Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, October 31, 2019

نٸے دعوت کا خیر مقدمہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر تشنگی باقی رہی دریا کے کنارے جاکر۔


سید منصورآغا، نئی دہلی/صداٸے وقت۔
================--==========
حالیہ دنوں میں کئی اردواخباراوررسائل بند ہوگئے۔ ان میں سہ روزہ دعوت بھی شامل ہے جس کا صدمہ دورتک پہنچا۔یہ اخبار مختلف شکلوں میں کوئی 70سال سے شائع ہورہا تھا۔اب اس کے متبادل  کے طور24صفحات کا ایک رنگین  ہفت روزہ جاری کیا گیا ہے جس کی ادارت کیلئے ایک نئی ٹیم حیدرآباد میں مصروف کی گئی ہے۔ جب کہ دعوت دہلی سے شائع ہورہا تھا۔اس  ہفت روزہ کی رسم اجراء 26/ اکتوبر، بروز ہفتہ دہلی میں انجام پائی۔ سہ روزہ بند ہوجانے کی خلش اور’نئی آب وتاب کے ساتھ نئی ’شکلوں‘ میں ’ملت اسلامیہ ہند کے ترجمان‘کے منظرعام پرآنے کے اعلان کا یہ اثرتھا کہ کانفرنس ہال وقت مقررہ سے پہلیہی کھچاکھچ بھر گیا۔ہم بھی حاضرہوگئے۔ دعوت سے ہمارا رشتہ بحیثیت قاری کوئی نصف صدی پرانا ہے۔ چندسال شعبہ ادارت سے وابستگی بھی رہی اسلئے یہ اخبار ہمیشہ اپنا سا لگا۔

قارئین کی دلچسپی:سہ روزہ دعوت میں طرح طرح کے موضوعات پر کافی دلچسپ، مفید، معلوماتی، اصلاحی اورتذکیری مواد ہوتا تھا۔کئی قاری توپورا پڑھ لیتے۔ ہم بھی عموماً سہ روزہ کا صفحہ اول معخاص کالم خبرونظراوراداریہ پڑھ لیتے۔ اس طویل وابستگی کی وجہ سے اس کے سنجیدہ مزاج سے آگاہی اورہم آہنگی میں مدد ملی۔ خصوصاً اس لئے کہ دعوت کاپہلا  ہفت روزہ جب نکلا تو اس سے وابستگی رہی،جس کیلئے دہلی طلب کیا گیا تھا۔محترم صغیربیدارمرحوم  ہفت روزہ کے نگراں بنائے گئے اورراقم کو  ان کی معاونت کا حکم ہوا۔ صغیرصاحب جلد ہی چلے گئے۔ ان کی عدم موجودگی میں اگرچہ محترم مسلم صاحب کی رہنمائی حاصل رہی مگربہت کچھ خود کرنا پڑتا۔ البتہ جو کچھ لکھتا ان کی میز پررکھ دیتا۔ گاہے لکھنے سے پہلے پوچھ لیتا۔کبھی وہ کوئی خبریا تبصرہ نشانزد کردیتے،کہتے اس پر لکھئے۔اس وقت امیر جماعت محترم یوسف صاحب، قیم افضل حسین صاحب مرحومبھی ہفت روزہ دلچسپی سے دیکھتے، اپنے مشوروں سے نوازتے اورگاہے کوئی چیز بھیج دیتے کہ اس پر لکھئے اوریوں لکھئے۔یہ  صحافتی تربیت کا ایک نظام تھا۔چنانچہ چند ہی مہینوں نے بہت سے نشیب وفرازسے گزرگیا۔محنت کا صلہ بھی ملا اورہفت روزہ کو خریدار ملتے چلے گئے۔کچھ دیگرتدابیر بھی کام آئیں۔ مثلا دارلعلوم دیوبند کے جشن صدسالہ پر خاص نمبرکی اشاعت جس کی بہت پذیرائی ہوئی۔ تبلیغی جماعت پر میڈیا میں حملہ، جس پر ہم نے لکھا اور اخبارکی رسائی اس حلقہ میں بھی ہوگئی۔
