Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, November 27, 2019

دہلی کا سفر قسط 2.

از/ڈاکٹر شرف الدین اعظمی/صداٸے وقت
==============================
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب ۔
میر تقی میر کے شعر کا یہ مصرعہ اب یوں کہا جاٸے تو بیجا نہ ہوگا کہ۔۔۔۔
فلی جو ایک شہر ہے عالم میں انتخاب۔
کہتے ہیں کہ دلی 7 بار اجڑی یا اجاڑی گٸی ۔لوٹی گٸی اور پھر بسی۔
فی زمانہ دہلی ایک ترقی یافتہ اور جدید شہر ہے ۔پرانی دلی میں بھی نٸے دور کی جھلکیاں  بھی ملتی ہیں۔مگر جامع مسجد کے آس پاس کے علاقوں میں ہوٹل و ذاٸقے دار کھانے اب بھی پرانے طرز پر ہی بناٸے جاتے ہیں جس کی لذت کے چرچے نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر ہوتے ہیں۔پرانی دلی کا علاقہ مٹیا محل کی ہلچل فجر کے وقت سے ہی شروع ہوجاتی ہے ۔ناشتہ کے لٸیے حلوہ پوری اور نلی نہاری بڑی مشہور ڈش ہے ۔عوام کی بھیڑ انہیں دکانوں پر صبح کے وقت رہتی ہے۔ویسے تو یہ علاقہ اپنے لذیذ کھانوں کے لٸیے مشہور ہے اور دیر رات تک ہوٹلوں پر بھیڑ لگی رہتی ہے۔انواع اقسام کے لذت دار کھانے یہاں کے بہت مشہور ہیں بطورخاص نلی نہاری، کباب کے مختلف اقسام ، فش فراٸی ، چکنائی فراٸی ، بریانی اور نان و شیرمال وغیرہ۔
آج ٢٣ نومبر فجر کی نماز جامع مسجد کی ادا کرنے کے بعد میرے ایک دوست ڈاکٹر پرویز اختر تشریف لاٸے اور ہم لوگوں نے جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر چاٸے کی چسکیوں سے لطف اندوز ہوٸے ۔حلوہ پوری کا ناشتہ ہوا ۔۔جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھتے ہی مغلوں کی آن بان اور شان کی یاد ستاتی رہی ۔۔
جمعہ کادن ہے اور خواہش یہ رہی کہو آج جمعہ کی نماز جامع مسجد میں ادا کی جاٸے۔حالانکہ جناب ابرار مکی صاحب کا اسرار تھا کہ نماز جمعہ ابوالفضل میں جماعت اسلامی کے دفتر کی مسجد میں پڑھی جاٸے مگر میں نے معذرت کرلی۔۔کچھ دیر مٹیا محل کی سیر اور اخبارات کی ورق گردانی کے بعد ہوٹل کے کمرے میں آگیا ۔ایک بات کی نوٹس میں نے لیا کہ مٹیا محل کے اس علاقے میں گیسٹ ہاوس بہت زیادہ ہیں اور اب یہاں پر کٸی ایک اچھے ہوٹل بھی بن گٸیے ہیں جسکی یہاں کمی تھی۔
جامع مسجد میں جمعہ کی اذان کا وقت پونے ایک بجے کا ہے میں اذان سے ٥ منٹ قبل مسجد پہنچا ۔مردوں کے علاوہ خواتین کی بھی خاصی تعداد جمعہ کی نماز کے لٸیے آرہی تھی۔خطبہ سے قبل شاہی امام سید احمد بخاری نے اپنی تقریر شروع کی۔تقریر کیا تھی ایک دل کا غبار تھا اندر کی ایک خلش تھی جو ان کے الفاظ اور جملوں سے عیاں ہورہی تھی۔موضوع تقریر تو بابری مسجد مقدمہ کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی تھا ۔۔شاہی امام کا کہنا تھا کہ نظر ثانی کی اپیل نہ کی جاٸے مگر اس کے پیچھے جو جواز انھوں نے جس انداز میں پیش کیا وہ کسی  امام مسجد کو زیب نہیں دیتا۔ منصب شاہی امام تو اور ہی ہے۔ (اس کی تفصیل صداٸے وقت میں شاٸع ہوٸی ہے ). اس تقریر میں فیصلے پر نظر ثانی کے تعلق سے انھوں نے جمیتہ علمإ ہند اور مسلم پرسنل لاپتہ بورڈ کو بہت کوسا ۔۔الزامات لگاٸے دلال تک کہا۔ان کا موقف اس مسلے پر یہ تھا کہ نظر ثانی کی عرضی داخل نہ کی جاٸے۔
دوپہر کو دو بجے میں نے کچھ لوگوں کو وقت دے رکھا تھا۔لہذا میٹرو پکڑ کر جامعہ کے لٸیے روانہ ہوا۔۔میٹرو نے دہلی کی کایا پلٹ دی۔میٹرو دہلی کی لاٸف لاٸن بن چکی ہے۔۔۔اب میٹرو تقریباً دہلی کے ہر مقامات تک پہنچ گٸی ہے۔۔زیر زمین پورا اسٹیشن ، پلیٹ فارم دیکھ کر زمانہُ جدید کی انجینٸرنگ پر رشک ہوتا ہے۔۔اللہ نے  دماغ کی شکل میں جو نعمت انسانوں کو دی ہے اس کا مثبت استعمال عوام کی فلاح و بہبود کے لٸیے کیا جاٸے تو کتنی سہولیات و انسان کو میسر ہوتی ہیں اور یہ خدمت خلق کا بہت بڑا کام ہے۔میٹرو کے آنے سے قبل دہلی میں بس اور آٹو رکشا ہی آمدورفت کے لٸیے میسر تھے مگر میٹرو نے آمدورفت کو بہت آسان اور آرام دہ بنا دیا۔وقت کی بھی بچت ہوتی ہے اور فضاٸی آلودگی سے راحت بھی۔۔۔البتہ ایک بات جو پسند نہیں آٸی وہ یہ کہ میٹرو ساڑھے دس بجے کے بعد بند ہونا شروع ہوجاتی ہے اور ١١ بجے تک مکمل بند ہوجاتی ہے۔اسکو 1 بجے تک چلانا چاہٸے۔
فضاٸی آلودگی کا بڑا شور رہتا ہے اور ٹی وی کی خبروں پر یقین کیا جاٸے تو دہلی ایک سلگتی ہوٸی بھٹی کے مانند ہے۔جہاں سانس لینا دشوار ہے
 حالانکہ مجھے ایسی کوٸی بات نظر نہیں آٸی۔کبھی کہیں کوٸی ماس لگاٸے ہوٸے دیکھاٸی دے جاتا۔۔۔کٸی لوگوں سے پوچھنے پر پتا چلا کہ جتنا شور ہے ویسا کچھ نہیں ہے۔
البتہ ای رکشا ، میٹرو ، سی این جی بسیں و آٹو کے آجانے سے فضاٸی آلودگی اور صوتی آلودگی  بہت حد تک کنٹرول ہے۔
جامع مسجد سے میٹرو کے ذریعہ کالکا جی مندر اور وہاں سے میٹرو تبدیل کرکے جامعہ نگر پہنچا۔میٹرو اسٹیشن پر میرے بچپن کے دوست عتیق اعظم (پھدگدیا ۔۔پھولپور کے ہیں ) حال مقیم حاجی کمپاونڈ موجود تھے۔

(بقیہ اگلی قسط میں).