Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, October 24, 2019

مابين لنچنگ کا خاتمہ ایسے ممکن ہے !!!!پوری تحریر ضرور پڑھیں۔

از/رضی الاسلام ندوی/صداٸے وقت۔
============================
        بنگلہ دیش سے خبر آئی ہے کہ وہاں کی ایک عدالت نے اپریل 2019 میں قتل کی جانے والی 19 سالہ طالبہ نصرت جہاں کے 16 قاتلوں کو سزائے موت سنادی ہے ۔ اس کیس بہت جلد حل کرلیا گیا تھا اور صرف 62 روز میں اس کی سماعت مکمل کر لی گئی تھی ۔

        نصرت جہاں چٹاگانگ کے ضلع فینی میں سونگازئی کے ایک تعلیمی ادارہ کی طالبہ تھی _ اس نے پرنسپل کے خلاف ریپ کی کوشش کا الزام لگایا _ پرنسپل نے اس پر مقدمہ واپس لینے کا دباؤ ڈالا ۔ لیکن جب اس نے مقدمہ واپس لینے سے انکار کردیا تو اسکول کے بعض اساتذہ اور طلبہ نے پرنسپل کے کہنے پر اسے اس کے اسکارف سے باندھ کر اس پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگادی ۔ اس کا جسم 80 فی صد تک جھلس گیا تھا ، چنانچہ ہسپتال میں پانچ روز تک زیرِ علاج رہنے کے بعد 10 اپریل کو وہ دم توڑ گئی ۔

      یہ خبر پڑھ کر مجھے عہدِ نبوی کا وہ واقعہ یاد آگیا جب عکل اور عرینہ نامی قبائل کے چند لوگ مدینہ آئے _ وہاں کی آب و ہوا انھیں راس نہیں آئی ، چنانچہ وہ بیمار پڑ گئے _ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے لیے آبادی سے ہٹ کر ایک جگہ رہنے کا انتظام کیا ، جہاں بیت المال کے اونٹ رکھے جاتے تھے اور ان کے علاج معالجہ کے لیے کچھ مشورے دیے _  یہ لوگ وہاں کچھ دن رہے ، پھر ان کی نیت میں فتور آگیا _ انھوں نے ان اونٹوں کی حفاظت پر مامور لڑکے کو قتل کردیا اور اونٹوں کو ہانک لے گئے _ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو جلد ہی خبر مل گئی _ آپ نے ان کا پیچھا کروایا _ بالآخر وہ پکڑے گئے _ آپ نے انھیں عبرت ناک سزا دیے جانے کا حکم دیا _ چنانچہ ان کے ہاتھ پیر کاٹ دیے گئے ، ان کی آنکھیں پھوڑ دی گئیں اور انھیں مرتے دم تک تڑپنے کے لیے صحرا میں چھوڑ دیا گیا _ ( بخاری : 233 ، مسلم :1671 )

         ممکن ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی دی گئی یہ سزا بہت سخت معلوم ہو _ اسلامی سزاؤں پر عموماً وحشیانہ ہونے کا الزام لگایا گیا ہے ، لیکن ایسی سزاؤں کی وجہ سے ہی عہد نبوی کا سماج امن کا گہوارہ بنا ہوا تھا _ ایسی سزائیں جہاں بھی نافذ کی جائیں گی وہاں شرپسندوں کو سماج کا امن غارت کرنے کی ہمّت نہیں ہوگی اور وہ قتل و غارت گری کا کوئی عمل انجام دینے سے پہلے ہزار بار سوچیں گے _

        ہمارے ملک عزیز میں کچھ عرصے سے موب لنچنگ کے واقعات پیش آرہے ہیں _ انسانوں کی بھیڑ اپنے ہی جیسے کسی انسان کو پکڑتی ہے اور انتہائی بے دردی سے اسے پیٹ پیٹ کر جان سے مارڈالتی ہے ، بسا اوقات دھار دار آلات سے اس کا عضو عضو کاٹ ڈالتی ہے _حالاں کہ اس شخص کا کوئی قصور نہیں ہوتا ، محض فرقہ وارانہ منافرت کی وجہ سے ایسا گھناؤنا عمل انجام دیا جاتا ہے _ افسوس کہ ملک کے حکم رانوں کی طرف سے ایسے واقعات کو روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہورہی ہے _ محض بیانات سے ایسے واقعات کیوں کر رک سکتے ہیں؟ ان کے رکنے کی واحد صورت یہ ہے کہ مجرموں کے دلوں میں سزا کا خوف پیدا کیا جائے _ اگر ان پر واضح ہوجائے کہ قتل کی سزا قتل ہے ، کسی شخص کے ساتھ جیسا معاملہ وہ کریں گے ویسا ہی معاملہ ان کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے تو وہ ظلم و تشدد سے باز آسکتے ہیں _ اگر ایک شخص کو 15 افراد مل کر قتل کریں ، اس کی سزا میں ان 15 افراد کو پھانسی دے دی جائے تو ایسے جرائم پر بہ آسانی روک لگ سکتی ہے _

       انصاف کا تقاضا ہے کہ مجرم سے ہمدردی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے مظلوم سے ہمدردی کی جائے _ دیکھا جائے تو قصاص کا نفاذ خود ان لوگوں کے ساتھ ہم دردی ہے جن کے اندر مجرمانہ جراثیم پائے جاتے ہیں ، کہ اس کے وجہ سے وہ جرم کے ارتکاب کی ہمت نہیں کرپاتے _ اسلامی سزاؤں کو چاہے جتنا وحشیانہ کہا جائے ، لیکن واقعہ یہ ہے کہ انھوں نے سماج میں امن قائم رکھنے میں اہم کردار انجام دیا ہے _

( محمد رضی الاسلام ندوی )