Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, October 8, 2019

این آر سی۔۔۔۔کرنے کا اصل کام۔۔۔۔ایک مختلف قسم کا تجزیہ۔۔۔۔۔۔ضرور پڑھیں۔


از/الیاس نعمانی/صداٸے وقت۔
=============================
زیر نظر تحریر ایک مختلف قسم کے تجزیہ اور ایک مختلف قسم کی تجویز پر مشتمل ہے، براہ کرم آخر تک پڑھنے کی زحمت کریں.
............................................................
این آر سی کے سلسلے میں اصل خطرناکی شہریت ترمیمی بل سے پیدا ہورہی ہے، آسام کے تجربہ سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اگر این آر سی نافذ ہوا تو اس کی زد پر مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلم آئیں گے، اور چونکہ حکومت  غیر مسلم دراندازوں کے خلاف کچھ کرنا نہیں چاہتی، بلکہ انہیں ہندوستان میں رکھنا اور یہاں کی شہریت دینا چاہتی ہے، اس کا منصوبہ تو بس لاکھوں یا کروڑوں  مسلمانوں کو ڈیٹنشن سینٹرس میں ڈالدینے یا انہیں شہری حقوق سے محروم بنادینے کا ہے، اس لیے وہ کوئی ایسی صورت اختیار نہیں کرے گی جس کی وجہ سے غیر مسلم بھی اس کی زد پر آتے ہوں، اسی لیے اس کا ارادہ  (جیسا کہ وزیر داخلہ کے حالیہ بیان سے واضح ہے) یہ ہے کہ وہ این آر سی سے پہلے شہریت ایکٹ سے متعلق ایک ترمیمی بل پاس کرالے، جس کی رو سے تمام غیر مسلموں کو ہندوستان کی شہریت کاحق مل جائے، تاکہ پھر جو غیر مسلم واقعی در انداز ہوں یا کاغذات پیش نہ کرسکنے کی وجہ سے این آر سی میں جگہ نہ پاسکیںوہ ہندوستانی قرار پائیں، اور پھر اسی طرح کے مسلمانوں کو اٹھاکر  ڈٹنشن سینٹرس میں  ڈالدیا جائے اور ان کی تمام املاک کو ضبط کرلیا جائے۔

