سرسید اور تصوّرِ طلاق /از مولانا طاہر
مدنی۔
==============================
آج یومِ سرسید ہے_آج ہی کے دن (17 اکتوبر) 1817 میں ان کی ولادت ہوئی تھی _ ان کے معتقدین اور قدر شناس آج طرح طرح سے انھیں خراجِ تحسین پیش کر رہے ہیں _ میں نے بھی انھیں خراجِ تحسین پیش کرنے کی ایک راہ نکال لی
ہے_
ہے_
سرسید کی تفسیر مسلمانوں کے
درمیان متنازع ہونے کے باوجود، اس میں بہت سے دینی موضوعات پر بڑی قیمتی بحثیں ہیں_انہی میں سے ایک موضوع طلاق کا ہے، جو آج کل ہندوستانی میڈیا پر چھایا ہوا ہے_
درمیان متنازع ہونے کے باوجود، اس میں بہت سے دینی موضوعات پر بڑی قیمتی بحثیں ہیں_انہی میں سے ایک موضوع طلاق کا ہے، جو آج کل ہندوستانی میڈیا پر چھایا ہوا ہے_
پیش ہے طلاق کے بارے میں سرسید کے خیالات :
" اسلام کے مخالفین نے ضد سے یا کج بحثی و نا سمجھی سے جو الزام پر لگائے ہیں، ان میں سے طلاق کا بھی ایک مسئلہ ہے ۔ یہودی تو یہ الزام لگا نہیں سکتے ، کیوں کہ موسی ؑ نے تو یہ حکم دیا ہے کہ جب کوئی طلاق دینی چاہے تو طلاق نامہ لکھ دے ۔ بعض بت پرست قومیں، جن کے ہاں طلاق نہیں ہے اور کسی قدر عیسائی، جن کے ہاں بجز زنا کے اور کسی حالت میں طلاق جائز نہیں ، اس مسئلے پر الزام دے سکتے ہیں ۔ الزام کی بنا یہ ہے کہ یہ مسئلہ محبت و ہم دردی کے بر خلاف ہے ۔ جان ملٹن نے اس سے اختلاف کیا ہے اور نہایت عمدہ دلیلوں سے ثابت کیا ہے کہ جب شوہر و زوجہ میں ایسی ناموافقت ہو جاوے جو تمدن و حسن معاشرت کے منافی ہو تو انجیل کے احکام کے رو سے طلاق ناجائز نہیں ہے۔
بہر حال اس وقت تین شریعتیں طلاق کے معاملے میں ہمارے سامنے موجود ہیں:اول یہودیوں کے، جس میں بغیر کسی سببِ قوی کے مرد کو طلاق دینا جائز قرار دیا گیا ہے اور ایسا کرنے میں کوئی گناہ یا الزام مرد پر عائد نہیں کیا گیا ۔ بلا شبہ یہ شریعت ایک ناپسندیدہ شریعت ہے اور رحم و محبت اور حسنِ معاشرت و تمدن کے بر خلاف ہے ۔ ایسی شریعت سے نکاح کی وقعت گھٹ جاتی ہے اور مرد کی محبت کا عورت کے ساتھ اور عورت کی وفاداری کا مرد کے ساتھ اعتبار نہیں رہتا ۔
دوم بت پرستوں اور حال کے زمانے کے عیسائیوں کی ، جن میں طلاق جائز نہیں، یا بجز زنا کے اور کسی حالت میں جائز نہیں ۔ اس شریعت میں اس مقدّس رسم کا بلا شبہ نہایت ادب کیا گیا ہے۔ مگر جس طرح کہ یہودی شریعت میں افراط تھی ، اسی طرح اس شریعت میں تفریط ہے اور دونوں فطرتِ انسانی کے بر خلاف ہیں ۔ اگر کسی سبب و حالت سے ایسی خرابیاں مرد و عورت میں پیدا ہو جاویں، جو کسی طرح اصلاح کے قابل نہ ہوں تو ان کا بھی کچھ علاج ہونا چاہیے اور وہ علاج طلاق ہے ۔ پس کچھ شک نہیں کہ ایسی حالت میں بھی طلاق کا جائز نہ ہونا حسنِ معاشرت اور انسانی فطرت کے بر خلاف ہے ۔
تیسری شریعتِ محمدیہ ہے، جس کا ذکر اس آیت اور اس کے بعد کی آیتوں میں اور آں حضرت ﷺ کی نصیحتوں اور ہدایتوں میں ہے ۔ اس شریعتِ حقّہ نے اس خوبی اور اس اعتدال سے اس مسئلہ کو قرار دیا ہے جس سے زیادہ عمدہ نہیں ہو سکتا اور نہ اس سے زیادہ تمدن اور حسنِ معاشرت کی حفاظت انسانی فطرت کے مطابق ہو سکتی ہے ۔
