Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, October 31, 2019

رسول اکرم ﷺ کاٸنات کی ہر مخلوق کے لٸیے رحمت ہیں !!!

سرفراز احمد ملی القاسمی جنرل سکریٹری کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک، حیدرآباد*صداٸے وقت۔
----------------------------------------
 ماہ ربیع الاول اسلامی مہینوں کےاعتبار سے انتہائی اہمیت کاحامل ہے،اس ماہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس میں میرے آقا ﷺکی ولادت باسعادت ہوئی،اس میں فخررسل،محسن انسانیت،رحمت للعالمین،محبوب رب العالمین،سرورِ کونین،سردار الانبیاء ﷺ تشریف لائے،عربی زبان میں"ربیع"موسم بہار کو کہتے ہیں،

آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل عرب کی ویران وادی میں بہار آئی تھی،بی بی آمنہ کے آنگن میں ایک صدا بہار پھول کھلاتھا،جسکی مہک اورخوشبو سے ساری کائنات معطر ہوگئ،دلوں کے خلوت کدے روشن ہوگئے،تھکی ماندی انسانیت کوشادمانی نصیب ہوئی، نسل آدم کاوقار بلند ہوا،شرف انسانی کو سربلندی ملی، ذروں کوآفتاب کی چمک ملی،یہ آنے والی بہار اوراس میں کھلنے والاپھول، حسن ازل کی تجلی خاص اورجان کائنات،فخرموجودات کی ذات اقدس تھی،جو حضرت ابراہیم خلیل اللہؑ کی دعائے مستجاب کاثمرہ تھا،جنکو حضرت ابراہیم علیہ السلام  نے ان الفاظ کے ذریعے خدا سے مانگا تھا،"اے ہمارے پروردگار!آپ لوگوں میں ایک ایسا رسول مبعوث فرما جو انھیں میں سے ہو اوروہ رسول  تیری آیتیں انکے سامنے تلاوت کرے،انکو کتاب اوردانائ کی باتیں سکھائے اورانکو پاک و صاف کرے، بیشک تو بڑازبردست اوربڑی حکمت والاہے"(قرآن)
سرور کائنات ﷺ کی تاریخ پیدائش کے سلسلے میں علماء کے تین قول ہیں،بعض نے 8 اور بعض نے 9 اوربعض نے 12 ربیع الاوّل تاریخ ولادت بیان فرمائی ہے،مگر محقق علماء کااس بات پراتفاق ہے کہ 12ربیع الاوّل، پیرکے دن صبح کےوقت آپ ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی،اور اسطرح  یہ مہینہ بہار جاوداں کہلایا،امام شافعیؒ  فرماتےہیں کہ اس مہینے میں ایک نہیں بلکہ تین ربیع(بہار) جمع ہوگئے،ایک تو اس ماہ کانام ربیع،دوسرے موسم ربیع اوربہارکا، تیسرے خود رسول اکرم ﷺ بھی عالمگیر خزاں میں بہار بن کر تشریف لےآئے،آپ ﷺ کی تشریف آوری سے ظلمت کدہ عالم میں روشنی پھیلی،خزاں رخصت ہوگئی،بہار کی ہوائیں چلنے لگیں،پھر قرآن نے یہ اعلان فرمایا کہ"
ہم نے آپ کو سارے جہاں اورساری کائنات کےلئے  رحمت بناکر بھیجاہے"(سورہ انبیاء)جب یہ معلوم  ہوگیا کہ ہمارے پیغمبر ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے تمام کائنات کےلئے رحمت بناکر بھیجاہے تواب یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ رحمت اورمہربانی کا
تقاضہ کیاہے؟
علماء نےلکھاہے کہ آپﷺ تمام جہانوں کےلئے رحمت ہیں،چاہے وہ عالم انسانیت ہویاعالم جن،عالم ملائکہ ہوں یاعالم حیوانات،یاپھرعالم چرند پرند،ان تمام عالموں کےلئے آپﷺ
  کو رحمت بناکربھیجاگیاہے،انسانوں کےلئے رحمت
