ضیاءالدین صدیقی/صداٸے وقت۔
=============================
امریکی صدر ٹرمپ کا یہ اعلان کہ ’’وہ شام سے اپنی فوج نکال رہا ہے ‘‘ریپبلکن پارٹی کے امیدوار کے طور پر اپنی دوسری صدارتی باری میں کئے گئے وعدوں میں سے ایک تھا ۔امریکی افواج کی شام میں موجود گی کا انہوں نے جو جواز فراہم کیا تھا کہ شام میں کردوں کو استعمال کرکے متحدہ طور پر ’’دولت اسلامیہ ‘‘ (ISIS)کو شکست دی جائیگی ۔بقول ٹرمپ دولت اسلامیہ کا خاتمہ ہوچکا ہے جو کچھ بچے ہے وہ سمٹ کر دمشق میں غوطہ کے مقام پر جمع ہو گئے ہے
۔
۔
’’کرد‘‘مشرق وسطیٰ کی قدیم قومی نسلی گروہوں میں سے ایک ہے ۔کردوں کی کل تعداد ساڑھے تین کروڑ بتلائی جاتی ہے جو کبھی خلافتِ عثمانیہ کے تحت زندگی گزار رہی تھی ۔۱۹۲۰ء میں اتحادیوں نے جب خلافت عثمانیہ کو تقسیم در تقسیم کے دور سے گزارا تو اسی جسم سے 42 ممالک کا جنم ہوا اس میں کردوں کو مختلف ممالک میں تقسیم کر دیا گیا ۔شاید اس قوم کو اس کے ہیرو ’’صلاح الدین ایوبی ‘‘کی سزا دی گئی جس نے عیسائیوں کا چین و سکون چھین رکھا تھا ۔عراق ،شام ،ترکی ،ایران اور خراسان تک کردوں کو پھیلا کر تقسیم کر دیا گیا ۔ان میں شافعی ،سنی ،شیعہ ،یزیدی اور پارسی النسل کردبھی شامل ہے ۔
کرد ‘ترکی کی کل آبادی کا ۲۰؍فیصد ہے ،لیکن اس نے انہیں بہتر رویہ سے رام کر رکھا ہے ۔اسی سے جڑی ہوئی شام کی سرحد میں کردوں کو امریکہ نے اپنا مددگار بنا رکھا تھا ۔جس کی وجہ سے وہ نہ صرف شام کے لیے مسائل پیدا کرتے رہے بلکہ ترکی کے کردوں کو بھی اپنے ساتھ چلنے پر اصرار بھی کرتے رہے ۔
1920میں اتحادیوں نے ایک معاہدے کے تحت تمام کردوں کو ایک نئے ملک ’’کردستان ‘‘ کا خواب دکھایاتھا لیکن اسے کبھی پورا نہیں کیا ۔ 1990میں عراق کے تین بڑے حصے کیے گئے ایک شیعہ ،درمیانہ سنی اور جنوبی حصہ کردوں کے قبضہ والابن گیا ۔یہی جنوبی عراق جو ’’کردستان ‘‘کہلانے لگا دراصل یہی عراق میں تیل کی پیداواری زمین ہے ۔عراق پر جب امریکی تحدیدات عائد کی گئیںاور ’’تیل کے بدلے میں خوراک ‘‘پروگرام لاگو کیا گیا تو سب سے زیادہ کردوں نے اس کا فائدہ اٹھایا اس کے بعد امریکہ اور تیسرے نمبر پر بھارت کا نام آتا ہے ۔ کرد چونکہ امریکہ کے ساتھی بن گئے تھے اس لئے تیل کے بارے میں ان سے کوئی جواب دہی نہیں ہوئی ۔تیل کی اس دولت نے دیگر علاقوں کےکردوں کو بھی متحد کرنے کا کام کیا ۔عراق میں جو کرد آباد ہے ان کی پارٹی کردستان ڈیموکریٹک پارٹی (کے ڈی پی)ہے، جس میں زیادہ تر مذہب بیزار لوگ ہیں ۔صدام نے انہیں کیمیائی اسلحہ جات سے کافی نقصان پہنچایا تھا ۔عراقی کردوں کا اسلام سے کوئی رشتہ نہیں ہے ۔
