Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, October 17, 2019

کل عدالت میں یہ بھی ہوا تھا۔!!!


ایم ودود ساجد/صداٸے وقت۔ مورخہ 17 اکتوبر 2019.
==========================
کل دن بھر ایک خبر گشت کرتی رہی کہ مسلم فریق کے وکیل راجیو دھون نے عدالت میں ایک نقشہ کے ٹکڑے کرڈالے۔۔

اصل واقعہ یہ ہے جو انڈین ایکسپریس نے قدرے تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے: بحث کے آخری دن ہندو فریق کے ایک وکیل وکاس سنگھ نے (مقدمہ کو شرارتاً طول دینے کی غرض سے) ایک ریٹائرڈ آئی پی ایس کنال کشور کے ذریعے لکھی ہوئی ایک کتاب ججوں کے سامنے یہ کہہ کر پیش کی کہ اس کتاب کو بھی ریکارڈ پر لے لیا جائے ۔۔۔

اس پر راجیو دھون نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب الہ آباد ہائی کورٹ کے سامنے پیش مقدمہ کے ریکارڈ میں شامل نہیں تھی اس لئے اب یہ کتاب سپریم کورٹ کے ریکارڈ میں شامل نہیں کی جاسکتی۔۔ راجیو دھون کا استدلال درست تھا' لہذا بنچ نے اس کتاب کو قبول نہیں کیا۔۔۔ ہندو فریق کے وکیل نے راجیو دھون کی طرف ایک نقشہ بڑھاتے ہوئے کہا کہ اچھا اس کو تو شامل کرلیا جائے ۔۔۔ دھون نے کہا کہ یہ نقشہ بھی اس کتاب کا ہی حصہ ہے۔۔۔

راجیو دھون نے اس موقع پر چیف جسٹس رنجن گوگوئی کو خطاب کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا میں اس نقشہ کو باہر پھینک سکتا ہوں ۔۔۔؟ چیف جسٹس نے جواب دیا کہ اگر آپ چاہیں تو اسے پھاڑ سکتے ہیں ۔۔ یہ سنتے ہی راجیو دھون نے یہ نقشہ پھاڑ دیا۔۔۔ وکاس سنگھ نے کہا کہ اور ٹکڑے کیجئے ۔۔۔ پھر ہندو فریق کی طرف سے مزید کچھ احتجاجی آوازیں آنی شروع ہوگئیں ۔۔۔

اس پر بنچ مضطرب ہوگئی۔۔۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر دونوں فریق اپنا رویہ نہیں بدلیں گے تو بحث جاری رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔۔۔ لنچ کے وقفہ کے بعد راجیو دھون نے بنچ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ میں نے عدالت میں اپنے آپ کچھ کاغذات پھاڑ دیئے ہیں ۔۔۔ میں نے تو چیف جسٹس سے پوچھا تھا کہ کیا میں اس نقشہ کو باہر پھینک دوں اور چیف جسٹس نے کہا تھا کہ اگر آپ چاہیں تو پھاڑسکتے ہیں ۔۔۔۔اس پر چیف جسٹس مسکرائے اور کہا کہ ہاں آپ کہہ سکتے ہیں کہ "چیف جسٹس نے کہا تھا کہ اگر یہ نقشہ پھاڑ کر پھینکنے کے لایق ہے تو آپ اسے پھاڑ کر پھینک سکتے ہیں ۔۔۔۔۔"

واقعہ یہ ہے کہ اس واقعہ کے علاوہ بھی دوسری کئی باتیں دن بھر اڑتی رہیں ۔۔۔ لوگ ان پر یقین کرکے بحث ومباحثہ میں شامل ہوتے رہے۔۔۔ اپنا وقت بھی ضائع کیا اور ذہنی کشیدگی بھی مول لی۔۔۔ بہتر صورت یہی ہے کہ جب کوئی ایسی متحیر العقول' غیر مصدقہ اور انہونی سی خبر پہنچے تو انتظار کیا جائے ۔۔۔ حیرت ہے کہ ہندی والوں کی طرح اب تو اردو والے بھی افواہوں کو سنسنی خیز بناکر پیش کرنے لگے ہیں ۔۔۔ ان کے اپنے نمائندے عدالتوں میں موجود بھی نہیں ہوتے مگر رپورٹنگ اس طرح کرتے ہیں جیسے جج حضرات سے ان کا خاص تعلق ہے۔۔۔۔ انگریزی اخبارات اور انگریزی صحافی ابھی اپنا وقار باقی رکھے ہوئے ہیں ۔۔۔  انڈین ایکسپریس نے اس 40 روزہ سماعت کی جو شاندار رپورٹنگ کی ہے وہ قابل تحسین ہے۔۔۔