از/ فضیل احمد ناصری /صداٸے وقت۔
========================
اپنے وطن میں رہ کے بھی بے خانماں رہے
جب تک جیے ستم زدۂ امتحاں رہے
آنکھوں کو خشک ہونے کی فرصت نہیں ملی
چشمے لہو کے دونوں ، ہمیشہ رواں رہے
بے داغ ہی ہمیشہ رہی ، شانِ امتیاز
غیرت کو ساتھ لے کے چلے ، ہم جہاں رہے
کانٹے سے بھی نباہ کیا گل کے ساتھ ساتھ
ہم ساری عمر نازشِ ہندوستاں رہے
بجلی گری ، زمین ہلی ، آندھیاں چلیں
پھر بھی مگر ہمارے ارادے جواں رہے
ظلمت کدے کو ہم نے چراغاں بنا دیا
پہونچے جہاں بھی ، نور کے ہم پاسباں رہے
آخر بلند ہو کے رہا حق کا آفتاب
دشمن نبی کے آج تلک بے نشاں رہے
ہم نے بھی جذب کر لی ہے فطرت عقاب کی
اترے زمیں پہ ہم بھی مگر پَر فشاں رہے
اے ناصری! تمہیں وہ ترقی نصیب ہو
ہر دم تمہارے زیرِ قدم آسماں رہے