Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, October 5, 2019

ٹیپو سلطان شہیدؒ کے شہر میں چند روز۔۔۔۔۔۔۔۔۔قسط نہم (9ویں).


✏ فضیل احمد ناصری /صداٸے وقت۔
=============================
*میر صادق کون تھا؟*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہندوستان کی تاریخ میں دو چہرے ایسے سیاہ ہیں، جنہیں دنیا کی کوئی طاقت سفید نہ کر سکی اور ابدی ذلتیں ان کا مقدر بنیں۔ ان میں سے ایک تو میر جعفر ہے اور دوسرا میر صادق۔ ہمارے حلقے میں عام تاثر یہ ہے کہ یہ دونوں کم و بیش ایک ہی عمر کے تھے اور ایک ہی وطن کے رہائشی ۔ بلکہ دونوں آپس میں رشتہ دار بھی، مگر ایسا ہے نہیں۔ میر جعفر کا وطنی تعلق بنگال سے تھا اور میر صادق کا حیدر آباد دکن سے۔ 
میر صادق۔

میر جعفر کی پیدائش 1691 میں ہوئی اور تاریخِ وفات 5 فروری 1765 ہے۔ جب کہ میر صادق 4 مئی 1799 کو واصلِ جہنم ہوا۔
میر صادق پر تفصیلی روشنی ڈالنے سے پہلے میر جعفر پر بھی تھوڑی بات ہو جائے۔ یہ شخص شیعہ تھا اور بنگال کی مسلم حکومت میں فوج کا سردار۔ بعد میں ترقی پا کر فوج کا سپہ سالار ہو گیا۔ مسلم حکومت کی سربراہی اس وقت نواب سراج الدولہ کے ہاتھ میں تھی۔ میر جعفر نہایت بد باطن، عہدے کا حریص اور حکمرانی کا بھوکا تھا، اس نے حکومت کا خواب دیکھنے کے لیے انگریز سے ساز باز کر لی، پھر غداری کر کے فرنگی طائفہ کو بنگال پر حملے کی راہ دے دی، نتیجتاً سراج الدولہ کو شکست ملی اور انگریز نے اس کی جگہ پر اس غدار کو بٹھا دیا۔ اس کا نواب بننا تھا کہ بنگال کی تہذیب و ثقافت کو نیست و نابود کر دیا گیا۔ اس کی صنعتیں تباہ کر دی گئیں۔ قالین کا کاروبار ختم ہو کر رہ گیا۔ ملت پر یہ سانحہ 1757 میں گزرا۔
رہا میر صادق، تو یہ بھی شیعہ تھا اور وطن تھا دکن۔ یہ غدار شخص ٹیپو سلطان کے والد حیدر علی کا معتمد بھی رہ چکا تھا۔ ایک دفعہ حیدر علی نے اسے معزول کر دیا تو ایسا کبیدہ خاطر ہوا کہ دل ہی دل میں انتقام کی تیاریوں میں لگ گیا۔ حیدر علی نے اسے عہدے پر بحال تو کر دیا، مگر اس کے غصے کی آگ ٹھنڈی نہ ہو سکی۔
*باپ کا بدلہ بیٹے سے*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت گزرتا رہا۔ یہاں تک کہ ٹیپو مرحوم سریر آرائے میسور ہو گئے۔ سلطان ٹیپو نے اس پر اتنا زیادہ اعتماد کیا کہ حکومتِ میسور کی مجلسِ شوریٰ کا صدر تک بنا دیا، حتی کہ وزیرِ اعظم بھی۔ برطانوی حکومت اور میسوری سلطنت کے درمیان کل چار جنگیں ہوئی ہیں، جن کی تفصیل آگے آئے گی۔ دونوں کے درمیان جب تیسری جنگ ہوئی تو اس کے اختتام پر حکومت کی بہتری کے لیے سلطان نے ایک کمیٹی بنائی، جس کا نام رکھا: *زمرۂ غم نہ باشد*، میر صادق نے اسے ناکام بنا دیا۔ ٹیپو کو اس کی غداری کا علم تو تھا، مگر وہ موقعے کی تاک میں تھے، افسوس کہ انہیں 
وہی میسر نہ ہو سکا۔ سلطان نے آخری دن اس سے کہا تھا:

*ایسی بات نہیں کہ ہم تمہاری غداری سے آگاہ نہیں ہیں۔ تم اپنی اس بے وفائی کا مزا جلد ہی چکھو گے اور تمہاری آئندہ نسلیں تمہارے سیاہ کارناموں کی نحوست سے ایک ایک دانہ کی محتاج ہوں گی* ۔
میر صادق نے انگریزوں سے اپنا تعلق اس درجہ استوار کیا کہ یہاں کی ساری باتیں ان تک پہونچاتا اور کوشش کرتا کہ باہر کی خبر ٹیپو تک پہونچنے نہ پائے۔ انگریزی فوج انہیں جیسے غداروں کی مدد سے سری رنگا پٹنم میں داخل ہوئی تھی اور ٹیپو کے قلعے کا محاصرہ کیا تھا۔ اس نے قلعے کے ایک حصے میں شگاف بھی ڈال دیا تھا۔ سلطان نے حفاظت کے لیے وہاں اپنی فوج تعینات کر دی تو میر صادق نے تنخواہ دینے کے بہانے میسوری فوجوں کو وہاں سے نکال باہر کر دیا۔ شگاف جوں ہی خالی ہوا، انگریزی فوج قلعے میں داخل ہو گئی۔ یہ سارا واقعہ 4 مئی کو پیش آیا۔
یہی وہ موقع تھا کہ فرنگیوں اور ٹیپو میں خوں ریز جھڑپیں ہوئیں۔ سلطان کے ایک ہم درد نے میر صادق کی یہ غداری دیکھی تو موقع پا کر اسی دن جہنم رسید کر دیا۔ اس کی حالت کچھ یوں ہوئی کہ اس کی لاش کئی دنوں تک یوں ہی پڑی رہی اور اس کی بدبو سے پوری فضا مکدر۔
میر جعفر اور میر صادق کی غداریاں اب استعارہ بن چکی ہیں، میر صادق کی اولاد کو انگریزی سرکار سے مراعات تو ملیں، مگر بڑی ذلتوں کے ساتھ۔ جب انہیں وظیفہ دیا جاتا تو اس طرح اعلان ہوتا: *غدار کی اولاد! حاضر ہو!
ڈاکٹر اقبال نے ان کم نصیبوں کے سلسلے میں کہا تھا اور درست کہا تھا:
جعفر از بنگال، صادق از دکن
ننگِ آدم، ننگِ دیں، ننگِ وطن
[اگلی قسط میں پڑھیں: مسجدِ اعلیٰ کی زیارت]