Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, October 24, 2019

آہ پروفیسر سید عبد الرحمٰن گیلانی!

از/ڈاکٹر شاہد بدر/صداٸے وقت۔٢٥ اکتوبر ٢٠١٩۔
==============================
آہ  پرفیسر سید عبدالرحمن گیلانی ہمارے درمیان نہیں رہے۔۔۔۔۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔۔۔رات 9:42 پر یسین پٹیل فلاحی کا فون آیا۔۔خلاف توقع۔۔خلاف معمول۔۔۔میں گہری نیند میں تھا بات نہیں ہو سکی۔آج صبح( 25.اکتوبر) نماز فجر وتلاوت کے بعد میں نے یسین کو فون کیا۔۔۔اس نےرندھی ہوئی آواز میں میرے سلام کا جواب دیا مجھے لگا جیسے یسین کی طبیعت خراب ہے ہم نے پوچھا طبیعت ٹھیک ہے نا اسنے بڑی مشکل سے الفاظ کو جوڑتے ہو جواب دیا کہ کل گیلانی صاحب کا انتقال ہوگیا۔۔میں بے ساختہ انا للہ ونا الیہ راجعون پڑھا ۔۔میں نے چند ثانیہ توقف کے بعد کہا کہ کون گیلانی صاحب۔؟؟پروفیسر سید عبدالرحمن گیلانی صاحب کا انتقال ہو گیا۔۔کل 3 بجے اچانک دل کا دورہ پڑا اور اللہ کا پیارے ہوگئے انہیں ایمس ہاسپیٹل لی جایا گیا مجھے خبر ملی میں بھی بھاگا ہوا 9 بجے ہاسپیٹل پہونچھا اور وہی سے تم کو فون کیا اور تم سو رہے تھے۔۔۔۔۔
 آہ پروفیسر سید عبدرالحمن گیلانی اسی دنیا میں نہیں رہے۔۔انا للہ ونا الیہ راجعون
میری ان سے پہلی ملاقات پارلیمنٹ واقعہ کے الزام میں دسمبر 20001 کو گرفتار کر جب وہ تہاڑ جیل میں لائے گیے تھے وہی ہوئی تھی۔۔۔افضل گرو۔۔شوکت گرو۔۔اور پروفیسر سید عبدرالحمن گیلان۔۔اکثر کورٹ ڈیٹ کے موقع  پر ہم لوگوں کی ملاقات ہوتی اور جب کبھی ایسا ہوتا کہ اشرف بھائی یسین گیلانی صاحب اور ہماری تاریخ ایک ساتھ ہوتی تو وہ دن سچ مچ ہمارے لئے عید جیسا ہی ہوتا میں کچھ دنوں تک جیل میں گیلانی صاحب کے ساتھ ایک ہی بلاک میں بھی رہا۔وہ انتہائی معاملہ فہم۔۔جہاں دیدہ،مدبر،زیرک، تحمل و بردبار، اور مظبوط عصاب کے مالک تھے ان سے مل کر جیل جیسے سخت حالات میں بھی جینے کا حوصلہ مل جاتا تھا۔
جیل کی وہ عید تہاڑ جیل وارڈ نمبر 5 ہائی سکورٹی وارڈ انہوں نے ایک روز پہلے ہی مجھ سے کہ رکھا تھا کی عید کی نماز باجماعت ادا کریں گے و گرنہ کہانا نہیں کھائیں گے۔۔پھر انہوں نے کہا کہ میں کہانا نہیں کھاوں گا آپ لوگ کھا لیں میں تو اسی وقت کھانا کھاوں گا جب یہ لوگ عید کی نماز کیلئے ایک ساتھ اکٹھا ہونے دیں گے۔۔عید آئی اور گزرگئی جیل کا کوئی ذمہ دار ہم سے ملنے نہیں آیا جیل کا کھانا آیا بس یونہی کسی نی لیا اور کسی نے نہیں لیا۔۔۔جیل میں خود کو ہی سزا دیکر احتجاج کیا جاتا ہے۔ وہ پورا دن ایسے ہی گزر گیا۔۔۔۔عید کا دوسرا دن تھا سیوادار ایک رقع لیکر آیا گیلانی صاحب نے لکھا تھا”میں نے کل سے کھانا نہیں کھایا ہے صرف اس لئے کی ہمیں عید کی نماز کیلئے اپنے وارڈوں سے نکالیں۔۔صرف اسی صورت میں کھانا کھاوں گا۔۔۔اگر یہ آج دوسرے دن بھی ہمیں موقع دیں گےتو ہم لوگ آج ہی عید کی نماز پڑھیں گے یہ صرف ملاقات کا ایک بہانہ ہے وگرنہ ہماری عید کہاں اگر آپ سے سوپریٹینڈینٹ عید کی نماز کے بارے میں پوچھے تو آپ کہئے گا کہ ہماری عید کی نماز باقی ہے۔ آج کھولیں گے تو آج بھی پڑھ لیں گے۔۔۔“
تقریبا 11 بجے جیل سپرینڈینٹ اپنے حواریوں کے ساتھ آیا ۔۔۔۔”گیلانی اب تو کھانا کھا لو عید تو گزر گئی انہوں نے جواب کیا آپ ہمیں کھول دین ہم لوگ باجماعت عید کی نماز ادا کریں گے اس نے کہا کہ عید تو کل تھی وہ گزر گئی اب آج کیسے۔۔۔گیلانی صاحب نے کہا کہ ہماری نماز عید ابھی باقی ہے ہمیں پڑھنا ہے۔۔
سپریٹینڈینٹ سیدے وہاں سے میرے بلاک پر آیا کیوں جی عید تو کل تھی وہ تو گزر گئ اب پھر کیسے نماز عید ہوگی میں نے جوابا کہا نہیں ابھی ہماری عید کی نماز باقی ہے۔اس نے کہا کہ ہم ابھی کھول دیں تو کیا ابھی پڑھ لوگے ۔۔۔؟؟میں نے کہا ہاں نماز عید خطبہ عید مصافحہ اور معانقہ کے لئے ایک گھنٹے کا وقت چاہئے ۔۔۔۔ہمیں کھول دیا گیا رفقاء نے وضو کیا اپنے اپنے بلاک سے کمبل اورچادریں لائے کھلے فرش پر بچھا دیا ۔۔۔گیلانی صاحب تذکیری کلامات ادا کرتےہوئے کہا بھائیو عید تو کل تھی وہ بھی ہماری عید کہاں لیکن ہم نے خود کو بھوکا رکھ کر یہ مطالبہ اس لئے کیا اسی بہانے گلے مل لیں گے ایک دوسرے کی دعائیں لے گے کچھ تو احساس محبوسی کم ہوگا۔۔۔نماز دو رکعت با جماعت پڑھیں گے جس طرح عید کی نماز پڑھی جاتی ہے اور خطبہ بھی ہوگا ہم تمام محبوسین کوئی افغانستان کا کوئی سوڈان کا کوئی بنگلادیش کا کوئی پاکستان کا اور ہم کشمیر کے اور کچھ ساتھی ہمارے یہاں کے یوں دیکھیں تو کسی قدر عالمی اجتماع ہے۔۔یہ عید کی نماز ہے کہ نہیں ۔۔۔لیکن بہانا نماز عید کا ہے خطبہ اور نماز عید شاہدبدر صاحب پڑھایں گے ۔۔۔۔آہ یہ جیل کی عید اور سید عبدالرحمن گیانی کی تذکیر رفقاء پھوٹ پھوٹ کر گلے ملے۔۔۔
یہ الم کشوں کا ملنا یہ نشاط تو گم کے سائے 
کبھی روپڑا تبسم کبھی اشک مسکرائے

