Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, October 18, 2019

سرسید احمد خان کے یوم پیداٸش کے موقع پر ایک توسیعی خطبہ بعنوان ”سرسید اور تہذیب رسم عاشقی“ کا اہتمام۔


سرسید کی تہذیبِ رسمِ عاشقی نے فنا میں بقا کا راز آشکار کیا:
 شمیم طارق۔
اردو اکادمی،دہلی کے زیر اہتمام سرسید احمد خاں کے یومِ پیدائش کے موقع پر توسیعی خطبہ کا اہتمام
نئی دہلی،17اکتوبر(ہ س)۔/صداٸے وقت/مورخہ 18 اکتوبر 2019.
=============================
محکمہ فن ،ثقافت و السنہ حکومت دہلی کی جانب سے اردو اکادمی دہلی کے زیر اہتمام سر سید احمد خاں کے یوم پیدائش کے موقع پر ایک توسیعی خطبہ بعنوان ”سر سید اور تہذیبِ رسمِ عاشقی“ قمر رئیس سلور جوبلی آڈیٹو ریم میں منعقد ہوا۔جس کی صدارت پروفیسر ارتضیٰ کریم اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر خالد
مبشر نے انجام دیے۔

توسیعی خطبہ معروف نقاد ،شاعرو کالم نویس شمیم طارق نے پیش کیا ۔پروگرام کا آغاز اردو اکادمی دہلی کے وائس چیئر مین و معروف شاعر پروفیسر شہپر رسول نے پروفیسر ارتضیٰ کریم اور شمیم طارق کا استقبال گلدستہ پیش کرکے کیا ۔اس موقع پر پروفیسر ارتضیٰ کریم نے اپنی صدارتیتقریر میں کہا کہ شمیم طارق کی یہ خوش قسمتی ہے کہ ان کا تعلق کسی جامعہ یا کسی یونیورسٹی سے نہیں ہے اس لیے وہ ادب کے ڈائنا سور نہیں ہیں جسے ادب کا دانشور کہا جا تا ہے۔انھوں نے کہامیں یہ بات پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ آج ادب میں ذیادہ تر ڈائناسور ہیں دانشور تو ہے ہی نہیں اور اگر ہیں بھی تو ایک دو ہوںگے ۔انہوں نے کہا کہ اردو اکادمی نے سر سید کی پیدائش کے موقع پر بہت اچھے موضوع اور ایک بہت اچھے خطیب کا انتخاب کیا ہے ۔انہوں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سر سید جیسی شخصیت بہت کم ہیں بلکہ صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں جس کا اعتراف ابو الکلام آزاد نے بھی کیا لیکن ابو الکلام جب سرسید کی تحریروں سے واقف ہوتے ہیں تو ان کے یہاں پورا تغیراور پورا انقلاب آجاتا ہے اور اس میں آپ نے جس طرف اشارہ کیا ہے سر سید کی مذہبی فکر سے خود کوہم آہنگ کیا ۔ شمیم طارق نے ”سرسید اور تہذیبِ رسمِ عاشقی“ پرخطبہ دیتے ہوئے کہا کہ سرسید احمد خاں کوہم مختلف حیثیتوں سے جانتے ہیں مگر ا ن کی یہ حیثیت ہرحیثیت پر غالب ہے کہ انھوں نے تہذیب کے تصور کو اتنی وسعت و جامعیت عطا کی اور اس کو عملی سطح پر بھی پیش کیا جو زندگی کے ہر شعبے اور ہر کام کو محیط ہے۔ اس تہذیب کی بنیاد محبت اور افادیت پر رکھی گئی ہے۔ انھوں نے جو کیا اور جو کرنے کی ترغیب دی وہ یہ تھا کہ کوئی کام بدسلیقگی سے یا کسی کو نقصان پہنچاکر نہ کیا جائے۔ اس حقیقت کا ثبوت سرسید کے افکار، احوال، افعال اور کارناموں سے ملتا ہے۔ سرسید کی تاریخ نویسی، نثر نگاری، تعلیم و تربیت کے طریقے، سائنٹفک سوسائٹی کے قیام اور تہذیب الاخلاق کے اجرا اور دوسرے کاموں میںاسی تہذیب کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے تہذیب اور عاشقی دونوں کے تصور کو بہت محدود کردیا ہے بلکہ دونوں کے تصور میں بہت کچھ ایسا شامل کردیا ہے جو تہذیب اور عاشقی کا جزءہو بھی نہیں سکتا۔ شمیم طارق نے سرسید کی تحریروں سے مثالیں دیں اور بتایا کہ انھوں نے ذہن و عمل کی جو تہذیب پیش کی اس کی بنیاد محبت اور عشق پر رکھی گئی تھی اور اس تہذیب عاشقی کو ہمارے بیشتر شاعروں نے پیش کیا ہے۔ فراق جیسا شاعر بھی جو عشق اور ہوس یا جسمانی لذت میں فرق نہیں کرتے وہ بھی عشق کے ہمہ گیر اور مقدس تصور کا حامل تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ:
