صداٸے وقت/ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔
=============================
گزشتہ 14 ستمبرکو سعودی عرب کی آرامکو کمپنی کی تنصیبات واقع شمالی اور مغربی آٸل فیلڈ عبقیق اور خریص پر ڈرون و میزاٸل سے حملہ ہوا۔۔اس حملے سے خطے میں کشیدگی میں زبردست اضافہ۔ہوا ہے۔حملہ کے نتیجہ میں تیل کی پیداوار میں بھی کمی آٸی ہے اور قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا۔سعودی کی تیل تنصیبات پر حملہ ایک بزدلانہ حرکت ہے اور اس کی جتنی بھی مذمت کی جاٸے کم ہے۔۔۔سعودی کے فرماں روا شاہ سلمان بن عبد العزیز نے صحیح کہا کہ یہ عالمی تیل کی تجارت پر حملہ ہے۔
=============================
گزشتہ 14 ستمبرکو سعودی عرب کی آرامکو کمپنی کی تنصیبات واقع شمالی اور مغربی آٸل فیلڈ عبقیق اور خریص پر ڈرون و میزاٸل سے حملہ ہوا۔۔اس حملے سے خطے میں کشیدگی میں زبردست اضافہ۔ہوا ہے۔حملہ کے نتیجہ میں تیل کی پیداوار میں بھی کمی آٸی ہے اور قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا۔سعودی کی تیل تنصیبات پر حملہ ایک بزدلانہ حرکت ہے اور اس کی جتنی بھی مذمت کی جاٸے کم ہے۔۔۔سعودی کے فرماں روا شاہ سلمان بن عبد العزیز نے صحیح کہا کہ یہ عالمی تیل کی تجارت پر حملہ ہے۔
عرب و ایران کے تعلقات پر نظر ڈالی جاٸے تو دونوں کے بیچ خلیج فارس سے بھی گہری خلیج ہے ۔اسلامی دنیا کے یہ دونوں طاقتور ملک ہیں مگر سپر میسی اور مسلکی اختلافات کو لے کر دونوں ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔یمن اور شام کے معاملات کو بھی لیکر دونوں میں اختلافات ہیں اور بالواسطہ طور پر ایک دوسرے سے نبر آزما ہیں۔
امریکہ اور سعودی کے تعلقات بہت بہتر ہیں مگر امریکہ اور ایران دشمنی جگ ظاہر ہے۔امریکہ ہر وہ حرکت کر رہا ہے جس سے ایران کو نقصان پہنچ سکے۔
امریکہ نے ایران پر ہر طرح کی اقتصای پابندیاں عاٸد کر رکھی ہیں ان حملوں کے بعد ٹرمپ نے امریکی وزیر خزانہ کو ہدایت جاری کردی ہے کہ ایران پر پابندیاں اور سخت کردی جاٸیں۔
سعودی عربیہ کے آٸل تنصیبات پر حملے کی ذمے داری یمن کے حوثی باغیوں نے قبول کر لی ہے ۔۔یمن میں انھیں حوثیوں سے سعودی عرب جنگ لڑ رہا ہے۔۔۔اس میں شک کی گنجاٸش کم ہے کہ یہ حملہ حوثیوں نے نہ کیا ہو۔مگر امریکہ نے اس حملے کے لٸیے ایران کو ذمے دارٹھرا رہا ہے جبکہ ایرانی وزیر خارجہ نے اس کی تردید کی ہے۔
حوثیوں کا قبول نامہ و ایران کی تردید کا اثر امریکہ قبول کرنے کو تیار نہیں۔اس کا کہنا ہےکہ یہ حملہ ایران کی سر زمین سے ہوا ہے اور ثبوت کے طور پر اس نے ایران کے ہی بنے ہوٸے ڈرون و میزاٸل کے پارٹس بھی پیش کر دٸیے اور سعودی عرب کی حکومت کے دفاع کے لٸیے بیتاب ہے جبکہ شاہ سلمان نے خود کہا ہے کہ ہم اپنی حفاظت خود کرنے میں اہل ہیں۔