 تو  اسطرح ہوئے کہ آپ ﷺ فیضان ربانی اورانعامات خداوندی کےلئے واسطہ اورذریعہ بنے،اپنی اپنی قابلیت اورقبولیت کے تناسب سے پوری عالم انسانیت کےلئے آپﷺ ایک مشعل کامل
بن کرآئے،آپ ﷺ نے انسانوں کے سامنے علوم کے
 خزانے رکھدئے،اورانسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کی  رہنمائی فرمائی،انسان کی پیدائش سے لیکر وفات تک اور وفات کے بعد پھر حیات تک اور حیات ثانیہ سے لیکر حیات جاودانی تک وہ کونسا
پہلو اورکونسا شعبہ ہے جسکی آپ ﷺ نے پوری پوری رہنمائی نہ کی ہو؟
علامہ ابن قیم کے حوالے سے ایک جگہ لکھاہے کہ"اگر عالم میں نبوت کاسلسلہ نہ ہوتاتو نہ علم نافع کا وجود ہوتا اورنہ عمل صالح کاکوئی تصور ہوتا،نہ معیشت ومعاشیات کاکوئی  صحیح رخ ملتا اورنہ حکومت چلانے کے کوئی  صحیح  ضابطے ملتے،بلکہ لوگ جانوروں،درندوں اورپاگل کتوں کی طرح ایک دوسرے کو کاٹتے رہتے،الغرض
عالم کائنات میں جہاں  کہیں خیرو بھلائی نظر آتی ہے تویہ نبوت حقہ کا پرتو اوراثر ہے،اور جہاں  کہیں عالم میں برائی اور شرارت  نظر آتی ہے یامستقبل میں آئے گی وہ نبوت حقہ کے آثار کے مخفی اورکمزور ہونے کی وجہ سے ہے،گویاکہ عالم ایک جسم ہے اور نبوت حقہ اسکی روح ہے،لہذا زمانۂ نبوت جتنادور ہوتاجائے گا عالم میں بگاڑ پیدا ہوگا"(روح المعانی)
بہر حال رسول اکرم ﷺ کی ذات بابرکات عالم انسانیت کی ہدایت وکامیابی اوردینی و دنیوی  ترقی کےلئے رحمت ہی رحمت ہے،اسی طرح رسول  اکرم ﷺ غیر مسلموں  کےلئے بھی رحمت ہیں،آپ ﷺ کی ذات بابرکات اور آپ ﷺ کی عام دعا کی وجہ سے اللہ تعالی نے سابقہ غیرمسلم امتوں کے عذاب کی طرح،عام عذاب سے اس امت کے کفار کو محفوظ رکھا کہ آسمان سے آگ ان پر برس پڑے یاپانی ہواکا ایسا طوفان آجائے کہ روئے زمین پر ایک بھی کافر نہ رہ جائے،عذاب الہی کا ایسا سلسلہ کہ جس سے کفار مجموعی اعتبار سے صفحہ ہستی سے مٹ جائے،موقوف ہوگیا،اسی طرح کفار کو دنیوی لحاظ سے امن کی زندگی بھی ملی اورتوبہ کرنے کاایک وسیع میدان بھی ملا،جو یقینا حضور اکرم ﷺ کے رحمۃ للعالمین ہونے کااثرہے،سورہ انفال میں ایک جگہ ہے"اورجب کفار کہنے لگے کہ اے اللہ! اگریہی دین تیری طرف سے حق ہےتو ہم پر آسمان سے پتھر برسادے یاہم پر کوئی عذاب لا،اور وہ ہرگزان پر عذاب نہیں لائے گاجب تک وہ لوگ معافی مانگتے رہیں گے"(آیت 32)
شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ ایک جگہ رقم طراز ہیں کہ"مشرکین جس قسم کی خارق عادت عذاب طلب کررہے تھے،جو قوم کی قوم کادفعة استیصال کردے،ان پرایسا عذاب بھیجنے سے دوچیزیں مانع ہیں،ایک حضورؐ  کاوجود باوجود کہ اسکی برکت سے اس امت پرخواہ امت دعوت ہی کیوں نہ ہوایسا خارق عادت مستاصل عذاب نہیں آتا یوں کسی وقت افراد یاآحاد پر وہ اسکے منافی نہیں،دوسرے استغفار کرنے والوں کی موجودگی خواہ وہ مسلمان ہوں یاغیر مسلم
جیساکہ منقول ہےکہ مشرکین مکہ بھی تلبیہ وطواف وغیرہ میں غفرانک غفرانک کہاکرتے تھے"(تفسیر عثمانی)
