ازقلم، محمود اختر کیفی
متعلم، دارالعلوم وقف دیوبند،
سنہ ، ٢٢محرم الحرام ١٤٤١ہجری بمطابق ٢١ ستمبر ٢٠١٩عیسوئ -/صداٸے وقت۔
=============================
قارئین کرام! ملک کی عدالت عظمیٰ، مرکزی وریاستی حکومتوں کی ہدایات اور تنبیہ کر نے کے بعد بھی اگر؛ "ماب لنچنگ" (ہجومی تشدد) تشدد بڑہتا ہی جارہا ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انتظامیہ اور حکمراں طبقے کے لوگوں کو ان ایشوز کو بیخ وبن سے اکہاڑ پہیکنےاور اس فعل بد کی قباحت بیان کرنے میں جو سعی کرنی تہی، شاید انہوں نے اس کی انجام دہی میں کمی؛ کوتاہی اور غفلت برتی، کیوں کہ گزشتہ دنوں جب پارلیمان میں نو منتخب ارکان کی تقریب اور حلف برداری کے لئے اعلی ترین سیاسی قیادت اور پارلیمانی انتظامیہ کی موجودگی میں مسلم ارکان پارلیمانی کی حلف برداری کے وقت "وندے ماترم" اور "جے شری رام" کی جم کر نعرے بازی ہوئ، جن کے خلاف کارروائی تو دور کی بات اس پر کسی نے نکیر بہی نہیں فرمائی؛ کیوں کہ اس نعرے بازی کا واضح پیغام یہی تہا کہ اکثریت کی بنیاد پر امن وقانون کو اپنے ہاتھوں میں لیا جاسکتا ہے اور اس کے حوالے سے کسی کی مزاحمت کو برداشت نہیں کیا جائے گا -
ناظرین! اس میں شبہ نہیں کہ "ماب لنچنگ" یعنی ہجومی تشدد کا سلسلہ پچہلے کئی صدیوں سے چلتا آرہا ہے؛ بلکہ اگر یہ کہاجاے کہ تاریخ اسلام کی پہلی لنچنگ پیکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کی شکل میں ہوئ تو بے جا نہ ہوگا، جنہیں سب سے پہلے بند کمرہ میں مقید کرکے کہانے پینے سے محروم رکھ کر لنچنگ کرنے کی کوشش کی گئی، مگر جب اس سے کام نہ چلا تو آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بہیمانہ بلکہ اس سے بھی بدتر سلوک کیا کیا گیا، چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ کو کفار نے ہاتھ پاؤں بل بیڑیوں میں جکڑ کر طرح طرح کی سزائیں دی حتی کہ تیز دھار دار ہتھیاروں کے ذریعےآپ رضی اللہ عنہ کے تمام اعضاء کو کاٹ دیاجاتا اور ان سے یہ کہا جاتا کہ اب بہی تم دین اسلام چہوڑدو ہم تمہیں بری کریں گے اور تمہاری جگہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو لے آئیں گے، لیکن قربان جاؤں حضرت خبیب رضی اللہ عنہ پر جو خون سے لت پت زخموں سے مجروح عشق نبی کریم میں جذباتی ہو کر لرزتے زبان سے ان کفار گستاخ رسول کے ببانگ دہل یہ اعلان کرتا ہے "کاش کہ اگر میری سو جانیں ہوتیں تو بہی میں اپنی ساری جانیں عشق نبی میں قربان کردیتا، مگر میرے حبیب کے تلوے میں ایک کاںٹا تک چبہنے نہ دیتا"-
قارئین! یہ تہی اللہ اور اس کے رسول سے محبت وعشق کی کیفیت جو "ماب لنچنگ" کی تاریخ بن کر بہی ایمانی قوت میں کسی طرح کی کوئی کمی پیدا ہونے نہ دی، جو کہ موجودہ حالات کے پیش نظر امت محمدیہ کے لیے قابل تقلید اور بہترین نمونہ ہے -