شریعتِ محمدیہ نے طلاق کو ایسی حالت میں جائز قرار دیا ہے جب کہ زن و شوہر میں مرض ناموفقت و عدم محبت کا ایسے درجے پر پہنچ جاوے جو علاج کے قابل نہ ہو، یا یوں کہو کہ بجز طلاق کے دوسرا کوئی علاج اس کا نہ ہو۔ مگر زن و شوہر کا معاملہ ایک ایسا نازک اور ایک عجیب قسم کے ارتباط و اختلاط کا ہے کہ اس میں جو خرابی پیدا ہو، سوائے انہی دونوں کے اور کوئی تیسرا شخص اس بات کا اندازہ نہیں کر سکتا کہ آیا وہ اس حد تک پہنچ گئی ہے جس کا علاج بجز طلاق کے اور کچھ نہیں یا نہیں ۔ اس لیے اس شریعتِ حقّہ کے بانی نے اس حد کی تعیین انہی کی رائے اور انہی کی طبیعت پر منحصر کی ہے اور اسی کے اخلاق کو اس کا قاضی بنایا ہے، جس کی تسلّی و موانست کے لیے ابتدا میں عورت بہ طور انیس دلنواز اور مونس و غمخوار کے پیدا ہوئی تھی، اور اس بات کا کہ وہ علاج بے محل و بے موقع بد اخلاقی اور بد خواہش نفسانی سے نہ کیا جائے، جہاں تک کہ انسانی فطرت کے مناسب حال تھا، انسداد کیا ہے
مردوں کو فہمائش کی ہے کہ ہمیشہ عورتوں کے ساتھ محبت رکھیں اور ان کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں، ان کی سختی و بد مزاجی کو تحمّل سے برداشت کریں۔ عورتوں کو فہمائش کی کہ اپنے مردوں کی تابع داری کریں، ان کے ساتھ محبت رکھیں اور ان کی وفادار ہوں۔ پھر طلاق کی نسبت فرمایا کہ گو طلاق جائز کی گئی ہے، مگر کوئی چیز دنیا کے پردہ پر طلاق سے زیادہ خدا کو غصہ دلانے والی پیدا نہیں ہوئی ہے۔ عورت کی نسبت فرمایا کہ جو عورت بغیر لا علاج ضرورت کے اور بغیر سخت حالت کے، اپنے شوہر سے طلاق کی خواہاں ہو، اس پر جنت کی خوش بو حرام ہے۔ ہمارے پیغمبرِ خدا ﷺ طلاق سے ایسے ناراض ہوتے تھے کہ بعض دفعہ صحابہؓ کو شبہ ہوا کہ طلاق دینے والے نے ایسا جرم کیا ہے کہ قتل کرنے کے قابل ہے_
پھر ان ہدایتوں اور تہدیدوں ہی پر طلاق کے روکنے میں بس نہیں کیا، بلکہ نکاح اور ملاپ کے قائم رکھنے کی اور بھی تدبیریں فرمائیں، یعنی پوری تفریق واقع ہونے کو تین دفع طلاق دینا معتبر رکھا گیا ہے اور یہ اجازت دی کہ پہلی طلاق کے بعد اگر آپس میں صلح ہو جائے اور رنجش مٹ جائے اور دونوں کی محبت تازہ ہو جائے تو پھر بدستور جور وخصم ہو سکتے ہیں ۔ دوسری طلاق کے بعد بھی اسی طرح وہ آپس میں بدستور جور و خصم ہو سکتے ہیں، لیکن اگر پھر تیسری دفعہ طلاق دی جائے تو ثابت ہو گیا کہ یہ بیل منڈھے چڑھنے والی نہیں ۔ بہتر ہے کہ پوری تفریق ہو جائے ۔ ایسی حالت میں کہ عورت کو مرد سے کنارہ کش رہنا پڑتا ہے، طلاق دینے کو منع فرمایا، اس امید پر کہ شاید زمانہ مقاربت میں محبت و الفت کی ایسی تحریک ہو کہ خیال طلاق کا دل سے جاتا رہے_
پس یہ تمام احکام نہایت خوبی و عمدگی و اعتدال سے فطرتِ انسانی کے مطابق ہیں ۔ خدا نے ان کے احکام کی نسبت فرمایا کہ یہ اللہ کی بنائی ہوئی حدیں ہیں، ان کو توڑنا نہیں چاہیے ۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ حدیں کچھ دیواریں یا خندقیں نہیں ہیں، بلکہ یہ حدیں فطرتِ انسانی کی حدیں ہیں، جن کو توڑنا انسانیت کی حد سے خارج ہونا ہے ۔ پس جو لوگ مسئلہ طلاق پر معترض ہیں، جب وہ اس کو بخوبی سمجھیں گے اور فطرتِ انسانی پر غور کریں گے تو بالیقین جانیں گے کہ بلا شبہ یہ حکم اسی کا ہے جس نے فطرتِ انسانی کو بنایا ہے ۔"
(تفسیر القرآن، سر سید، جلد اول، ص336_341)