Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, October 30, 2019

”جہاں نما کی سیر“۔۔۔۔۔قسط 2۔۔۔۔۔۔



 فضیل احمد ناصری /صداٸے وقت
===========================
*مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم کا تعارف*
.........................................................
مدرسہ بیت العلوم کا نام میں بہت پہلے سے سنتا آ رہا تھا۔ اس سے نادیدہ طور پر ہی محبت بھی ہو چکی تھی۔ کیوں نہ ہو، یہ گلشن شاہ عبدالغنی پھول پوریؒ کا لگایا ہوا ہے۔ وقت کا حکیم و مجدد اس کا سرپرستِ اول رہا۔ مدرسہ پہونچا تو دیکھ کر بڑی مسرت ہوئی کہ یہ ادارہ میرے طے کردہ اندازے سے کافی بڑا تھا۔ خوب صورت عمارتیں۔ فلک بوس تعمیرات۔ انوار و برکات سے نہائی ہوئی دیواریں۔ سفید و براق۔ ہری بھری پھلواریاں۔


 یہ مدرسہ اعظم گڑھ کے بڑے اداروں میں سے ایک ہے۔ اس کا رقبہ 12 بیگھے سے کچھ زائد ہے۔ اس وقت یہاں لگ بھگ 2700 طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔ عربی درجات کے ساتھ حفظ اور دینیات کے بھی شعبے ہیں۔ عربی درجات فارسی سے دورۂ حدیث تک ہیں۔ تکمیلِ ادب اور تکمیلِ افتا کے ساتھ تخصص فی الحدیث بھی قائم ہے۔ دینیات کا نظامِ تعلیم درجۂ اطفال سمیت چھ سالہ نصاب پر مشتمل ہے، جس میں اردو عربی کے ساتھ عصری علوم کا نظم بھی ہے۔ تعلیم اتنی ٹھوس کہ طلبہ پانچویں جماعت پڑھ کر ہندی میڈیم اور انگلش میڈیم میں بہ آسانی داخلہ لے سکیں۔ طلبۂ دینیات کل کے کل مقامی ہیں ۔ انہیں لانے، لے جانے کے لیے بیت العلوم کے پاس 16 بسیں بھی ہیں۔ مطبخ کا نظام نہایت صاف ستھرا اور قابلِ رشک ہے۔ مدرسے کی کل پانچ بلڈنگیں ہیں۔ ایک بلڈنگ دارالمطالعہ کے نام سے ہے۔ یہ دومنزلہ ہے۔ دوسری عمارت *دارالتحفیظ قدیم* کے نام سے ہے، یہ بھی دو منزلہ ہے۔ آج کل پرائمری درجات کی تعلیم اسی میں ہو رہی ہے۔ تیسری عمارت کا نام  *دارالتحفیظ جدید* ہے، اس کی منزلیں دو ہیں۔ اس میں بھی پرائمری درجات چل رہے ہیں۔ چوتھی عمارت دار الحدیث سے موسوم ہے۔ یہ پانچ منزلہ ہے۔ حفظ اور عربی کی تمام درس گاہیں یہیں قائم ہیں۔ پانچویں بلڈنگ *رواقِ پھول پوری* کے نام سے ہے۔ یہ تین منزلہ ہے۔ طلبۂ حفظ کا دارالاقامہ یہی ہے۔ مدرسے کے وسط میں ایک وسیع عیدگاہ ہے۔ کچھ اس طرح سے واقع، معلوم ہو کہ بیت العلوم کا ہی حصہ ہے۔ اس عیدگاہ میں مجدد تھانویؒ کا بیان بھی ہو چکا ہے۔