یعنی اصل دار ومدار شہریت ترمیمی بل پر ہے، اور ملت کی اصل کوشش یہی ہونی چاہیے کہ وہ پاس نہ ہونے پائے۔  اگر یہ بل پاس نہیں ہوسکا تو یقین جانئے حکومت کبھی بھی این آر سی کو پورے ملک میں نافذ نہیں کرے گی، کہ ایسی صورت میں کروڑوں ہندو بھی حقوق شہریت سے محروم ہوں گے، ان کی املاک بھی ضبط ہوں گی، انہیں بھی ڈیٹنشن سینٹرس میں رہنا پڑے گا، سنگھی نظریات کی حامل حکومت بھی بھی کروڑوں ہندووں کا یہ انجام نہیں ہونے دے سکتی۔
شہریت ایکٹ سے متعلق ترمیمی بل کو روکنا  اگر مسلمان کوشش کریں تو کچھ مشکل نہیں ہے، اس لیے کہ اس بل کے مخالف صرف مسلمان ہی نہیں ہیں، ملک میں اور آبادیاں بھی اس کی شدید مخالف ہیں۔ شمال مشرق کی متعدد ریاستوں کے ہندو بھی اس کے شدید مخالف ہیں، ان کا مطالبہ یہ ہے کہ شہریت سے متعلق قانون میں مذہبی تفریق نہ رکھی جائے، بلکہ ایسے تمام افراد کو ڈٹنشن سینٹرس میں ڈالا جائے، گزشتہ مرتبہ جب حکومت نے اس بل کو پاس کرانے کی کوشش کی تو ان ریاستوں میں اس کے خلاف زبردست احتجاج ہوا، 24 جنوری 2019 کو میزورم میں ہزاروں افراد نے اس کے خلاف  جواحتجاج کیاوہ صرف ایک احتجاج نہیں تھا، بلکہ ملک عزیز سے بغاوت کا اعلان تھا، اس احتجاج میں شامل متعدد افراد کے ہاتھ میں موجود  پلے کارڈس پر لکھا تھا "بائی بائی انڈیا، ویلکم چائنا". احتجاج ومخالفت کا یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا، بلکہ پورے میزورم میں 26 جنوری کی تقریبات کا بائیکاٹ کیا گیا، کسی اسکول اور آفس تک میں یہ تقریبات نہیں منائی گئیں، پورے میزورم میں صرف ایک تقریب ہوئی، جس میں گورنر، وزیر اعلی، چند وزرا اور سکریٹری لیول کے چند آفیسرس ہی شریک ہوئے، باقی پورا میدان خالی ہی پڑا رہا۔ یہ صرف ایک ریاست میں احتجاج نہیں تھا،بلکہ شمال مشرق کی تقریبا تمام ریاستوں میں بشمول آسام اس بل کے خلاف زبردست مخالفت ہے۔ یہاں تک کہ ان ریاستوں سے تعلق رکھنے والے بعض بی جے پی ایم پی بھی اس کی مخالفت کر چکے ہیں، گزشتہ موسم سرما میں جب یہ بل پیش ہوا تھا تو ان ریاستوں میں ہونے والے شدید احتجاج کی وجہ سے ہی منظور نہیں ہوا تھا۔
ان علاقوں کے علاوہ پورے ملک کے سیکولر دانشوروں کی ایک تعداد اس کے خلاف ہے، معروف انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس کی آج کی ہی اشاعت میں معروف سماجی کارکن وسابق آئی ایس آفیسر ہرش مندر کا ایک مضمون اس بل کے خلاف شائع ہوا ہے، یہ وہی ہرش مندر ہیں جن کا ایک مضمون گجرات فسادات کے زمانے سے شائع ہوا تھا اور اس نے ملک کے ضمیر کو وقتی طور پر ہی سہی جھنجھوڑ کر رکھدیا تھا، اور اسی مضمون کی اشاعت کے بعد ایسا ماحول بننا شروع ہوا کہ ایک ماہ سے جاری فسادات کا سلسلہ رک گیا، ملک میں غیر مسلموں کی ایک تعداد اس بل  کی مخالفت میں آواز اٹھارہی ہے، ضرورت ان سے رابطہ کرنے اور ان کی آواز کو مزید طاقتور بنانے کی ہے۔
غرض اس سلسلہ میں  کرنے کا اصل کام یہی ہے کہ ملک میں جو دوسرے حلقے اس بل کے خلاف ہیں ان کو ساتھ لے کر اس بل کے خلاف ایسی لابنگ کی جائے کہ یہ راجیہ سبھا میں پاس نہ ہوسکے۔ یہ کچھ مشکل کام نہیں ہے، ماضی قریب میں ہی ہم نے دیکھا تھا کہ طلاق سے متعلق بل جب پہلے پیش ہوا تو پرسنل لا بورڈ کے بعض افراد نے اس کے خلاف لابنگ کی تو یہ بل پاس نہ ہوسکا، لیکن پھر جب دوبارہ پیش ہونے پر لابنگ نہیں کی گئی تو یہ پاس ہوگیا۔ طلاق کے مسئلے میں تو ہم اکیلے تھے، جب کہ شہریت سے متعلق اس مسئلہ میں ملک کے دوسرے حلقہ بھی اس بل کے خلاف ہیں، اگر مناسب طریقہ کار اختیار کیا گیا تو ان شاء اللہ یہ بل پاس نہ ہوسکے گا، اور اس کے پاس نہ ہونے کی صورت میں کبھی بھی این آر سی نہیں ہوگا کہ پھر اس کے نتیجہ میں ہندو بھی زد پر آئیں گے اور حکمراں پارٹی کا اصل مقصد توصرف مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کا ہے۔ لہذا اگر یہ کام ہوجائے تو این آر سی کے شر کو ٹالا جاسکتا ہے۔
ضرورت بس ملت کے بہی خواہوں اور ذمہ داروں کے متحرک ہونے کی ہے،
  وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَیریٰ اللہُ عَمَلَکُم۔