Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, October 9, 2019

آزاد بھارت کے مسلمانوں کا سنگین جرم !!!


تاریخی آئینے میں مسلمانوں کے سیاسی زوال کا ایک مختصر جائزہ:
از/سمیع اللہ خان/ صداٸے وقت۔
=============================
آج جبکہ مسلمانان ہند اپنے آپ کو  جَن سَنگھی فاشسزم کے پنجوں میں قید ہوتے ہوئے دیکھ رہےہیں، وہ دیکھ رہےہیں کہ ان پر فسطائیت ہر سمت سے حملہ آور ہے، ان کا ناحق خون بھی بہہ رہاہے، سسٹم ان پر ظلم بھی کررہاہے، اور پارلیمنٹ ان کے خلاف قانون بھی پاس کررہاہے، نوبت بایں جا رسید کہ، جمہوری مملکت کے قانون ساز اداروں کے ارکان اور وزراء کی زبانیں ان کے 
خلاف زہر اگلتی ہیں، 

شدت پسند ہندو تنظیمیں ان کے خلاف جارحانہ اور دشمنانہ عزائم کا اظہار کررہی ہیں، بڑے بڑے آئینی عہدیداروں اور جمہوریت کے رہنماﺅں کی زبان سے گاہے گاہے ہندوتوا کی تعمیر کے لیے تشنگی کا اظہار ہوتاہے، " جے شری رام " " بھارت ماتا کی جے " اور زعفرانی پرچم " حب الوطنی " کا سرٹیفیکیٹ بن چکاہے 
غرض یہ کہ آزادی کے بعد منقسم ہندوستان میں جبکہ چاروں طرف سے وہ موت اور زندگی کی کشمکش میں جی رہےتھے اسوقت جس سیکولرزم اور نیشنلزم کو مسلمانوں نے اپنی جان بچانے کے ليے اختیار کیا تھا، اور پھر جس نیشنلسٹ جماعت پر اپنی سیاسی وفاداریاں قربان کرنے کی پالیسی بنائی تھی، ستر سالوں کے بعد آج بھی انہی مہیب خطرات کے بادل ہمارے سروں پر منڈلا رہےہیں_
آزادی کے فوراﹰ بعد ہندو ۔ مسلم کی متحدہ قومیت کا نعرہ دینے والے غیر نظری اور غیر فطری فلسفے نے دم توڑنا شروع کردیا تھا، خود ابوالکلام آزاد جوکہ منقسم ہندوستان میں کانگریسی ہندؤوں کے درمیان مسلم نمائندگی کی مضبوط علامت تصور کیے جاتےتھے انہیں اسی وقت یہ احساس ہوگیاتھا کہ سیکولر ہندوستان میں ان کی قوم کا مستقبل غیر یقینی ہوگا، آزاد ؒ کے ان احساسات کو پہلی دستور ساز اسمبلی میں قومی زبان کے حوالے سے ان کی تجویز اور اس پر ان کی بے بسی والی تقریر سے صاف محسوس کیا جاسکتا ہے، فرقہ واریت مخالف کنونشن میں بھی آزاد ؒ کی تقریر سے یہ اشارہ چھن چھن کر باہر آتاہے کہ وہ مستقبل کے سیکولر ہندوستان میں کانگریسی ہندو قیادت کی طرف سے مسلمانوں کے حق میں بدنیتی محسوس کرچکے تھے ، آزاد اور کانگریس کے علاوه مسلمانوں کے پاس تیسرا کوئی راستہ نہیں تھا کیونکہ دیگر نے خود ہی یہ اعلان کردیا تھا کہ اب ہم ہندوستان میں مسلمانوں کی کوئی بھی علیحدہ سیاسی جماعت نہیں قائم کرینگے اور اگر مسلمانوں کو سیاست میں حصہ لینا ہے تو وہ کانگریس میں شامل ہوکر سیاست کریں،