*بیت العلوم کے بانی*

اس ادارے کی خاص بات یہ کہ اس کی بنیاد حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھول پوریؒ نے ڈالی۔ یہ حکیم الامت حضرت تھانویؒ کے خلفائے اجل میں تھے۔ بڑے ہی صوفی و مرتاض۔ جنیدِ زمانہ۔ مقبولیت و مرجعیت میں استدلالی حیثیت سے سرفراز۔ علم و عمل کے جامع۔ مجمع البحرين ۔ تصوف میں فقید المثال۔ 1293 میں اپنے وطن *چھاؤں* (اعظم گڑھ) میں پیدا ہوئے ۔ بعد میں پھول پور ہجرت کی تو پھول پوریؒ سے مشہور ہوئے۔ 1383ھ مطابق 1963 میں پاکستان میں وفات پائی۔

شاہ صاحبؒ نے پوری زندگی قابلِ رشک گزاری۔ وہ اپنے مرشد سے بے پناہ تعلق رکھتے۔ ارتباط ایسا کہ ان کے ہی اشارے پر ادارے کا نام *بیت العلوم* رکھا۔ یہ نام حکیم الامتؒ کا تجویز کردہ ہے اور *سرائے میر* کے مناسب بھی۔

*مدرسے کے نظما و نائبین*

یہاں یہ بھی عرض کر دوں کہ بیت العلوم میں *مہتمم* لفظ کا کوئی وجود نہیں۔ یہاں اس کی جگہ *ناظم* رائج ہے۔ یہ ادارہ 1930 میں قائم ہوا، اس وقت سے لے کر اب تک کل چھ نظما ہوئے، جن کے نام درجِ ذیل ہیں:

مولانا ماجد علی مانوی جونپوریؒ، مولانا عبد الغنی صاحب پھول پوریؒ، حاجی محمد نذیر صاحب بکھراویؒ، مولانا ابرار الحق صاحب ہردوئیؒ، مولانا مفتی محمد عبد اللہ صاحب پھول پوریؒ اور مولانا احمد اللہ صاحب پھول پوری۔ موجودہ ناظم بانئ مرحوم حضرت مولانا عبدالغنی پھول پوریؒ کے پرپوتے ہیں۔

نائبین کی فہرست کچھ اس طرح ہے:

 مولانا سعید صاحب ہمئی پوریؒ، مولانا سالم صاحب سیہی پوریؒ، مفتی محمد عبداللہ صاحب پھول پوریؒ، مولانا جمال انور صاحب ظلی دامت برکاتہم اور مفتی محمد اجوداللہ پھول پوری زید مجدہم۔

بیت العلوم کی خوش نصیبی ہے کہ اسے ہر عہد میں اچھے منتظمین کے ساتھ بہترین اور باکمال اساتذہ بھی ملے۔ دل جمعی سے کام کرنے والے ملازمین بھی۔ سابق اساتذہ کی بات کیجیے تو ان میں حضرت مولانا محمد مسلم جونپوریؒ، مولانا ماجد علی محدث جونپوریؒ، مولانا علی احمد کوریا پاریؒ، مولانا محمد سجاد جونپوریؒ، مولانا عبدالقیوم بکھراویؒ، مولانا علی حسن چھاؤنویؒ، مولانا محمد قاسم کوٹلاویؒ اور مولانا بشیر احمد غالب پوریؒ جیسی شخصیات نظر آئیں گی۔ انہوں نے یہاں علمی مسندیں بچھا کر علوم و معارف کے دریا بہائے۔ موجودہ اساتذہ بھی بڑے قابل اور علومِ اسلامیہ کے شناور ہیں، جن میں سے بیش تر سے میں بخوبی واقف ہوں۔ اساتذہ اور ملازمین کی کل تعداد اس وقت 187 ہے۔

*اس ادارے کے مشہور فیض یافتگان*

بیت العلوم کی عمر اب 90 پار ہو چکی ہے۔ اس دوران ہزاروں فضلا یہاں کی فضا سے نکلے۔ بعض تو اتنے جید کہ پوری دنیائے علم نے ان کا لوہا مانا۔ جن میں حضرت مولانا حکیم محمد اختر پاکستانیؒ، حضرت مولانا عبدالحق اعظمی