Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, November 17, 2019

جید عالم، محسن اردو علامہ شبلی نعمانی کے یوم وفات 18 نومبر کے ضمن میں۔

یوم وفات  18 نومبر 1914ء۔/صداٸے وقت
===========================
آپ جاتے تو ہیں اس بزم میں شبلیؔ لیکن۔
حال دل دیکھیے اظہار نہ ہونے پائے۔

 شبلیؔ نعمانی, دور حاضرہ کے بہت بڑے ادیب, زبردست مورخ, اعلیٰ پایہ کے سوانح نگار اور نہایت فاضل و عالم بزرگ تھے۔ علامہ شبلیؔ نعمانی کا ایک بڑا کارنامہ ندوۃ العلما کا قیام ھے۔ ان کی زندگی کا حاصل ان کی تصنیف سیرت النبی سمجھی جاتی ھے تاہم بدقسمتی سے ان کی زندگی میں اس معرکہ آراء کتاب کی فقط ایک جلد شائع ہوسکی تھی۔ ان کے انتقال کے بعد یہ کام ان کے لائق شاگرد سید سلیمان ندوی نے پایہ تکمیل کو پہنچایا۔ شبلیؔ نعمانی کی دیگر تصانیف میں شعر العجم، الفاروق، سیرت النعمان، موازنۂ انیس و دبیر اور الغزالی کے نام سرفہرست ہیں۔ علامہ شبلی نعمانی کا مزار اعظم گڑھ میں واقع ھے۔ نظم میں خاص درجہ حاصل نہیں مگر جتنا اور جو کچھ کہا نہایت مقبول ہوا۔ قومی اور تاریخی نظمیں انہوں نے جتنی لکھیں سب نہایت بےنظیر تھیں جتنی مبسوط کتابیں تحریر فرمائیں سب اپنے موضوع کے لحاظ سے بےحد قابل قدر تھیں۔ الفاروق کا جواب تمام اردو لٹریچر میں نہیں۔ شعرالعجم پانچ جلدوں میں فارسی شاعروں کی مبسوط تاریخ ھے۔ الماموں، سیرۃ النعمان، سوانح مولانا روم، الغزالی ان کی مشہور کتابیں ہیں۔ اسلامی تمدن و تہذیب کے متعلق جس قدر بلند پایہ مضامین انہوں نے لکھے وہ رہتی دنیا تک مولانا کے نام کو زندہ رکھیں گے۔ نظم شبلی ان کی نظموں کا مختصر سا مجموعہ ھے۔ سب سے آخری تصنیف سیرۃ النبی ھے جو ان کا شاہکار سمجھی جاتی ھے۔ محمد شبلیؔ نام تھا۔   شبلیؔ تخلص کرتے تھے۔ موضع بنڈول ضلع اعظم گڑھ میں 1857ء میں پیدا ہوئے۔ بڑے بڑے فاضل استادوں سے تعلیم پائی کئی سال تک علی گڑھ کالج میں پروفیسر رہے۔ ممالک اسلامیہ کی سیاحت کی اور اپنا سفرنامہ قلمبند کیا انگریزی گورنمنٹ سے شمس العلماء کا خطاب پایا۔ ندوۃ العلماء کو قائم کیا۔  دار المصنفین انہی کی یادگار میں قائم کیا گیا ھے جس نے اسلامی تاریخ اور ثقافت کے متعلق نہایت اہم اور نہایت قابل قدر کتابیں شائع کی ہیں۔ 18نومبر 1914ء کو انتقال ہوا۔

کچھ منتخب اشعار۔

آپ جاتے تو ہیں اس بزم میں شبلیؔ لیکن۔
حال دل دیکھیے اظہار نہ ہونے پائے۔

تسخیر چمن پر نازاں ہیں تزئین چمن تو کر نہ سکے۔
تصنیف فسانہ کرتے ہیں کیوں آپ مجھے بہلانے کو۔

جمع کر لیجئے غیروں کو مگر خوبئ بزم۔
بس وہیں تک ھے کہ بازار نہ ہونے پائے۔

عجب کیا ھے جو نوخیزوں نے سب سے پہلے جانیں دیں۔
کہ یہ بچے ہیں ان کو جلد سو جانے کی عادت ھے۔

فراز دار پہ بھی میں نے تیرے گیت گائے ہیں۔
بتا اے زندگی تو لے گی کب تک امتحاں میرا۔

میں روح عالم امکاں میں شرح عظمت یزداں۔
ازل ھے میری بیداری ابد خواب گراں میرا۔

دو قدم چل کر ترے وحشی کے ساتھ۔
جادہ راہِ بیاباں رہ گیا!

کچھ اکیلی نہیں میری قسمت۔
غم کو بھی ساتھ لگا لائی ھے۔

پوچھتے کیا ہو جو حال شب تنہائی تھا۔
رخصت صبر تھی یا ترک شکیبائی تھا۔

ناتواں عشق نے آخر کیا ایسا ہم کو۔
غم اٹھانے کا بھی باقی نہیں یارا ہم کو۔

یار کو رغبت اغیار نہ ہونے پائے۔
گل تر کو ہوس خار نہ ہونے پائے۔

تیر قاتل کا یہ احساں رہ گیا۔
جائے دل سینہ میں پیکاں رہ گیا۔

اثر کے پیچھے دل حزیں نے نشان چھوڑا نہ پھر کہیں کا۔
گئے ہیں نالے جو سوئے گردوں تو اشک نے رخ کیا زمیں کا۔


غزل۔

تیس دن کےلئے ترکِ مے و ساقی کرلوں۔
واعظِ سادہ کو روزوں میں تو راضی کرلوں۔

پھینک دینے کی کوئی چیز نہیں فضل و کمال۔
ورنہ حاسد تری خاطر سے میں یہ بھی کرلوں۔

اے نکیرین قیامت ہی پہ رکھو پرسش۔
میں ذرا عمرِ گزشتہ کی تلافی کرلوں۔

کچھ تو ہو چارۂ غم بات تو یک ہو جائے۔
تم خفا ہو تو اجل ہی کو میں راضی کرلوں۔

اور پھر کس کو پسند آئے گا ویرانۂ دل۔
غم سے مانا بھی کہ اس گھر کو میں خالی کرلوں۔

جورِ گردوں سے جو مرنے کی بھی فرصت مل جائے۔
امتحان دم جاں پرور عیسی کر لوں۔

دل ہی ملتا نہیں سفلوں سے وگرنہ شبلیؔ۔
خوب گزرے فلک دوں سے جو یاری کرلوں۔

علّامہ شبلیؔ نعمانی۔