Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, September 12, 2019

اسلامی تاریخ اور بر صغیر کی کشمکش۔!!!!


- شاہنواز فاروقی -September 13, 2019/صداٸے وقت۔
=============================
اسلام کی ہر چیز غیر معمولی ہے… اسلام کی تاریخ اور اس کا عسکری پہلو بھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب اسلام کا غیر معمولی پن دوسری اقوام کے غیر معمولی پن کے سامنے آکر کھڑا ہوتا ہے تو دوسری اقوام اور تہذیبوں کے غیر معمولی پن سے لفظ ’’غیر‘‘ اچانک غائب ہوجاتا ہے اور صرف ’’معمولی پن‘‘ باقی رہ جاتا ہے۔
اسلامی تاریخ کا غیر معمولی پن یہ ہے کہ دنیا کی کسی دوسری قوم کے پاس نہ قرآن ہے، نہ سیرتِ طیبہ۔ آسمانی کتب تو دوسری اقوام کے پاس بھی ہیں، مگر کسی قوم کے پاس ویسا علمِ تفسیر نہیں جیسا مسلمانوں کے پاس ہے۔ پیغمبر دوسری اقوام کے پاس بھی ہیں، مگر کسی کے پاس نہ محمدؐ ہیں، نہ ان کے جیسی جامع سیرتِ پاک، اور نہ ایسا علمِ حدیث جیسا علمِ حدیث مسلمانوں کے پاس ہے۔ مسلمانوں کی فقہ کی روایت کے سامنے پوری انسانیت کی فقہ بچوں کا کھیل ہے۔ مسلمانوں کے پاس ایسی شاعرانہ روایت ہے کہ اگر مولانا رومؒ کی شاعری ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دی جائے اور ہندو، عیسائی، یہودی تہذیب کی پیدا کردہ شاعری ترازو کے دوسرے پلڑے میں رکھ دی جائے تو معنویت اور کیفیت کے اعتبار سے مولانا کی شاعری کا پلڑا بھاری ہوگا۔ امام غزالیؒ کے ایک معاصر نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔ انہوں نے دیکھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں اور حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ بھی تشریف فرما ہیں۔ اس منظر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عیسیٰؑ اور حضرت موسیٰؑ سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا آپ کی امتوں میں غزالی جیسا کوئی عالم ہے؟ اور دونوں انبیا نے کہا کہ ہماری امتوں میں غزالی کے پائے کا کوئی عالم نہیں۔ مسلمانوں نے جدید علوم و فنون کے دائرے میں ایسے عظیم مفکرین پیدا کیے جن کے بغیر مغرب کی مشہورِ زمانہ نشاۃ ثانیہ ممکن ہی نہیں تھی۔ یہ بات ہم نہیں کہہ رہے، بلکہ یہ بات مغرب کے دو دانش ور رابرٹ بریفالٹ اور مائیکل ہملٹن مورگن نے اپنی کتب Making of Humanity اور Lost History میں کہی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ بلاشبہ مسلمانوں نے نیوٹن اور گلیلیو کو پیدا نہیں کیا، مگر مسلمانوں کے بغیر نیوٹن اور گلیلیو پیدا نہیں ہوسکتے تھے۔ مسلمانوں کی تاریخ کا یہی غیر معمولی پن ان کی تاریخ کے عسکری پہلو میں بھی پوری طرح جلوہ نما ہے۔
مسلمانوں کی عسکری تاریخ کا نمایاں ترین اور ششدر کردینے والا پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں نے ہمیشہ بہت کم انسانی اور عسکری وسائل کے ساتھ اپنے دشمن کو شکست دی ہے۔ غزوۂ بدر میں 313 مسلمانوں کا مقابلہ ایک ہزار کے لشکرِ جرار کے ساتھ تھا۔ مسلمانوں کے پاس ایک گھوڑا تھا اور کفار کے پاس سیکڑوں گھوڑے تھے۔ مسلمانوں کے پاس چند تلواریں اور چند زرہ بکتر تھیں اور کفار کے لشکر کے پاس سیکڑوں تلواریں اور زرہ بکتر تھیں۔ مگر مسلمانوں نے کفار اور مشرکین کو شکست سے دوچار کیا۔ غزوۂ احد میں مسلمانوں کے پاس ایک ہزار کا لشکر تھا اور ان کے حریفوں کے پاس تین ہزار کا لشکر تھا۔ اس معرکے میں بھی مسلمان فتح یاب ہوگئے تھے مگر مسلمانوں کی ایک معمولی سی غلطی کی وجہ سے اسلامی لشکر کو شکست ہوگئی۔ یہ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک کا ذکر تھا۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں مسلمانوں نے وقت کی دو سپر پاورز کو منہ کے بل گرا دیا۔ رومی سلطنت کے انہدام سے پہلے مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان جو معرکہ جنگِ یرموک کے عنوان سے برپا ہوا اُس میں طبری کے مطابق مسلمانوں کا لشکر 15 ہزار اور ابن اسحق کے مطابق 24 ہزار نفوس پر مشتمل تھا۔ اس کے برعکس رومیوں کا لشکر ایک روایت کے مطابق ایک لاکھ اور دوسری روایت کے مطابق دو لاکھ افراد پر مشتمل تھا۔ مگر مسلمانوں نے حریف لشکر کو روند ڈالا اور وقت کی ایک سپر پاور کو صفحہ ہستی سے مٹادیا۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں دوسری سپر پاور سلطنتِ فارس تھی۔ روایات کے مطابق اس معرکے میں مسلمانوں کا لشکر صرف 30 ہزار افراد پر مشتمل تھا، جبکہ ایرانی لشکر ایک لاکھ 80 ہزار فوجیوں پر محیط تھا۔ مگر مسلمانوں نے صرف تین دن میں ایرانی لشکر کو شکست سے دوچار کردیا۔ ظاہر ہے یہ خلافتِ راشدہ کا قصہ ہے، مگر عہدِ رسالتؐ اور عہدِ خلافت کے دائروں سے باہر بھی مسلمانوں کی عسکری فتوحات غیر معمولی ہیں۔ طارق بن زیاد اسپین میں مسلمانوں کی اُس سلطنت کے بانی تھے جو 600 سال تک زندہ رہی۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ طارق بن زیاد ایک روایت کے مطابق 10 ہزار اور دوسری روایت کے مطابق 17 ہزار فوجی لے کر اسپین کی سرزمین پر اُترے تھے۔ یہ اتنی کم فوج تھی کہ طارق بن زیاد نے عیسائی لشکر کے ساتھ معرکہ آرائی سے قبل اپنی ساری کشتیاں جلوا دیں تاکہ کوئی مسلمان فوجی اس خیال میں نہ رہے کہ وہ میدانِ جنگ سے فرار بھی ہوسکتا ہے۔ 17 ہزار مسلمانوں کا چھوٹا سا لشکر ایک لاکھ عیسائیوں کے مقابل تھا، مگر اس کے باوجود مسلمانوں نے ایک لاکھ کے لشکر کو شکستِ فاش سے دوچار کردیا۔

طارق بن زیاد نے جس زمانے میں اسپین فتح کیا، تقریباً اسی زمانے میں محمد بن قاسم نے سندھ فتح کرکے اسلام کا پرچم لہرایا۔ تاریخی ریکارڈ کے مطابق محمد بن قاسم کا لشکر صرف 11 ہزار فوجیوں پر مشتمل تھا۔ اس لشکر کا مقابلہ راجا داہر کی فوج سے ہوا جو ایک لاکھ افراد پر مشتمل تھی، مگر محمد بن قاسم نے جن کی عمر اُس وقت 17 سال سے کچھ زیادہ تھی، راجا داہر کے اس لشکر کو الٹ دیا جس میں کئی درجن ہاتھی بھی تھے۔
یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ بابر برصغیر میں مغل سلطنت کا بانی تھا، مگر یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ بابر ہندوستان آیا تو ایک روایت کے مطابق اُس کے پاس 8 ہزار فوجی تھے۔ دوسری روایت کے مطابق اُس کے فوجیوں کی تعداد 10 ہزار تھی۔ بابر کے مقابل ابراہیم لودھی کی فوج تھی جو ایک لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ بابر نے کئی بار کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوا۔ پھر ایک دن اس نے خدا سے وعدہ کیا کہ اب وہ کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگائے گا۔ مؤرخین کے مطابق بابر نے اس کے بعد دشمن پر حملہ کیا اور فتح نے اس کے قدم چومے۔
مسلمانوں کی اس حیران کن تاریخ کی پشت پر بلاشبہ غیر معمولی انسان بھی موجود ہیں، مگر یہ حیران کن تاریخ اپنی اصل میں اسلام کی تاریخ ہے۔ یہ اسلام ہے جس نے معمولی لوگوں کو غیر معمولی، معمولی تہذیب کو غیر معمولی تہذیب، اور معمولی تاریخ کو غیر معمولی تاریخ بنایا۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں بے پناہ فتوحات ہوئیں۔ اُس وقت اسلامی لشکر کے سپہ سالار خالد بن ولیدؓ تھے۔ چنانچہ لوگ مسلمانوں کی فتوحات اور خالد بن ولیدؓ کو باہم مربوط کرکے ہم معنی بنانے لگے۔ حضرت عمرؓ نے یہ دیکھا تو خالد بن ولیدؓ جیسے صحابی اور سپہ سالار کو معزول کردیا۔ لوگوں نے اعتراض کیا تو حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہماری فتوحات خالدؓ کی وجہ سے نہیں بلکہ اسلام کی وجہ سے ہیں۔