”۔۔۔اس شام۔۔وہ کورٹ سے بہت تاخیر سے لوٹے تھے۔۔۔وہ چائے کے بڑے شوقین تھے میں نے ”جیل کے سیودار“ چائے منگا کر پلاسٹک ڈبہ میں رکھ جیل کے کمبل سے ڈھک رکھا تھا کہ وہ گرم رہے وہ چائے لینے کے بہانے میرے بلاک پر رکے انکا قہقہا رک نہیں رہا تھا میں نے پوچھا کہ آج آپ کے مقدمہ کا فیصلہ تھا کیا ہوا۔۔ہاں ہو گیا اسی پر تو ہنسی نہیں رک رہی ہے میں نے پوچھا کیا ہوا انہوں نے جوابا کہا (پانچ عمر قید۔ اور پانچ پھانسی) میں نے ہیڈ وارڈ سے کہا میرا گیٹ کھولے میں اس زندہ شہید سے گلے ملوں گا۔۔۔۔گیلانی صاحب رہا ہو گیے اور میں بھی جیل سے چھوٹ گیا جب بھی دہلی کورٹ ڈیٹ کے بہانے جانا ہوتا تو گیلانی صاحب سے ضرور ملاقات ہوتی۔
جیل سے چھوٹنے کے بعد اچانک یہ خبر ملی کی گیلانی صاحب کے اوپر قاتلانہ حملہ ہو گیا۔۔قاتل نے گیلانی صاحب کے سینے میں 9 گو لیاں اتار دیں لیکن اللہ نے انہں زندا اور سلامت رکھا ۔۔۔۔بے شک موت اور حیات دینے والا اللہ ہے ۔۔
آہ گیلانی صاحب میں نے جیل میں آپ کو تمام اسیران فی سبیل اللہ کے لے ح درجہ مضطرب پایا۔۔
تازہ خان افغانی تھا عباس بھائی راجستھانی تھے عبدالروف بھائی سوڈانی تھے بھائی شمیم سرور بہار پٹنہ سے تھے عبد الغنی بھائی کشمیری تھے عبداللہ بھائی پاکستانی تھے سب کے غم اور سب کے مسائل کے لئے ہر وقت متفکر رہا کرتے تھے انکا زخمی دل ہر وقت مسلمانان عالم کے لئے دھڑکتا تھا آہ اب وہ خاموش ہے۔۔پسماندگان میں بیوی بیٹی نصرت بیاٹا عاطف۔۔۔آج انکے غم میں ہر آنکھ اشک بار ہے ۔۔”شاہد زنداں“ یادوں کے نہ ٹوٹنے والے تسلسل اور سلِ اشک میں بہا جا رہا ہے
ائے اللہ پسماندگان کو صبر جمیل دے۔۔
امت کو نعم البدل دے
جنت میں اعلی و ارفع مقام عطا فرما
دعا گو و طالب دعا غم سے نڈھال۔۔
ڈاکٹرشاہدبدرفلاحی۔۔سابق کل ہند صدر اسٹوڈینٹس اسلامک مومنٹ آف انڈیا
8:30 am ..25 .10.19