امریکی منصوبہ یہ تھا کہ ترکی ،ایران ،عراق اورشام کے کردوںپر مشتمل کردستان بنایا جائے ۔کردوںکی زیادہ تر آبادی بھی ان ممالک کی سرحدوں سے لگی ہوئی ہے ۔کردوں نے اپنے خوابوں میں ’’کردستان ‘‘بنا رکھا ہے ،اور اس کا مرکزی شہر ’’اربیل ‘‘ہے ۔جس کے مضافات میں ’’حریر ‘‘ نامی مقام پر امریکہ اپنے سب سے بڑا فوجی رکھا ہے ،مانا جاتا ہے کہ ’’اربیل ‘‘کے علاقوںمیں اسرائیل اور امریکی ’’مفادات ‘‘کا بڑا رکھا خیال رکھا جاتا ہے ۔اس علاقے میں 2003 میں کردستان کے لیے ایک استصواب بھی کروایا گیا تھا ،جس کی بنیاد پر ’’کردستان ‘‘کے لئے قوت و طاقت جمع کرنے کی سعی وجہد جاری ہے ۔تیل کی اس دولت کے ذریعے اس علاقے کو دبئی کی طرح بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔شام اور امریکہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں اس لئے امریکہ نے شام میں کردوںکی شکل اپنے دوست میں تلاش کر لئے ۔وہ انہیں وسائل مہیا کرتا ہے اور یہ کرد نہ صرف شام بلکہ عراق اور ترکی کے علاقوں میں بھی انتشار پیدا کر تےرہے ہیں۔گذشتہ دنوں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ترکی کو وارننگ دی تھی کہ وہ اس کی معیشت تباہ کردے گا۔ اس دھمکی کو خاطر میں نہ لاکر ترکی صدر ’’رجب طیب اردگان‘‘ نے اپنے ملک کے مفادات کے پیش نظرشام کے کرد علاقوں پر حملہ کردیا ہے ۔
ترکی حکومت کی جانب سے کہا یہ جا رہا ہے کہ اس علاقے کو Safe Zone قرار دیا جائے گا ۔اور شام سے ۲۶؍ لاکھ کی تعداد میں جو مہاجرین ترکی آئے ہوئے ہیں انہیں اس علاقے میں بسایا جائے گا ۔اس حملہ کو ترکی نے ’’آپریشن بہار ‘‘کا نام دے رکھا ہے ۔اس حملے کے نتیجے میں شمالی مشرقی شام میں کردوں کی آبادی نقل مکانی کر رہی ہے اور دھیرے دھیرے یہ علاقہ ترک فوجوں کے قبضے میں آتا جارہا ہے ۔لیکن شامی کردوں نے بھی جوابی کارروائیاں شروع کت دی ہے اور ترکی کے ایک سرحدی شہر پر میزائل سے حملہ بھی کیا گیا ۔پہلے ہی یہ علاقہ عراق ، شام اور یمن کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے ۔اب اس نئی جنگی صورتحال میں مزید کیا ہوگا کہا نہیں جا سکتا ۔ممکن یہ بھی ہے کہ امریکہ یورپ اس تنازعہ کو بنیاد بنا کر دوبارہ اس علاقے میں داخل ہو اور پہلے ہی کی طرح قتل و غارت گری کا بازار گرم ہو جائے ۔
ترکی کے اس حملے پر اقوام متحدہ نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور دیگر ممالک میں بھارت نے بھی اس پر تنقید کی ہے ۔حزب اللہ کے صدر حسن نصراللہ نے کہا ہے کہ ’’امریکہ مستقل کسی کے ساتھ نہیں رہتا ،وہ اپنے مفادات کا اسیرہے وہی اسے محبوب ہیں۔ اس لئے کردوں کو عین میدان میں چھوڑ کر چلا گیا ہے ۔کردوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ گدھے کی طرح بیوقوف بن گئے ہیں۔‘‘
اللہ کرے ترکی کا حملہ اورکردوں کا جوابی حملہ دیر تک نہ چلتا رہے ۔بس یہ ایک سرجیکل اسٹرائیک کا رول ادا کرے ورنہ علاقہ بارود کے ڈھیر بنا ہوا ہے ہے ۔اسرائیلی اور امریکی مفادات انہیں دوبارہ قتل و غارت گری اور علاقوں کی بربادی کے لئے واپس لوٹ لائیں گے ۔اور یہ علاقہ بھی مدتوں جنگ کی تباہیوں سے جوجھتا رہے گا ۔اس سے قبل کہ یہ نئی شروعات لمبی ہو جائے بین الاقوامی سوسائتی بالخصوص عالم اسلام کو اس میں دخل دینا چاہیے ، اس کے علاوہ انصاف وحقوق کے پیمانوں کو اپنے سیاسی ضرورتوں کے اوپر رکھ کر برتنے کی ضرورت ہے ۔