اسلام کی وجہ سے وقت کی سپر پاورز کو شکست دینا مسلمانوں کی تاریخ کا معمول ہے۔ مسلمانوں نے دو سپر پاورز کو حضرت عمرؓ کے زمانے میں منہ کے بل گرایا۔ لوگ سمجھتے تھے کہ یہ تاریخ کبھی دہرائی نہ جاسکے گی۔ مگر اسلام زندہ تھا، چنانچہ مسلمانوں نے 20 ویں صدی میں وقت کی ایک سپر پاور سوویت یونین کو افغانستان میں شکست سے دوچار کیا۔ دوسری سپر پاور امریکہ 21 ویں صدی کے سینے پر افغانستان میں منہ کے بل گری ہوئی ہے۔ کیا دنیا میں امتِ مسلمہ کے سوا کوئی امت ہے جس نے اپنی تاریخ میں چار سپر پاورز کو شکست دی ہو؟ پانچ ہزار سال کی معلوم تاریخ ہمارے سامنے ہے، اور یہ تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں کے سوا کسی امت نے آج تک چار سپر پاورز کو بہت کم وسائل ہونے کے باوجود شکست نہیں دی۔
کہنے والوں نے کہا ہے: بڑا سوچو اور بڑے بن جائو۔ سلیم احمد کا شعر ہے:
اک پتنگے نے یہ اپنے رقصِ آخر میں کہا
روشنی کے ساتھ رہیے روشنی بن جائیے
تاریخ گواہ ہے کہ جس نے اسلام کو سینے سے لگایا، بڑا بن گیا۔ اسلام نہ ہوتا تو ابوبکر صرف ابوبکر ہوتے، صدیق اکبرؓ نہ ہوتے۔ اسلام نہ ہوتا تو عمر صرف عمر ہوتے، فاروقِ اعظمؓ نہ ہوتے۔ اسلام نہ ہوتا تو عثمان صرف عثمان ہوتے، عثمان غنیؓ نہ ہوتے۔ اسلام نہ ہوتا تو علی صرف علی ہوتے، علی مرتضیٰؓ نہ ہوتے۔ مسلمانوں کی جدید تاریخ میں بھی اسلام کی فتوحات بے پناہ ہیں۔ اقبال استاد داغؔ کے شاگرد تھے اور استاد داغؔ کی شاعری میں کوئی بڑا خیال اور بڑا تجربہ موجود نہیں۔ چنانچہ اقبال داغؔ کے شاگرد رہتے تو دوسرے داغؔ یا اُن سے کچھ بڑے شاعر ہوتے۔ اقبال قوم پرست بھی تھے، اور قوم پرستی نے آج تک کوئی بہت بڑا شاعر پیدا نہیں کیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اقبال کی آرزو کو بدل دیا۔ انہیں اسلام کی عظمت کے سائے میں کھڑا کردیا۔ چنانچہ اقبال شاعرِ اعظم بن کر اُبھرے۔ محمد علی جناح اپنی تمام تر ذکاوت کے باوجود صرف ایک بڑے وکیل اور کانگریس کے ایک رہنما ہوتے۔ مگر انہیں اسلام نے دو قومی نظریہ بن کر چھو لیا اور محمد علی جناح قائداعظم بن گئے۔ لوگ قائداعظم کا موازنہ گاندھی اور نہرو سے کرتے ہیں، لیکن قائداعظم اتنے بڑے رہنما ہیں کہ گاندھی اور نہرو اُن کے سیکریٹری ہوتے تو یہ ان کے لیے اعزاز کی بات ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گاندھی اور نہرو نے کِیا ہی کیا ہے؟ قائداعظم کے سوانح نگار اسٹینلے والپرٹ نے لکھا ہے کہ تاریخ میں ایسے بہت کم لوگ ہوئے ہیں جنہوں نے تاریخ کے دھارے کا رُخ موڑا ہے، اس سے بھی کم لوگ وہ ہوئے ہیں جنہوں نے جغرافیہ بدل دیا ہے، اور ایسا تو شاید ہی کوئی ہو جس نے قومی ریاست قائم کی ہو۔ قائداعظم نے بیک وقت یہ تینوں کام کیے۔ جیسا کہ ظاہر ہے گاندھی اور نہرو نے ان تینوں کاموں میں سے کوئی کام بھی نہیں کیا۔ مگر قائداعظم کی ساری عظمت اسلام سے ان کی وابستگی میں ہے۔ جب تک ان کے پاس دو قومی نظریے کا چشمہ نہیں تھا انہیں ہندو اور مسلمان ایک قوم دکھائی دیتے تھے۔ دو قومی نظریے کی قوت نے قائداعظم کی خفیہ صلاحیتوں کو بیدار کیا، انہیں منقلب کیا، Transform کیا۔ مثل مشہور ہے: کوئلے کا صبر اسے ہیرا بنادیتا ہے۔ اسلام کا جلال اور جمال ایسا ہے کہ اسلام معمولی کو غیر معمولی، کوئلے کو ہیرا اور لوہے کو سونا بنادیتا ہے۔ عمران خان نے ایک بار پھر ٹیپو سلطان کے ذکر کو عام کیا ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ تن تنہا ٹیپو انگریز سلطنت کو گرا دیتا۔ ٹیپو کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ ٹیپو کی شہادت کے بعد انگریز فوجیوں نے نعرہ لگایا کہ اب ہندوستان ہمارا ہے۔ جب تک ٹیپو زندہ تھا کوئی انگریز یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ ہندوستان انگریزوں کا ہے۔