حاصل حسن و عشق ہے بس یہ آدمی آدمی کو پہچانے
”تہذیب رسمِ عاشقی“ کی ترکیب حسرت موہانی کے ایک شعر سے مستعار ہے۔ حسرت دانشگاہ سرسید کے پروردہ تھے اور ان کی تہذیب رسمِ عاشقی کی کئی جہتیں تھیں۔ سرسید نے حسرت سے پہلے ان جہتوں کا احاطہ کیا تھا۔شمیم طارق نے کہا کہ سرسید کے کارناموں اور”تہذیب رسمِ عاشقی“ کے حوالے سے وہ نفرت اور بدعنوانی دور کی جاسکتی ہے جو آج کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں در آئی ہے، اس کااگر کوئی علاج ہے تو تہذیب رسمِ عاشقی ہی ہے جو فنا میں بقا کا راز سمجھاتی اور دُھن و کردار کو پاکیزگی عطا کرتی ہے۔پروفیسر شہپر رسول نے استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج سر سید احمد خاں کی یوم پیدائش ہے، سرسید ایک ایسی شخصیت ہیں جو غیر معمولی کارناموں سے منسوب ہیں۔سر سید نے جو کارنامے انجام دیے ہیں جیسا حوصلہ،جیسی فکر،جیسی تحریک اور تعلیم کی جو ان کی فکر تھی وہ غیر معمولی تھی۔دوسرے وہ قومی یکجہتی کے ہندوستان میں خاص طور پر علم بردار تھے اور آج بھی ہندوستان کو قومی یکجہتی اشد ضرورت ہے اسی لیے انہوں نے کہا تھا کہ میں ہندوستان کو ایک دلہن کی شکل میں دیکھتا ہوں اور یہاں کی جو دو بڑی قومیں ہیں ہندو اور مسلمان وہ اس دلہن کی دو آنکھیں ہیں تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اگر دلہن کی ایک آنکھ ہی نہ ہو تو اس کی کیا کیفیت ہوگی کیوں کہ دلہن کا جو تصور میں نے بیان کیا ہے اس سے آپ سب اچھی طرح سے واقف ہیں ۔سر سید احمد خاں کے حوصلے اور ان کی فکر کا یہ عالم تھا کہ جس وقت وہ اپنی
وہ اپنی کتاب اسباب بغاوت لکھ رہے تھے اس میں انہوں نے انگریزوں کو یہ بتایا تھا کہ بغاوت کی وجہ کیا تھی اور اس کے اسباب کیا تھے جس کی نشان دہی انہوں نے بیشتر جگہ کی تھی اس میں کچھ چیزیں غلط تھیں جس میں ہندو مسلمان دونو شامل تھے جو ہندوستان میں بعض عقیدے،تہذیب اور بعض روایات کے خلاف تھیں تو بغاوت ہونا ہی تھی اسی کیفیت کے دو سو صفحات تھے جب لوگوں نے انہیں پڑھا تو معلوم کیا کہ آپ یہ کیا لکھ رہے ہیں دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں اور اگر یہ بات بھی کسی نے سن لی اور حکومت تک پہونچ گئی تو آپ کو پھانسی ہو جائے گی اسکو فورا جلا دیجئے ۔اس پر سر سید مسکرائے اور انہوں نے کہا کہ میاں انگریزوں کے لئے ہی لکھ رہاہوں تاکہ وہ بھی پڑھ لیں آپ کہہ رہے ہیں اسے جلا دیں ۔کتاب شائع ہوئی اور اس کی ایک ہزار جلدیں انگلینڈ بھیجی گئیں اس کے بعد انگریزوں کی فکر میں تبدیلی آئی اور حالات بدل گئے تب ان کی سمجھ میں آیا کہ یہ آدمی صحیح تھا اس طرح کاوہ عظیم شخص تھا ۔اخیر میں انہوں نے تمام مہمانان اور سامعین کا اپنی طرف سے اور اردو اکادمی کی جانب تہے دل سے شکریہ ادا کیا 
پروگرام کے اہم شرکاءمیں پروفیسر خالد محمود،ڈاکٹرجی۔ آر۔ کنول،ڈاکٹر ریاض عمر،ڈاکٹر عقیل احمد، اشفاق احمد عارفی،متین امروہوی، اکادمی کی گورننگ کونسل کے ممبر ایف آئی اسماعیلی، ڈاکٹر تابش مہدی،منیر ہمدم،ڈاکٹر مشتاق قادری ،وقار مانوی،ڈاکٹر ظفر مراد آبادی،سائنس داں محمد خلیل،معین شاداب،ڈاکٹر ندیم،ڈاکٹر سہیل احمد،غلام نبی کمار ،خان رضوان،سید شاداب حسین رضوی،احمد علوی اور ایم آر قاسمی کے نام قابل ذکر ہیں۔