روسی تجزیہ نگار کے مطابق سعودی کے اس آٸل فیلڈ کے قریب ہی امریکہ نے 88 پیٹریاٹ میزاٸل نصب کر رکھے ہیں ۔۔۔جب ان آٸل فیلڈ پر حملہ ہو رہا تھا تو امریکی میزاٸل سسٹم کیا کر رہا تھا۔یا تو اس کا نظام خراب ہوگیا ہو یا پھر جان بوجھ کر امریکہ ایران کو مورد الزام ٹھرا رہا ہو۔
سعوی میں اس حملے کو لے کر سب سے زیادہ فکر امریکہ کو ہے اور وہ ایران کو بار بار دھمکی دے رہا ہے۔۔۔ٹرمپ کا ٹویٹ روزانہ ایران کے خلاف زہر اگلتا ہے اور سعودی عرب کو اشتعال دلاتا ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کھلے لفظوں میں کہا ہے کہ ”ایران پر کسی بھی طرح کا حملہ“کھلی جنگ کے مترادف ہوگی۔۔۔۔غنیمت یہ ہے کہ سعوی عرب ابھی اشتعال انگیزی کے بجاٸے درمیانہ روی اپناٸے ہوٸے ہے۔۔۔امریکہ کی چلی ہوتی تو اب تک سعودی و ایران میں جنگ چھڑ چکی ہوتی۔
کیا اسی طرح کا کچھ واقعہ اعراق و ایران کے درمیان نہیں ہوا تھا۔۔۔امریکہ نے اعراق کے صدر صدام حسین کے ذریعہ ، انھیں ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کراکر ایران کے ساتھ جنگ کرادی۔۔یہ جنگ تقریباً ٨ سال چلی اور ١٠ لاکھ مسمان دونوں طرف سے جاں بحق ہوٸے اربوں کا دونوں ممالک کا مالی خسارہ ہوا۔اس جنگ کا نتیجہ کچھ نہیں نکلا سواٸے دونوں ممالک کی بربادی کے۔
اس کے بعد کے حالات کیا ہوٸے سب تاریخ کا حصہ ہے اور امریکہ نے اسی صدام حسین کو عین عید الاضحیٰ کے دن تختہ دار پر لٹکا دیا۔ اس وقت دونوں مسلم ممالک مضبوط تھے اور مزید ترقی کی طرف گامزن تھے جو امریکہ سے دیکھا نہیں گیا اور دونوں کو برباد کر دیا
اس وقت ایران اور سعودی دو ایسے مسلم ممالک ہیں جو تیل کی دولت سے مالا مال ہیں ۔ترقی کی طرف گامزن ہیں ۔عربوں میں تعلیم و تکنک آرہی ہے ۔ایران جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش میں ہے ایسے میں امریکہ کو کیسے برداشت ہوگا۔۔۔اس کی دیرینہ خواہش ہے کہ سعودی اور ایران کی جنگ ہو جاٸے ۔سعودی کے دفاع کا بہانہ لیکر وہ ایران پر چڑھ دوڑے ۔اس کو تباہ کرنے کے بعد سعودی سے اس کی قیمت وصول کرتا رہے۔
ایسے حالات میں دونوں ممالک کو صبر و تحمل سے کام لینا ہوگا۔۔سعودی کو بھی سوچ سمجھ کر حقاٸق کا پتا لگا کر کوٸی اقدام کرنا ہوگا۔۔۔آنکھ بند کرکے امریکہ کی باتوں پر یقین کرنا اپنے کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔
بعض مبصرین کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ یہ حملہ امریکہ نے خود کروایا ہے اور مورد الزام ایران کو ٹھرا رہا ہے ۔ جبکہ اس علاقے میں امریکہ کے میزاٸل شکن آلات نصب ہیں تو پھر حملہ کیسے ممکن ہوا۔
دنیا کے مسلمان دونوں ممالک کی طرف حسرت سے دیکھ رہے ہیں انھیں مظبوط ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں ۔صہیونی و مسیحی طاقتوں کو منھ توڑ جواب دینا چاہتے ہیں یہ تبھی ممکن ہے جب دونوں ممالک جنگ کے شعلوں سے اپنے کو بچا لیں