آزاد نے ہار تسلیم کرلی، کانگریس نے خون چوسنا شروع کردیا اور دیگر رہنماﺅں نے سیاست سے کنارہ کش ہوکر مذہب اور سیاست کے مابین ایک خلیج قائم کردی، متحدہ قومیت کو تسلیم کرلینے کے بعد یہ دوسری بڑی اور خطرناک غلطی تھی، جس نے بابری مسجد کی شہادت تک مسلمانوں کو میٹھی نیند سلائے رکھا باوجود اس کے کہ کانگریسی دور میں ہزاروں ہزار مسلمانوں کا فرقہ وارانہ فسادات میں بدترین قتل عام بھی جاري تھا
گرچہ اس سے پہلے 1964 میں سید محمود صاحب نے مجلس مشاورت کے ذریعے سب سے پہلے منقسم ہندوستان میں مسلمانوں کو رائج سیاست کے خلاف بیدار کرنا چاہا اور کانگریسی غلامی سے نجات دلانے کی آواز لگائی، لیکن ان کی آواز صرف آواز رہی، البتہ ان سے حوصلہ پاکر 1968 میں ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی نے مسلم مجلس کے ذریعے ہندوستان کے سیاسی گلیاروں میں Free Style مسلم سیاسی نمائندگی پر مبنی سیاسی جماعت کی داغ بیل ڈالی اور آزادانہ کام بھی شروع کیا تھا، جس نے دور دراز تک ہلچل مچادی تھی، لیکن ان کی زندگی نے وفا نہیں کی اور قبل اس کے کہ وہ اپنی کوشش کو Visionary سیاسی تنظیم میں تبدیل کرتے، دنیا سے چل بسے
ان دونوں کوششوں کو جامد کانگریسی غلامی والی سیاست کے خلاف مسلمانوں میں ایک بہترین کوشش کا آغاز کہا جاسکتا ہے، لیکن روایتی کانگریسی غلامی جس کا اعلان دراصل مقدس حلقوں کی جانب سے کیاگیاتھا اس نے مسلم قوم کو بری طرح جکڑ لیا تھا اسلیے بھی یہ دونوں سیاسی تحریکات عوامی اور عمومی طور پر کامیاب نہیں ہوئیں، اور ہندوستان کا مسلمان مجموعی طورپر مار کھاتے رہنے، رسوا ہوتے ہوئے بھی اور سسٹم میں اپنے ساتھ سوتیلے پن کے باوجود بھی کانگریسی جھنڈا تھامے اس کے وجود کے لیے لڑتا رہا، اس غیر شرعی رویے سے بیدار کرنے کے ليے مسلمانوں کو بہتوں نے آوازیں دیں لیکن کانگریس پر پڑے ہوے تقدیسی چکاچوند کو کوئی بھی متاثر نہیں کرسکا تاوقتیکہ بابری مسجد کی شہادت کا کالا دن پیش آگیا، اس دن تک آزاد بھارت کے تقریباﹰ پینتالیس برس گزر چکے تھے اور ان کی حالت مجموعی طورپر ایسی تھی کہ انہیں پارلیمنٹ اور ہندوستانی سسٹم میں بحیثیت مسلمان اپنے استحکام کا خیال تک نہیں گزرا تھا، بلکہ مسلمان اسے تقویٰ و طہارت کے خلاف بھی گردانتے تھے_
اس تفصیل کا مدعا یہ ہےکہ، آپ جان لیجیے کہ، منقسم ہندوستان کی سیاست میں مسلمانوں کا یہ طرزعمل ، دراصل آزادی کے فوراﹰ بعد جب کہ خطرناک قتل و غارت مچی ہوئی تھی اس پرآشوب اور ہنگامہ ہائے داروگیر کے خونچکاں منظرنامے میں، مسلمانوں نے یہ راستہ اپنایا کہ وہ ملک کے دیگر باشندوں کی نظر میں خود کو اس بھارت کا وفادار، محب وطن، ہندوﺅں کے لیے بے ضرر اور جمہوریت و سیکولرزم کا مخلص ثابت کریں،
اب آپ اس روشنی میں موجودہ حالات، ہمارے مسائل، اور چیلنجز کا جائزہ لیجیے، اور ستر سال پہلے اپنے قومی وجود پر منڈلاتے چیلنجز کا جائزہ لیجیے،