تربیت انداز:اس تربیت کا انداز کیا تھا؟ سنجے گاندھی کی حادثاتی موت پر میں نے ایک طویل مضمون لکھا۔ ان کو اس نئے طیارے کواڑانے سے روکا گیا تھا جس کی پہلی ہی اڑان میں حادثہ ہوا۔ ایسی بہت سی بے قاعدگیوں کے حوالے سے میں نے سرخی لگائی، ’کیاسنجے گاندھی کو بچایا جاسکتا تھا‘۔ نماز عصر میں نے چتلی قبر پر مرکز کے سامنے والی چھوٹی سی مسجد میں ادا کی۔ محترم یوسف صاحب مجھ سے پہلے نکلے اور باہر  رک گئے۔ میں نکلا تو متوجہ ہوئے۔ باتیں کرتے ہوئے اپنے دفترتک لے گئے۔ چائے آگئی۔ تازہ اخباران کی میز پر رکھا تھا۔مضمون کی تحسین فرمائی۔ میرا جی خوش ہوا۔ پھر پوچھاسرخی کس کی ہے۔ میں نے کہا میری ہے۔ مرحوم نے فرمایا، نہیں،’ہمارا عقیدہ ہے قضا وقدر یہ فیصلہ تھا، کیسے کو ٹالا جاتا؟۔‘ میرے جسم میں ایک جھرجھری آئی۔ اوراس کے بعد جب بھی قلم ہاتھ میں آیا ان کی بات ذہن میں رہی۔ 
مسلم صاحب کا طریقہ:خود مسلم صاحب مرحوم اہم امورپرامیرجماعت مولانا محمدیوسف صاحب، قیم جماعت افضل حسین صاحب،مدیر ریڈئنس امین الحسن رضوی  صاحب اور صدر مشاورت مفتی عتیق الرحمٰن عثمانی صاحب سے تبادلہ خیال کر کے طے کرتے کہ کیا موقف اختیارکرنا ہے۔بعض اوقات مولانا عثمان فارقلیط صاحب مرحوم کی بھی رائے لی جاتی۔ حالانکہ وہ جمعیۃ علماء ہند کے ترجمان ’الجمعیۃ‘کے مدیر تھے۔سہ روزہ کے صفحہ اول کااوپرکا مضمون عموماً مسلم صاحب خود لکھتے۔ ان کی عدم دستیابی کی صورت میں صغیرصاحب اورآخرآخرپروازرحمانی صاحب۔ صغیرصاحب کے جانے کے بعد محفوظ صاحب کی خدمات حاصل کی گئیں۔مسلم صاحب سبکدوش ہوگئے تو محفوظ صاحب ایڈیٹربنائے گئے۔
مشاورت کا پھل: مسلم صاحب کی مشاورتی مشقت کانتیجہ کیانکلتا؟ اب یہ بھی سن لیجئے۔ میری ملاقات دعوت چھوڑ دینے کے عرصہ بعد آل انڈیاریڈیواسٹیشن پرجناب راج نارائن راز سے ہوئی۔ وہ مدت تک پی آئی بی میں اردوسیکشن کے انچارج رہے تھے۔تعارف میں جب دعوت کا ذکر ہوا توکہنے لگے دعوت وہ واحد اردواخبارتھا جس کی آواز پی ایم اومیں سنی جاتی تھی۔ہمیں ہدایت تھی کہ  دعوت کے اداریوں اورسہ روزہ کے لیڈ آرٹیکل کا خلاصہ انگریزی میں ساتھ ہی اہم اقتباسات رومن انگریزی میں نقل کے ساتھ صبح نو بجے تک پی ایم اوآفس پہنچ جائیں تاکہ وزیراعظم آتے ہی ان کو دیکھ لیں۔لیکن یہ سلسلہ بعد میں بند ہوگیا۔
مواد میں بھاری:اس دور میں اخبار لیتھو پرچھپتاتھا۔ایک ہی صفحہ پر کئی ہاتھوں کی کتابت۔ ظاہری کشش سے عاری، مگرمواد میں بھاری۔کتابت وطباعت کی جدیدسہولتیں جواس وقت دستیاب نہیں تھیں،ان سے ضرور فائدہ اٹھایاجائے لیکن اہم نکتہ توجہ طلب یہ ہے کہ اخبارکی اصل روح مواد کی مقدار، تنوع اوراس کی سنجیدگی ہوتی ہے،صفحات کی رنگینی اوربھرتی کی تصویریں نہیں۔ طباعت ہمیشہ سفیدکاغذ پر کالی سیاہی سے روشن اورپڑھنے میں آسان ہوتی ہے۔