اسکے علاوہ رسول اکرم ﷺ نے مطلق انسانیت کے حقوق کاجو تعین کیاہے اور انسان کو ایک دوسرے پر ظلم وزیادتی سے جو روکاہے اس میں بھی غیر مسلموں کےلئے آپﷺ کامل و مکمل رحمت ہیں،آپؐ نے اپنے ارشادات عالیہ میں بھی مہربانی،رحمت وشفقت، ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت اور عدل وانصاف پربہت زوردیاہے،ایک حدیث میں آپﷺ کاارشاد ہے"جو شخص لوگوں پر مہربانی  نہیں کرےگا اللہ تعالیٰ اس پر مہربانی نہیں کریں گے"(حدیث)ایک دوسری حد یث میں ہے"تم زمین والوں پر مہربانی کرو تم پر آسمان والا مہربانی کرے گا"اسی طرح آپﷺ فرشتوں کےلئے بھی رحمت ہیں،ایک دفعہ حضور اکرمؐ نے حضرت جبریل سے پوچھاکہ"عالم کےلئے میرے رحمت ہونے کاتجھے کیافائدہ پہونچا ہے؟یعنی اس رحمت کا تجھ پر کیااثر ہواہے؟جبریل امین نے جواب میں فرمایا کہ مجھے یہ ضمانت مل گئی ہے کہ میراخاتمہ باالخیر ہوگا علماء کے بقول حضرت جبریل امین کایہ جواب دوسرے فرشتوں کےلئے بھی عام کیاجاسکتا ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے واسطے سے قرآن کریم میں تمام فرشتوں کی معصومیت کاتذکرہ فرمایا ہے،ان کی اطاعت وعظمت کے اعلانات فرمائے جبریل امین کی امانت ودیانت، صاحب قدرو منزلت اورانکی شان ورفعت کااعلان فرمایا اورتمام  فرشتوں کو مقربین بارگاہ خداوندی قراردیا،فرشتوں سے محبت کاحکم دیااوران سے عداوت کو اپنے ساتھ دشمنی قرار دیا"(علمی تقریریں)ایسے ہی آپ جنات کےلئے بھی رحمت ہیں،جنات کےلئے بھی شرعی قواعد وقوانین وہی ہیں جو انسان کےلئے ہیں،لہذا جن وجوہات کی وجہ سے آپ انسانوں کےلئے رحمت ہیں انہی وجوہات کےتحت آپ جنات کےلئے بھی رحمت ہیں،اسی لئے ہڈیوں سے استنجاء کرنے سے آپؐ نے منع فرمایا کیونکہ اس سے جنات غذا کا کام لیتے ہیں،ایسے ہی گوبر سے استنجاء کو ممنوع قرار دیاگیا کیوں کہ اس سے بھی جنات فائدہ اٹھاتے ہیں،کسی گھر میں سانپ دکھ جائے تواسکو فورامارنے سے منع کیاگیا،اور یہ حکم دیا گیاکہ پہلے اسے اعلان کرکے چلے جانے کو کہو اگر وہ سانپ چلاجاتاہے تو ٹھیک ورنہ پھراسے ماردیاجائے،تاکہ سانپ کی صورت میں کوئی جن نہ مار جائے،اسکے علاوہ آپﷺ نے جنات کے کئی تنازعات کےفیصلے کرکے صلح کرائی ہے اورہدایت وایمان کاعظیم سامان فراہم کیاہے جوجنات کےلئے رحمت ہے،
ایسے ہی آپؐ کی ذات بابرکت جانوروں کےلئے بھی رحمت ہے مختلف احادیث میں آپ ﷺ نے جانوروں کے ساتھ نرمی اختیار کرنے کاحکم دیا،ایک حدیث میں فرمایا"ان بے جان جانوروں کے بارےمیں خدا کاخوف کرو،جب تک وہ صحیح سالم ہوں ان پر سواری کرو اور پھر صحیح حالت میں انکو چھوڑ دو"ایک اورحدیث میں ہے کہ"کسی حیوان کو بیٹھنے کےلئے منبر مت بناؤ"ایک دوسری حدیث میں فرمایا کہ"ذبح کرتے وقت کسی جانور کے ساتھ زیادتی نہ کرو،چھری کو خوب تیز رکھو،اورجہاں تک ذبح ضروری ہے اسی پراکتفا کرو"اسکے علاوہ اور بھی کئی حدیثیں جانوروں کے تعلق سے موجود ہیں جس میں جانوروں کے ساتھ خیرخواہی کی تعلیم دی ہے،اسی طرح آپ پرندوں کےلئے بھی رحمت  بناکر مبعوث کئے گئے،ایک سفرمیں، کسی صحابی