از/ ارشاد احمد اعظمی / صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملت کے اجتماعی معاملات میں کسی فرد واحد پر آنکھ بند کرکے اعتماد اجتماعی خود کشی کے مترادف ہے ، ہم ایسے معاملات میں صرف اجتماعی فیصلوں کے ہی قائل ہیں ، شرعی ، معاشرتی اور سیاسی امور کے ہمارے باصلاحیت خود دار مسلم ماہرین ایک جگہ جمع ہوں ، اور باہمی گفت و شنید کے بعد ملت کے کسی بھی مسئلے میں جو فیصلہ لیں گے ہمیں تسلیم ہوگا ۔
میٹنگ میں اختلاف رائے میٹنگ کا تقاضا ہے ، یہ اس کا ثبوت ہے کہ شرکاء بلاخوف و خطر پوری ایمانداری کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں ،اس سے کسی کو جز بز نہیں ہونا چاہیے ، مجلس میں شریک ہر شخص کی حیثیت برابر کی ہوتی ہے ، اور اپنی رائے ظاہر کرنے کے لئے ہی ان کو مدعو کیا جاتا ہے ، البتہ مجلس کے آداب میں سے ہے کہ اگر بحث کے دوران شرکاء میں کوئی اختلاف رونما ہو تو وہ مجلس کے اندر ہی محدود رہے ، مجلس کے باہر صرف فیصلہ آئے ، اگر فیصلہ اتفاق رائے سے ہوا تو " فبها و نعمت " ، اور کثرت رائے سے فیصلے کی صورت میں پبلک کو صرف فیصلہ کا علم ہونا چاہیے ، اختلافات کا نہیں ، شرکاء میں سے جو لوگ مجلس کے آداب سے واقف نہیں ہیں ، اور اختلافات کو میٹنگ کے باہر ہوا دیتے ہیں ان کو مجلس کے آداب کا پابند کیا جانا چاہیے ۔
بابری مسجد فیصلے کے بعد مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اپنی 17/ نومبر کی لکھنؤ میٹنگ میں سپریم کورٹ کے سامنے ریویو پٹیشن دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، ہماری اپنی ذاتی رائے کچھ بھی کیوں نہ ہو ہم بورڈ کے فیصلہ کا احترام کرتے ہیں ، اور پورے طور پر بورڈ کے ساتھ کھڑے ہیں ۔
ارشاد احمد اعظمی