس نے بلوچستان میں ذکری فرقے کی بنیاد رکھی۔  ذکری فرقہ مہدوی فرقے سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ وہ پیغمبرﷺ کو صرف نبی اور محمد جونپوری کو خاتم الانبیاء مانتا ہے۔ اس کے بقول قرآن کریم محمد جونپوری پر نازل ہوا، نہ کہ محمدﷺ پر۔ عیاذاً باللہ!
مجھے معلوم تھا کہ مہدوی فرقہ کرناٹک میں پایا جاتا ہے، مگر یہی وہ گاؤں ہے، جہاں اس کی اکثریت ہے، یہ میرے لیے نیا انکشاف تھا۔ خیر، اب ہم آگے بڑھے۔
*رام نگرم*
چندن پٹن سے گزرے تو رام نگرم بھی راستے میں پڑا۔ رفیقِ سفر نے بتایا کہ مولانا قاسم قریشی اسی علاقے سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ الیاسی تحریک کے قد آور رہ نماؤں میں تھے۔ کرناٹک کے امیرِ جماعت۔ بڑا ہی مؤثر بیان کرتے۔ کرناٹک ہی کیا، ملک بھر میں ان کے معتقدین پائے جاتے ہیں۔ ریاست کے ہر اجتماع کی آخری تقریر انہیں کی ہوتی۔ 72 برس کی عمر پائی۔ جولائی 2016 میں ان کا انتقال ہوا۔
ہماری گاڑی دوڑتی اور بھاگتی رہی۔ شام کے چھ بج گئے تو ہمارا قافلہ ایک عمارت کے سامنے رک گیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہی سری رنگا پٹنم ہے اور حضرت ٹیپو سلطانؒ اسی احاطے میں آرام فرما ہیں۔

*ٹیپو سلطان کی تربت پر*
سری رنگا پٹنم کا نام میں اس وقت سے سن رہا تھا، جب سے میں نے عربی درجات کی تعلیم کا آغاز کیا۔ یہ ایک تاریخی مقام ہے، جو کسی دور میں ریاستِ میسور کا دارالخلافہ بھی رہ چکا تھا۔ میری بڑی خواہش تھی کہ اس علاقے کی زیارت کروں اور ٹیپو سلطان مرحوم کی قبر پر فاتحہ پڑھوں ۔ شہید مرحوم سارے مسلمان کے ہیرو تھے۔ عجیب و غریب اور البیلی شخصیت ۔ میرا خیال تھا کہ یہ جگہ بڑی آباد ہوگی اور ہندوستان کے دیگر تاریخی مقامات کی طرح یہاں بھی بھیڑ بھاڑ ہوگی، مگر ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ اب یہاں ویرانی ہی ویرانی تھی۔ ہم جلدی جلدی آگے بڑھے تو دیکھا کہ ایک بڑا گنبد سامنے کھڑا ہے۔ دائیں طرف مسجد ہے۔ ہم پہلے گنبد میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ اس میں تین قبریں ہیں۔ کلید بردار نے بتایا کہ جانبِ مشرق سے پہلی قبر ٹیپو شہید کی والدہ کی ہے، اس سے متصل مغرب کی طرف ٹیپو کے والد کی، اور سب سے اخیر میں ٹیپو شہید کی۔
[اگلی قسط میں پڑھیں: ٹیپو سلطان کے مزار کا نقشہ و دیگر]