ایم ودود ساجد/صداٸے وقت۔
===========================
یہ موضوع بہت تفصیل طلب ہے۔۔۔ لیکن مسلمانوں میں اس وقت یہاں سے وہاں تک ایک بے چینی سی پھیل گئی ہے۔۔۔ ہر جگہ اور ہر محفل میں بس ایک ہی ذکر ہے: بابری مسجد کا سودا ہوگیا۔۔۔۔
ہم جس دور سے گزر رہے ہیں اس میں کچھ بھی ممکن ہے۔۔۔ اس لئے یکسر کسی خدشہ کو مسترد کرنا دانشمندی نہیں ہے۔۔۔ لیکن کچھ آثار وقرائن سے مدد لے کر بھی نتیجہ نکالنا ہوگا۔۔۔ زندگی کی گاڑی کو بریک نہیں لگایا جاسکتا ۔۔۔ بے چینی کی شدت کو کم کرنا بہت ضروری ہے۔۔۔
مسلمان جس حد تک مکلف ہے اس حد تک ضرور جائے لیکن اس حد سے آگے جانے کا مطلب خود کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہوگا۔۔۔ اس لئے لکھنے والوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ متوازن راستہ اختیار کریں ۔۔ افواہوں' خدشوں اور اندیشوں کی لہروں کے ساتھ بہہ کر حواس مجتمع نہیں رہ سکتے۔۔۔ اس وقت حواس کا مجتمع رکھنا نہایت ضروری ہے۔۔۔
کہاجاتا ہے کہ یوپی سنی سینٹرل وقف بورڈ کے چیئرمین زُفر فاروقی نے مفاہمت کمیٹی کے ایک رکن سری رام پنچو کے ذریعے ایک سر بمہر خط عدالت کو ارسال کیا ہے جس کی رو سے وہ چند شرائط کے ساتھ بابری مسجد کے دعوے سے دستبردار ہونے کو تیار ہے۔۔۔عدالت نے ابھی اس خط کو پڑھا نہیں ہے۔۔۔ بحث آج مکمل ہوگئی ہے۔۔۔
اب جج حضرات کو فیصلہ لکھنا ہے۔۔۔ یہ فیصلہ 16 نومبر تک آنا ضروری ہے۔۔۔ 17 نومبر کو پانچ رکنی بنچ کے ایک رکن چیف جسٹس رنجن گوگوئی ریٹائر ہوجائیں گے۔۔۔ اگر وہ فیصلہ سنائے بغیر ریٹائر ہوگئے تو پھر نئی بنچ کی تشکیل کرنی پڑے گی اور اس معاملے کی ازسر نو سماعت ہوگی۔۔۔
وقف بورڈ نے قانونی طور پر مقدمہ سے دستبرداری کا کوئی اعلان نہیں کیا۔۔۔۔ آج بحث کے آخری دن عدالت میں بورڈ کے وکیل راجیو دھون نے بحث میں حصہ بھی لیا ہے اور ہندو فریقوں کا جواب بھی دیا۔۔۔
ابھی ایک تقریب سے آرہا ہوں ۔۔۔ وہاں بڑے بڑے لوگ بھی موجود تھے۔۔۔ پرسنل لاء بورڈ کے خلاف وہاں ماحول گرم تھا۔۔۔ کئی افراد کی رائے تھی کہ وقف بورڈ کے ساتھ پرسنل لاء بورڈ بھی ملا ہوا ہے اور مفاہمتی کمیٹی کے ذریعے کوئی بہت بڑا کھیل کھیلا گیا ہے۔۔۔ یعنی بابری مسجد کا سودا ہوگیا ہے۔۔۔
آپ کو یاد ہوگا کہ بحث کے آخری ایام میں چند لوگ پھر مفاہمت کا نسخہ لے کر نمودار ہوئے تھے۔۔۔ بلکہ انہوں نے تو ہندؤں کی تالیف قلب کے لئے بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کے لئے تحفۃً ہندؤں کو دینے کی اپیل کردی تھی۔۔۔ گوکہ ان افراد کی مسلم معاشرہ میں کوئی خاص وقعت نہیں ہے لیکن یہ اندازہ تو ہوتا ہی ہے کہ شرپسند فریق عدالت میں 40 روزہ بحث کے بعد مایوس ہوگیا ہے۔۔۔ سابق چیف جسٹس دیپک مشرا نے واضح کردیا تھا کہ عدالت آستھا نہیں بلکہ حق ملکیت یا Title suit کی بنیاد پر سماعت کرے گی۔۔۔
موجودہ چیف جسٹس نے بھی یہ واضح کردیا تھا ۔۔ قانون ویسے بھی ثبوت وشواہد کی بنیاد پر فیصلے کرتا ہے۔۔ آستھا کوئی قانونی ثبوت کا درجہ نہیں رکھتی۔۔۔ حکومتیں سیاسی بنیادوں پر آستھا کو اہمیت دے سکتی ہیں عدالتیں نہیں ۔۔۔
عام مسلمانوں کو صبر وضبط' احتیاط اور برداشت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔۔۔۔ مسلمان جس حد تک مکلف تھا وہ اس نے کرلیا۔۔۔ مسلم فریق کے وکیلوں نے شاندار اور جاندار بحث کی۔۔۔ اس سے عمدہ بحث نہیں کی جاسکتی تھی۔۔۔ مسلم فریق نے امکانی حد تک ناقابل تردید شواہد پیش کردئے ہیں ۔۔۔ ہندو فریق کوئی ٹھوس ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا۔۔۔ خود جسٹس اے کے بھوشن نے تسلیم کیا کہ بابری مسجد کے مقام پر رام کی پیدائش کا محض ایک زبانی ثبوت موجود ہے۔۔۔ راجیو دھون نے شاندار رد کرکے اس واحد زبانی ثبوت کو بھی چھلنی کردیا۔۔۔
حکومت کے شرپسند بہر حال چین سے نہیں بیٹھیں گے۔۔۔ فیصلہ آنے کے بعد بھی نہیں ۔۔۔۔ لیکن آج کے عدالتی رویہ سے نہیں لگتا کہ جج حضرات اب مزید کوئی ایسا عمل ہونے دیں گے جس سے عدل وانصاف کا سینہ چھلنی ہوجائے ۔۔۔