Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, October 12, 2019

لکھنے کے لٸے پڑھنا ضروری ہوتا ہے۔!!!!

صداٸے وقت/نماٸندہ(ماخوذ).
================
تخلیقی ذہن اللہ کی دین ہے جسے چاہے عطا کر دیتا ہے. دور حاضر میں یہ نعمت نادر الوجود ہے. باالخصوص ہمارا نوجوان سکالر طبقہ اس نعمت سےمحروم ہے الا ماشاءالله.. اس محرومی کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ سولہ سالہ تعلیمی سفر طے کرنے کے بعد بھی ان میں اکثریت اس قابل نہیں رہتی کہ اپنے خیالات کو الفاظ کا جامہ پہنا سکیں . اور پھر آگے جاکر جب ایم فل اور پی ایچ ڈی سطح پر کسی موضوع پر تحقیق کرنے کا مرحلہ آجاتا ہے تو انہیں طرح طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے.
نئے خیالات اور اچھوتے موضوعات پر قلم کشی کرنے کے لئے کتاب سے وابستگی ازحد ضروری ہے. کتب بینی سے بند دریچے وا ہوتے ہیں اور ذہنی بالیدگی عمل میں آتی ہے. آپ جب مطالعہ کا عمل جاری رکھتے ہیں تو آپ کا ذخیرہ الفاظ بڑھتا جاتا ہے اور آپ کی گفتگو مدلل ہوتی ہے. دور حاضر کا انسان سہل پسند اور آسان کوش واقع ہوا ہے.اسے ہر کام میں آسان پہلو کی تلاش ہوتی ہے. موجودہ دور میں ایم فل اور پی ایچ ڈی سطح پر تحقیق کرنے والے طلبہ کی ذہنی استعداد اور اس سطح پر لکھے جانے والے تحقیقی مقالات سے اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے. ہمارے ہاں اعلی سطح پر تحقیق کی صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے تحقیقی مقالات میں موضوع سے متعلق چند ایک صفحات پڑھنے کو ملتے ہیں. ان مقالات کی علمی حالت یہ ہے کہ ان میں جہاں کہیں موضوع پر بات شروع ہوتی ہے ادھر ہی مقالہ اپنے اختتام کو پہنچ جاتا ہے. جدید تعلیم یافتہ طبقے میں سوچنے، خود سے لکھنے، نئ فکر پیش کرنے کی صلاحیت ناپید ہوتی جارہی ہے. کاپی پیسٹ،پرائے مواد کو ہتھیانا، دوسروں کی محنت پر ڈاکہ ڈالنے کی روش عام ہوچکی ہے. سوال یہ ہے کہ اس صورت حال سے کیسے نبٹا جائے؟ ذیل میں چند مفید مشورے دیے جاتے ہیں جن پر غور کرنے اور عمل کرنے سے امید ہے اس مسئلے پر کسی حد تک قابو پایا جاسکے .
👈کتب بینی کا شوق رکھیے. اس سے علمیت اور حوصلے کو ترقی ہوتی ہے.اپنے ہمعصر کی علمی کمزوریوں کا ادراک ہوتاہے. اس عادت کو اپنانے سے آپ بلند پایہ مصنفین کے ذہنی طور پر ہمسفر بن جاتے ہیں. مختصراً یہ کہ لکھنے کے لیے پڑھنا بہت ضروری ہے
👈اپنے اندر سوچنے کی صلاحیت کو پروان چڑھائیں. ایک فلسفی کا کہنا ہے "چونکہ میں سوچ سکتا ہوں اس لیے میں ہوں." سوچنے کا عمل معلومات کے حصول اور اس پر عمل آوری میں معاون ثابت ہوتی ہے اور اسی وجہ ایک مصنف معلومات اور اشیا کو استدلالی اور تنقید و تجزیہ کی کسوٹی پر پرکھنے لگتا ہے.
👈روزانہ کی بنیاد پر لکھیے چاہے وہ ایک پیراگراف ہی کیوں نہ ہو. اپنے احساسات و جذبات کو الفاظ میں ڈھالیے. بہت سے لوگ بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں لیکن انہیں لکھنے کی توفیق حاصل نہیں ہوتی یا اگر وہ لکھ بھی لیں تو ان کا اسلوب بے ڈھنگا سا ہوتا ہے جو قارئین کو آزمائش میں ڈال دیتا ہے.
👈اور آخری بات یہ کہ اپنی لکھی ہوئی تحریر کو بار بار پڑھیے. بہتر ہوگا کہ اپنی تحریر کسی اور سے پڑھوائیے کیونکہ اکثر اوقات انسان اپنی غلطیوں کو نہیں پکڑ سکتا... 👈ایک ہی نشست میں سب کچھ لکھنے کی بجائے وقفے وقفے سے لکھیے اور مزید لکھنے سے پہلے اپنی پچھلی تحریر پر نظر ثانی کیجئے ایسا کرنے سے آپ کو اپنی تحریر میں بہت سی باتوں میں ترمیم کرنے کی ضرورت محسوس ہوگی.
👈مطالعہ کے دوران نوٹس لینا مت بھولیے. جب آپ کوئی بات تحریر کر رہے ہوتے ہیں تو دوسرے لفظوں میں آپ اسے یاد کر رہے ہوتے ہیں. بعد میں اپنے لیے ہوئے نوٹس کا تجزیہ کیجئے. بہتر ہوگا اس کام کے لیے آپ کوئی ڈائری مختص کرلیں. یہ لیے گئے نوٹس مسقبل میں بہت کارآمد ثابت ہوتے ہیں.