ہجومی تشدد سے متعلق حالات حاضرہ پر آئے دن رونما ہونے والے واقعات پر اگر گیرائی وگہرائ کی نظر دوڑائی جائے تو مشترکہ طور پر یہ بات سمجھ آتی ہے کہ اس فعل بد کا شکار زیادہ تر مسلم اور پچھلے طبقے کے لوگ ہیں، جنہیں بطورِ خاص ٹارگیٹ کیا جاتا ہے اور ان پر خوف وہراس کا ماحول پیدا کیا جاتا ہے، جس میں عناصر پسند، دلوں میں بغض وعناد کی چنگاڑیاں رکہنے والے، مذہب کے نام پر آپسی کہںچاتانی کو فروغ دینے والے انسانیت سے پرے ہوکر ظلم وزیادتی اور ہجومی تشدد کو اپنا شیوہ بنا کر معاشرے میں بدنما داغ لگانے اور انسانیت کو شرمسار کرنے میں کوئی کسر نہیں چہوڑتے جس کے نتیجے پورے ملک میں بد امنی وبدنظمی قائم ہوتی ہے-
ہجومی تشدد کے نام پر ہونے والی قتل وغارت کاسب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس میں سارے الزامات بہیڑ وہجوم کے نام کرکے مرکزی وریاستی حکومت کنارہ کش ہوجاتی ہے اور بجاے اس سنگین جرم کی تحقق وتفتيش کرنے کے خود کو ان معاملات میں پڑنے سے اور کوئی اہم اقدام کرنے سے الگ ہو جاتی ہے؛ جن کے نتیجے شرپسندوں کو مذہب کے نام پر غنڈہ گردی کرنے اور تشدد برتنے کا بہترین مواقع فراہم ہوتا ہے ؛ جبکہ ہجومی تشدد پر قابو پانے اور اس پر بریک لگانے کے لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ بہیڑ میں چہپے یا بہیڑ کے اندر موجود بہیڑیوں کی نہ صرف نشان دہی کی جائے؛ بلکہ انہیں کیفر کردار تک پںہںچایاجاے، لیکن افسوس کہ صورت حال اس کے برعکس ہے -
ناظرین! ہجومی تشدد کے حوالے سے بطورِ خاص یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ اس گہناؤنی فعل کو انجام دینے والے اکثر بڑے بڑے منصب پر فائز حکمرانوں کا ایک طبقہ ہوا کرتا ہے؛ جن کی باطل طاقت وقوت کو تشدد پسند لوگ اپنی طاقت بناکر اور جن کی سیاسی پالیسیوں اور ملمع سازیوں کو اپنا ڈھال بناکر ہر کس وناکس خصوصاً مذہبی شناخت رکھنے والے پر ہمہ وقت زوروجبر، ظلم وزیادتی کرنے اور اپنے دلوں کے بھڑاس نکالنے میں تلے رہتے ہیں اور جنہیں چنیدہ لوگوں کے ذریعے مذہب، دیش دروہی، اور دہشت گردی کے نام پر اقلیتوں کے خلاف نفرت کی بیچ ڈالی جاتی ہے، جوکہ ملک میں امن وامان، چین وسكون کی فضاء قائم کرنے کے لیے مانندزہر ہے -
اب سوال یہ ہے کہ ہمیں اس "ماب لنچنگ" (ہجومی تشدد) کے خلاف کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہئے؟ آیا یہ کہ ہجومی تشدد کے خلاف (ماب لنچنگ ختم کرو اور اس کے مرتکب کو سخت سزائیں دو مظلوموں کو انصاف دلاؤ) متفرقہ طور پر مختلف مقامات میں جم کر نعرے بازی کرنی چاہیے؟ یا پہر اس فعل بد کو جڑسے ختم کرنے کے لیے ان بہگواغنڈہ، عناصر پسند لوگوں کے خلاف اجتماعی طور پر کوئی اٹوٹ فیصلہ لے کر اقدام کرنا چاہیے؟ یا پھر اس ہجومی تشدد کے پیچھے چھپی طاقت اور طاقت وروں کو قانونی دائرے میں رہ کر بشکل دفاعی مکمل طور پر بوسیدہ اور کمزور کرنا چاہیے؟ یاپہر ہمیں تمام امن پسند، صلح وآشتی، بہائی چارگی، اخوت وہمدردی(چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو) کا مظاہرہ کرنے والوں کی مدد اور اجتماعی قوت حاصل کرکے صدرجمہوریہ اور وزیرداخلہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس فعل بد (ماب لنچنگ)سے واقف کراتے ہوئے اس سلسلے میں ایک جرأت مندانہ یادداشت ان کے حوالے کرنی چاہئے؟ جس میں صاف صاف یہ بات لکھی ہو کہ اب پانی سر سے نہیں چہت سے اونچا جاچکا ہے، اور اگر اس صورت حال پر قابو نہیں پایا گیا تو ملک میں بد ترین دہشت گردی پیدا ہونے کا امکان ہے -
اب سوال یہ ہے کہ ہمیں اس "ماب لنچنگ" (ہجومی تشدد) کے خلاف کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہئے؟ آیا یہ کہ ہجومی تشدد کے خلاف (ماب لنچنگ ختم کرو اور اس کے مرتکب کو سخت سزائیں دو مظلوموں کو انصاف دلاؤ) متفرقہ طور پر مختلف مقامات میں جم کر نعرے بازی کرنی چاہیے؟ یا پہر اس فعل بد کو جڑسے ختم کرنے کے لیے ان بہگواغنڈہ، عناصر پسند لوگوں کے خلاف اجتماعی طور پر کوئی اٹوٹ فیصلہ لے کر اقدام کرنا چاہیے؟ یا پھر اس ہجومی تشدد کے پیچھے چھپی طاقت اور طاقت وروں کو قانونی دائرے میں رہ کر بشکل دفاعی مکمل طور پر بوسیدہ اور کمزور کرنا چاہیے؟ یاپہر ہمیں تمام امن پسند، صلح وآشتی، بہائی چارگی، اخوت وہمدردی(چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو) کا مظاہرہ کرنے والوں کی مدد اور اجتماعی قوت حاصل کرکے صدرجمہوریہ اور وزیرداخلہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس فعل بد (ماب لنچنگ)سے واقف کراتے ہوئے اس سلسلے میں ایک جرأت مندانہ یادداشت ان کے حوالے کرنی چاہئے؟ جس میں صاف صاف یہ بات لکھی ہو کہ اب پانی سر سے نہیں چہت سے اونچا جاچکا ہے، اور اگر اس صورت حال پر قابو نہیں پایا گیا تو ملک میں بد ترین دہشت گردی پیدا ہونے کا امکان ہے -
اگر آپ مذکورہ تدابیر سے اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہیں تو آپ اقدامی سوچ وعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس خطرناک وکربناک فعل بد (ماب لنچنگ) کو دوامی نیند سلانے کے لیے اپنی فکری اعتدال، عقلی اختراع، مثبت پہلو اور نظریہ توازن پیش کریں؛ کیوں کہ دفاعی سوچ اور دفاعی پالیسیوں کے ذریعے ترقی وعروج تو درکنار وجود تشخص بہی باقی نہیں رہتا -
دعاءفرمائیں! کہ اللہ تعالیٰ پوری امت محمدیہ کو امن وامان کی زندگی سے مالا مال کرکے اس فعل بد (ماب لنچنگ) کو جڑ سے ختم کر نے اور اس کے مرتکبین کو ہدایت کو ہدایت نصیب فرمائے - آمین ثم آمین
دعاءفرمائیں! کہ اللہ تعالیٰ پوری امت محمدیہ کو امن وامان کی زندگی سے مالا مال کرکے اس فعل بد (ماب لنچنگ) کو جڑ سے ختم کر نے اور اس کے مرتکبین کو ہدایت کو ہدایت نصیب فرمائے - آمین ثم آمین