زیرنظرشمارے میں کئی کالم عمدہ ہیں۔ مثلا سماجی گلیاروں کی اہمیت (محی الدین غازی)، حکومت پر تنقید، اسکول کے ٹائم ٹیبل اور معاشی وفلاحی ترجیحات وغیرہ۔ مگر مجھے معذرت کے ساتھ یہ عرض کرنا ہے کہ اپنے تنوع کے باوجود  ہفت روزہ کا یہ شمارہ دعوت کاتسلسل نہیں بن سکا ہے۔یہ ان عزائم کا بھی عکاس نہیں جو ادریہ میں بیان کئے گئے ہیں۔ صفحہ اول کو پوسٹربنادینے اورمواد کو ایسے ڈیزائن میں قید کردینے سے کہ پڑھنا مشکل ہوجائے،اخبار کا مقصدپورا نہیں ہوتا۔ مثلاًاسی صفحہ پرامیرجماعت کا پیام۔ اہمیت کے اعتبار سے اس کو سب سے اوپر دائیں طرف لگانا تھا لیکن اس جگہ ’اسٹیچوآف لبرٹی‘کو بٹھا دیا گیا۔ میری عقل دنگ ہے کہ اس امریکی اسٹیچو کی اسلامی تحریک کے ترجمان کیلئے ایسی کیا اہمیت ہے کہ اس کو وہ جگہ دی گئی جس کو ہم اخبار والے ’ہیوی ٹاپ‘ کہتے ہیں اور قائد تحریک کا بیان باٹم میں اس طرح ڈیزائن کیاگیاکہخط نہایت باریک ہوگیا اور رنگ آمیزی میں دب گیا۔اگراس کواتنی ہی جگہ میں رنگین بارڈرکے ساتھ سفید زمین پر سیاہ رنگ میں شائع کیا جاتا توپائنٹ سائزبڑھ جاتا اور کمزوربینائی والا بھی سمجھ لیتا کہ جماعت کے نوجوان امیر نے کس حوصلہ کا اظہار کیا ہے۔اس تبصرہ سے کسی کی دل آزاری مقصود نہیں۔ توجہ یہ دلانی ہے کہ جدت طرازی کی زداخبار کے کلیدی مقصد پر نہیں پڑنی چاہئے۔دعوت کا قاری رنگ آمیزی کا نہیں، رہنمائی کاطالب ہوتا ہے۔ طباعت کی رنگینی سنجیدگی اورصاف پڑھے جاسکنے والے مواد کا متبادل نہیں ہوتی۔ 
 ترجمان کس کا؟:رسم اجراء کے دعوت نامہ کی پیشانی پر ہفت روزہ دعوت کو  ’ملت کاترجمان‘ لکھا ہے۔حالانکہ اخبار یا جریدہ تحریک کا ترجمان ہوتا ہے اوراپنی فکرکے مطابق ملک و ملت کی رہنمائی کرتا ہے۔ترجمان القرآن سے لے، تحقیقات اسلامی، ماہنامہ زندگی،ہندی کانتی، دعوت اورمقامی زبانوں میں دیگرجرائدنے یہی رول ادا کیا ہے۔یہ جرائد سیاسی لیڈروں کی طرح وہی بولی نہیں بولتے جوعوام بولتے ہیں بلکہ سخت مشکل حالات میں بھی حق وصداقت اور انصاف کی آواز بلند کرتے ہیں چاہے سولی پرچڑھادیا جائے۔
 دعوت کے سرنامے کے اوپر حم سجدہ کی آیت 33 درج ہے۔”اس شخص سے اچھی کس کی بات ہوسکتی ہے جواللہ کی طرف بلائے، نیک عمل کرے اوراعلان کرے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں۔“یہ آیت دعوت کے موقف کا اعلان ہے۔ اس مطلب یہ ہوا کہ آئندہ سطور میں پیش نظریات، خیالات،تخلیقات میں کوئی چیز ایسی نہیں ہوگی جو حکم وحکمت قرآن سے مطابقت نہ رکھتی ہو۔ زیر نظر شمارے میں ایک صفحہ بچوں کیلئے مخصوص ہے جس میں ایک تہائی حصہ میں ایک کہانی ’کوے کی چوہے کو نصیحت‘ شامل ہے۔ نصیحت یہ ہے کہ ’غیرقبیلہ‘ کے کسی فرد کو، جو اجنبی ہو پناہ نہ دو۔ ہماری فہم کہتی ہے ہمارا دین خاندان، قبیلہ، ذات،برادری،مقام بود باش کی بنیاد پر کسی اجنبی سے اجتناب کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا بلکہ مدد کا حکم دیتا ہے۔(ملاحظہ ہوں زکوٰۃ کے مدات جن میں اجنبی مسافر کاحصہ ہے)۔ایسے غلط رجحانات سے بچوں کے ذہنوں کی حفاظت کی جانی چاہیے۔ اس کہانی میں ایک گدھ کا انجام یہ بیان کیا گیا ہے ’معصوم چڑیوں‘ نے شک کی بنیاد پراس پرحملہ کردیا اور ماردیا۔ زرااس بیانیہپر’لنچنگ‘ کی وارداتوں کو سامنے رکھ کر غورکیجئے۔ جو مارا گیا وہ گدھ، مارنے والے ’معصوم‘ اور بنیاد شک کہ گدھ چڑیوں کے بچے کھا گیا۔ یہ تمثیل بچوں کے اغواکے شک میں ہجومی ہلاکتوں کی کیا تصویر پیش کررہی ہے؟