کو آپ ﷺ نے دیکھاکہ پرندوں کے چند چوزوں کو چادر میں لپیٹ رکھاہے آپؐ نے اسکو کھولنے کاحکم دیاجب اسکو کھولا گیا تو چوزوں کے ساتھ اسکی ماں بھی بیٹھی ہوئی تھی،اورواپس نہیں جارہی تھی آپﷺ نے جب یہ قصہ سنا تو فرمایا"اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر چوزوں کی ماں سے بھی زیادہ مہربان ہیں،پھرآپؐ نے حکم دیاکہ"جاؤ اس پرندے کو ان چوزوں کے ساتھ وہیں چھوڑ آؤ جہاں سے پکڑاہے،اس صحابی نے وہیں لے جاکر سب کو چھوڑدیا،اسی طرح اور بھی کئی واقعات ہیں جن سے واضح طور پر معلوم ہوتاہے کہ آپ ﷺ تمام جہانوں کےلئے رحمت  بناکر بھیجے گئے ہیں،اب اس رحمت کاتقاضہ یہ ہے کہ ہم اس رحمت کے پیغام کو عام کرنے میں حصہ لیں اوراہم کردار اداکریں،علماء نے لکھاہے کہ آپﷺ سارے جہان کےلئے  رحمت  بناکر بھیجے گئے ہیں، اگرکوئی بدبخت اس رحمت عامہ سے خود ہی منتفع نہ ہو تو یہ اسکا قصور ہے، آفتاب عالم تاب سے روشنی اورگرمی کا فیض ہرطرف پہونچتا ہے لیکن کوئی شخص اپنے اوپر تمام دروازے اورسوراخ بند کرلے تو یہ اسکی دیوانگی ہوگی،آفتاب کے عموم میں کوئی کلام نہیں ہوسکتا،اور یہاں تو رحمۃ للعالمین کا حلقۂ فیض اس قدر وسیع ہے کہ جومحروم القسمت مستفید ہونا نہ چاہے اسکو بھی کسی نہ کسی درجہ میں بے اختیار رحمت کا حصہ پہونچ جاتا ہے"(تفسیر عثمانی)
حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ"اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم ہدیہ جو بندوں کو ملا وہ رسول اکرمؐ  کی ذات بابرکات ہے، اور رسول اکرم ﷺ کے بنیادی طور پر تین حقوق ہیں جنکاادا کرنا ہر فرد کےلئے  ضروری ہے،ایک عظمت، دوسرے محبت اور تیسرے متابعت،عظمت یہ ہے کہ آپؐ کو اتنابڑا جانا اور سمجھاجائے کہ کائنات میں کوئی اتنی بڑی ہستی نہیں ہے،جتنی آپ ﷺ کی ہے،دوسری چیز  محبت ہے اگر محبت نہیں ہوگی تو ایمان  نصیب نہیں ہوگا،آپؐ کا یہ حق ہے کہ ہم آپؐ سے محبت کریں، محبت کا خاصہ یہ ہے کہ فقط محبوب ہی محبوب نہیں ہوتامحبوب کی ادائیں بھی محبوب ہوجاتی ہیں،جس سے محبت ہوتی ہے تو آدمی یہ چاہتا ہے کہ میں صورت بھی ایسی بنالوں جیسی محبوب کی ہے،چال ڈھال بھی ایسی بنالوں جیسی محبوب کی ہے،رہن سہن کاڈھنگ بھی ایسا بنالوں جومیرے محبوب کاہے،محبوب سے جب محبت ہوتی ہےتو فقط محبوب سے نہیں ہوتی بلکہ اسکی ہرایک اداسے محبت ہوجاتی ہے،یہاں تک کہ اسکا گھر در بھی محبوب بن جاتاہے،اورتیسرا حق متابعت ہے، جو قانون آپؐ نے لاکردیا ہم اسکی پیروی اوراطاعت کریں، جو سنتیں آپؐسے ثابت ہیں انکی اتباع کریں،ایک ایک سنت کی پیروی میں جونورانیت اور برکت ہے، ہم اپنی عقل سے ہزار قانون  بنالیں اس میں وہ خیروبرکت نہیں آسکتی جو آپؐ کی ایک سنت کی ادائیگی میں برکت ہوسکتی ہے،ایک ایک سنت کی پابندی کرنا اسی کا نام متابعت ہے"(خطبات حکیم الاسلام)اللہ تعالی ہم سبکوآپؐ سے بے انتہا محبت عطافرمائے، اورسنتوں کی پابندی کی توفیق دےآمین۔۔۔۔۔۔۔


برائے رابطہ 8801929100
ای میل sarfarazahmedqasmi@gmail.com