*تاریخی دستاویزات اس پر گواہ ہیں، بابری کا ڈھانچہ، فسادات کے ہزاروں مقتولین اور پارلیمنٹ کی کارروائیاں اس پر شاہد ہیں کہ مسلمان آزادی کے دوسرے دن سے ہی بھارت میں اپنے آپ کو " دیش بھکت " ثابت کرنے کے لیے سب کچھ کر گزرا ہے، بہت کچھ نہیں بلکہ اپنا وجود قربان کرچکا ہے، لیکن آج تک وہ " محب وطن یا وفاداری " کے تمغے سے محروم ہیں…… یہ وہ بھیانک غلط راستہ تھا جسے مسلمانوں نے اختیار کیا اور آج مفلوج ہیں… موجودہ بھاجپائی فسطائی عہد میں ان کی نظریں اچک اچک کر اپنے لیے جس نجات دہندہ لیڈرشپ کی تلاش میں ہیں ویسی لیڈرشپ انہوں نے کبھی بھی تیار ہی نہیں کی، نا اس کے لیے سرجوڑ کر بیٹھے، اس کے برخلاف وہ " بھاجپا " جسے آزادی کے کئی برسوں بعد تک ایک سیٹ بھی نہیں ملتی تھی وہ اب اکثریتی اعتبارسے برسراقتدار ہے، اس لیے کہ انہوں نے ستر سالہ تیاریاں کیں، کبھی بھی دیش بھکتی کی دوڑ میں اپنی توانائی ضائع نہیں کی، بلکہ انہوں نے اپنی قوم سے یہ وعدے کیے کہ ہم اس دیش کو تمہاری بھکتی کے مطابق کرکے دکھائیں گے، ستر سالوں نے یہ دکھا دیا کہ وہ کامیاب ہوگئے کیونکہ انہوں نے کبھی بھی اپنے فسطائی عزائم سے سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ ملک کی قدروں کو ہی فسطائیت میں رنگ کر آج پیش کررہےہیں*
دوسری طرف مسلمان ہیں جنہوں نے اپنے اللّٰہ اور رسولﷺ سے وفاداری نہیں کی، وہ اس ملک میں اسلام کا نام لینے سے کتراتے رہے، مشرکین ان پر نئے نئے الزامات عائد کرتے رہے اور وہ صفائیاں دیتے رہے، لیکن  وہ اپنی قومی شناخت کی بنیاد پر نمائندگی قائم کرنے سے عار محسوس کرتے رہے کہ مبادا ہمارے کانگریسی آقا ناراض ہوجائیں یا دیش بھکتی کا مسئلہ نا کھڑا ہوجائے
ذرا سوچیے کہ ہم آج تک کیا کرتے رہے؟ ایکطرف تو اعلاء اسلام اور اسلامی عظمت و سطوت کے بلند بانگ تقریری بیانیے لیکن دوسری طرف ملک میں نمائندگی اور یہاں اپنا وجود قائم کرنے کے لیے ہماری پالیسیاں بالکل غير اسلامی ہی نہیں بلکہ براہ راست اسلام سے ہی متصادم، جبکہ آپکے ملک کا آئین بھی آپکو ایسی بندشوں میں قید نہیں کرتا اس کے باوجود دیش بھکتی کا ایسا ڈر کہ اللّٰہ سے وفاداری کے درمیان انسان تذبذب کا شکا ہوجائے، رو رو کر دعائیں غلبۂ اسلام کی اور غلبۂ اسلام کی راہوں کی رہبری کفار و مشرکین کو سونپ دی جائے ! بھلا ایسی ہزار سالہ جدوجہد بھی ہوجائے تو کیا نصرت الٰہی اس میں شامل ہوسکے گی؟ اور جہاں نصرت خداوندی نہیں تو وہاں فاشسزم، سنگھیت اور شیطنت کے علاوہ اور کیا ہوگا؟
ابھی ایسا نہیں ہیکہ سب راستے بند ہوچکےہیں! ایسا بالکل نہیں
آپ:
سوچیے، بلا تکلف تحقیق کیجئے اپنی غلطیوں کی نشاندہی کیجیۓ، اور راہ عمل طے کرکے اپنا سفر شروع کیجیے، بیشک حالات پھر سے آپکے قدموں میں ہوں گے، بشرطیکہ تم اپنے خالق کے وفادار بن جاو _
*سمیع اللّٰہ خان*
۹، اکتوبر بروز بدھ ۲۰۱۹
ksamikhann@gmail.com