آخری بات:چیزیں اوربھی ہیں۔لیکن آخری بات عرض کرتا ہوں۔ہماری ملت کے بڑے مسائل میں اس پر جذباتیت کا غلبہ اوردوراندیشی کے ساتھ منصوبہ بندی اوراس پر استقامت سے کاربند رہنے کی کمی ہے۔چنانچہ موضوع کے انتخاب کے وقت یہ پہلو پیش نظررہے کہ جذباتیت اور یاسیت کو اشتعال نہ ملے۔ 1941میں جب اس ملک میں تحریک کی تجدیدنو ہوئی، ملک نہایت پر آشوب دور سے گزررہا تھا۔آزادی کی تحریک کے ساتھ دوقومی نظریہ کی تلقین اورتکذیب کا غلغلہ تھا۔ خلافت عثمانیہ پارہ پارہ ہوچکی تھی۔ لیکن تحریک کے رہنماان سب سے دامن بچاکرملت کی ذہنی تربیت کی کٹھن راہ پرچل پڑے۔نہایت صبرآزما طویل مدتی منصوبہ پیش کیا اور مثبت کاموں کی دعوت دی۔مودودی صاحب نے اس کو کھجورکا بیج بوناجیسا کہا۔جوہر اس کا یہ تھا کہ اپنے فکروعمل سے دعوت حق اوربلاتفریق بندگان خدا کی خدمت میں ہی نجات ہے۔
بیشک باخبری ضروری ہے۔سرقہ کی ہوئی چیزوں سے سجایاہوا گلدستہ اس تحریک کی ترجمانی نہیں کرسکتا جس کا مآخذ قرآن اورسیرت رسولؐ ہو اورجس کے پاس خود اپنی روایات کی قوس قزح ہو۔ دوسرے یہ کہ باخبری ایسی بصیرت کے ساتھ ہوجو فاسدفکر کی بنیادوں پر اٹھنے والی آوازوں کا معاون اور ہمدردنہ بنادے۔مثلا شام وترکی میں کرد شورش۔ صاف بتادیجئے قومیت اسلامیت کی قاطع ہے۔ ہمیں اس تحریک سے کوئی ہمدردی نہیں جو مسلم خطہ میں قومیت کی بنیاد پرالگ مملکت کیلئے خون خرابہ کرتی ہے۔اوراجودھیا کی ایک مسجد کے ساتھ کبھی ذکران سینکڑوں قدیم مساجد کا بھی ہونا چاہئے جن کو ایک حکومتی حکم سے نمازوں کیلئے بند کردیا گیا اورجن کے کھولے جانے کے امکانات سے فائدہ اٹھانے سے گریز کیاگیا۔
مزید جدوجہد مطلوب:سیکریٹری دعوت ٹرسٹ نے اخبار کے بند ہونے کے اعلان کے ساتھ یہ یقین دہائی کرائی تھی کہ جلد اس کا متبادل پیش کیا جائے گا(دعوت ۶/ اگست)۔ موجودہ شکل میں جو  ہفت روزہ آیا ہے، اسے مواد، معیاراور زبان وبیان کے اعتبار سے سہ روزہ کا متبادل بنانے کیلئے بہت توجہ مطلوب ہے۔مودودی صاحب اورنگ آباد میں پیدا ہوئے، جبل پور اورحیدرآباد سے لکھنے کا آغاز کیا لیکن انہوں نے دکنی اردونہیں شمالی اردو کو وسیلہ اظہاربنایا۔یہی بولی جماعت کے  لٹریچر کی عمومی زبان ہے۔ مجھے اندیشہ ہے  دکنی محاورہ  اس مقبولیت میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
 اچھا ہوتا کہ نگرانی کیلئے دعوت کے مزاج آشنا کسی سینئر صحافی کی خدمات لی جاتیں اورمدیر کے کالم میں فرضی نام نہ دیا جاتا۔پروازرحمانی صاحب کے علاوہ شفیق الرحمٰن اور صبغتہ اللہ ندوی صاحبان  موجود ہیں جو سینئر پوزیشن میں کام کا تجربہ رکھتے ہیں۔نئے تجربات کافی نہیں۔ تسلسل بھی ضروری  ہے۔  
Cell: 80779824854