Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, October 26, 2019

سو (100) سال۔۔۔۔۔۔۔؟ ایک اچھا تجزیہ۔

صداٸے وقت /ماخوذ
==================

سو سال ہمارے بھی پورے ہورہے ہیں سو سال ان کے بھی پورے ہونے والے ہیں سو سال میں وہ ملک کے کلیدی مناصب تک پہنچے اور سو سال میں ہم جلسے جلوس کے لیے ملک کے کونے کونے تک پہنچے سو سال میں وہ ہِنْدُوتْوَ کی ترویج واشاعت میں مصروف رہے اور سو سال میں ہم سیکولرزم کا تحفظ کرنے میں مشغول رہے. سو سال میں انھوں نے اپنی خود کی  سیاسی پارٹی کے بل بوتے پارلیمنٹ کی قطعی اکثریت حاصل کی اور سو سال میں ہم سیاست سے دوری پر فخر کرتے رہے اور نام نہاد سیکولر پارٹیوں کا ووٹ بینک بنے رہے سو سال میں انھوں ایک مضبوط اسٹوڈینٹ یونین تشکیل دے کر کلیات وجامعات میں اپنے نظریہ کی ترویج کی اور ہم کلیات وجامعات کو بس ترچھی نظر سے ہی دیکھتے رہے، سو سال میں انھوں نے صحافتی میدان میں اپنے آہنی پنجے گاڑ دیے اور ہم اس بحث میں الجھے رہے کہ ویڈیو جائز ہے یا ناجائز، سو سال میں انھوں نے کارپوریٹ سیکٹر میں اپنے افراد کو بڑے پیمانے پر گھسایا اور ہم کارپوریٹ سیکٹر کے اثر ورسوخ کا صحیح اندازہ نہ کرسکے، سو سال میں انھوں نے اپنی ایک واضح ایجوکیشن پالیسی بنائی اور نئی نسل کا ذہن نفرت سے بھر دیا اور ہم اس بحث میں لگے رہے کہ نصاب میں تبدیلی ہونی چاہیے یا نہیں، سو سال میں انھوں نے وکالت کے شعبے میں اتنی محنت کی کہ وکلا تو در کنار انصاف کی کرسیوں پر بیٹھے کئی ججس بھی ہندوتوا نظریہ کے حامل پائے گئے اور سو سال میں ہم اپنے مسائل حل کرنے کے لیے غیر مسلم وکلا کے محتاج بنے رہے، سو سال میں انھوں نے ہندوتوا کی حمایت اور اسلام کی مخالفت میں انگریزی اور ہندی زبانوں میں لٹریچر کا اتنا بڑا ذخیرہ تیار کیا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اور سو سال میں ہم اقدام کرنا تو درکنار اس لٹریچر کا جواب دینے کے لیے کوئی منظم ریسرچ ڈپارٹمنٹ قائم نہ کرسکے، سو سال میں انھوں نے کسی مذہبی قدر مشترک کے نہ ہونے کے باوجود بھارتیہ سنسکرتی کے نام پر اپنی قوم کو متحد کردیا اور سو سال میں ہم ہر طرح کے وجوہ اشتراک کے باوجود اپنی ہی تنظیم کو دو دھڑ میں بٹنے سے نہ بچاسکے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم نے کوئی تعمیری کام نہیں کیا۔ تحریک آزادی میں سرگرم طور پر حصہ لینے، انفرادی وسماجی زندگی کو مذہب سے جوڑنے، انسانی بنیادوں پر برادران وطن سے تعلقات قائم کرنے، عوام کو علما سے مربوط کرنے، قیدیوں کی قانونی مدد کرنے، سیاسی ایشوز پر مسلمانوں کے لیے آواز اٹھانے، حکومتی نمائندوں سے مل کر مسائل حل کرانے اور مصیبت زدگان کا مالی تعاؤن کرنے جیسے قابل تقلید و قابل تعریف کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں؛ لیکن جب ہم اپنا ان سے تقابل کرتے ہیں تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ وہ ملک کے ہر شعبے میں زور دست و زبردست ہیں اور ہم زیر دست وتہی دست۔ ان سب باتوں کے لکھنے کا مقصد محض تنقید کرنا نہیں ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے عمل کا حساب کریں اور اپنا احتساب کریں۔ ملت کے زعما وقائدینْ جمعیت وجماعت سے اوپر اٹھ کر سر جوڑ کر بیٹھیں اور اپنی سرگرمیوں کا ایک قطعی وبنیادی ہدف متعین کریں اور پھر ذیلی اغراض ومقاصد کی تعیین کریں۔ پھر اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ایک سو سالہ طویل مدتی منصوبہ بندی اور پنج سالہ مختصر مدتی منصوبہ بندی کرکے بنیادی نکات پر اتفاق کریں۔ اس منصوبہ بندی پر عمل کرنے کے لیے داخلی وخارجی دونوں محاذ پر کام کرنے کا لائحہ عمل تیار کریں۔ اور اس لائحہ عمل کی  تطبیق کے لیے مختلف شعبوں کو قطعیت دیں؛ زندگی کے بڑے شعبوں میں کام کرنے کے لیے ذیلی تنظیمیں بنائیں؛ ان تنظیموں سے وابستہ افراد کی تربیت کے لیے مستقل تربیت گاہوں کا قیام عمل میں لایا جائے اور ہنگامی صورتحال میں عارضی کیمپس لگائے جائیں۔ ہر شعبے کو دوسرے شعبے سے یک گونہ مربوط اور یک گونہ خود مختار رکھا جائے۔ اور وقفے وقفے سے اپنی ذمہ داریوں کا حساب اور ذمہ داروں کا احتساب کیا جاتا رہے۔

صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم۔!
کرتی ہے  جو ہر گھڑی اپنے عمل کا حساب۔!

طویل مدتی اور مختصر مدتی کو رو بعمل لانا مشکل تو ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے. یہ ایک مختصر سا خاکہ ہے اس کی تفصیل کے لیے سینکڑوں صفحات درکار ہیں:

اک  لفظِ  محبت کا اتنا سا فسانہ ہے۔۔۔!
سمٹے تو دلِ عاشق پھیلے تو زمانہ ہے۔!

فیصلہ کریں کہ سو سال پیچے جانا ہے یا سو سال آگے۔۔۔۔۔اور پھر بتائیں کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