Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, November 27, 2019

بابری مسجد ۔۔گووند ولبھ پنت سے نریندر مودی تک۔!!!


شبیع الزماں (پونہ)/صداٸے وقت۔
==============================
مسجد اقصیٰ کے تعلق سے علامہ اقبال نے کہا تھا ۔

اے ارض پاک تیری حرمت پہ کٹ مرے ہم 
ہے خوں تیری رگوں میں اب تک رواں ہمارا


شاید یہی بات کسی درجہ میں مسلمانانِ ہند بابری مسجد کے تعلق سے کہہ سکتے ہیں۔ بابری مسجد کی شہادت صرف ایک عمارت کی شہادت نہیں تھی بلکہ اس کے ساتھ سیکڑوں بے گناہ مسلمانوں کی شہادت بھی جڑی ہے۔
گو کہ یہ تنازع ملک کی آزادی سے پہلے ہی سے چلا آرہا تھا لیکن اس میں تیزی 1949 کے بعد آئی جب مسجد میں راتوں رات مورتیاں رکھ دی گئی تھی ۔ اس زمانے میں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ گوند ولبھ پنت تھے۔ پنت سیکولر کانگریس کےاسی طرز کےلیڈر تھےجن کے بارے میں پنڈت نہرو نے اپنی خود نوشت سوانح میں اعتراف کیا تھا کہ"کئی کانگریسی لیڈر نیشنلزم کے چوغے میں فرقہ پرست تھے"۔

گاندھی جی کے قتل کے بعد سنگھ اور ہندو مہا سبھا دونوں پر پابندی لگی تھی یہ زمانہ سنگھ کے لیے بہت سخت تھا ہندوستان بھر سے لاکھوں کی تعداد میں سنگھ کے کارکنان گرفتار ہوئے تھے ۔ انھیں میں گورکھ ناتھ مٹھ کا بابا دگ وجے ناتھ بھی تھا جسے گاندھی جی کے خلاف نفرت انگیز تقریر کرنے کے جرم میں گرفتا کیا گیا تھا ۔ رہا ہونے کے بعد اس نے ایودھیا کے سامنے نو دن تک مسلسل رام چرس مانس پڑھنا شروع کیا اور دسویں دن رام للا پرکٹ  ہوگئے ۔
 نہرو معاملہ کی حساسیت کو سمجھ رہے تھے ۔ انہوں نے پنت کو تبھی خط لکھا کہ"ایودھیا معاملہ کے ڈیولپمنٹ سے میں بہت ڈسٹرب ہوں ۔ امید کرتا ہوں تم پہلی فرصت میں ذاتی طور پر اس معاملے کو دیکھو گے. یہ بالکل ہی خطرناک مثال قائم کی جارہی ہے اس کے سنگین نتائج آسکتے ہیں  "۔ بعض رپورٹس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ نہرو نے مورتیوں کو مسجد سے باہر شفٹ کرنے کے لیے بھی کہا تھا۔ لیکن پنت اپنی سیاست  میں مصروف تھے ۔ پنت ماحول کی صورتحال خراب ہونے کا بہانہ کرکے ٹال مٹول سے کام لیتے رہے اور حفاظتی انتظامات کے نام پر مسجد میں تالا لگا دیا۔ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور پوری انتظامیہ نے مل کر بابری مسجد کو متنازع زمین میں تبدیل کر دیا۔

اس زمانے میں بٹوارے کے زخم تازہ تھے اور اسکی ذمہ داری مسلمانوں پر ڈالی گئی تھی اسلیے مسلمان بہت زیادہ  دفاعی پوزیشن میں تھے ۔ اپنے حقوق کے لیےبھی کچھ اقدام کرنا یا کوئی مضبوط اسٹینڈ لینا انکے بس میں نہیں تھا ۔ اس زمانے کے کئی نامور مسلم وکلاء نے کیس تک لینے سے انکار کردیا۔

1980 میں وشو ہندو پریشد نے پورے ملک میں رام مندر تحریک شروع کی۔وی ایچ پی سنگھ کی قائم کردہ ایک غیر سیاسی دہشت گرد تنظیم ہے ۔ جسکا مقصد ہندو دھرم اور کلچر کی حفاظت کرنا ہے ۔ 
وی ایچ پی ہندوؤں کو متحد کرنا چاہتی تھی اور اس کے پاس اس مقصد کے لیے رام مندر سے اچھا کوئی موضوع نہیں تھا ۔ پریشد نے ملک بھر میں یاترائیں شروع کی جو کھٹمنڈو سے شروع ہوکر تامل ناڈو،بنگال سے لیکر گجرات اور سومناتھ سے لیکر کنیا کماری تک کی گئی۔ ان یاتراؤں میں ہندو قوم پرستی کے جذبات کو بہت زیادہ بھڑکایا گیا۔ اس میں پہلی مرتبہ بھارت ماتا کی مورتیاں بنا کر ملک بھر میں فروخت کی گئی۔ پریشد نے الہ باد میں 1989 میں تیسری دھرم سنسد بلائی جس میں دو اہم فیصلے لیے گئے۔ اول یہ کہ عوامی زندگی میں ہندو تہذیب کو اپنایا جائے اور دوسرے یہ کہ رام مندر کی تعمیر کے لیے اینٹوں کی پوجا اور شیلا نیاس (بنیاد رکھنا ) شروع کیا جائے۔ دھرم سنسد میں رام مندر کا ماڈل بھی دکھایا گیا اور اینٹیں جن پر جے شری رام لکھا تھا، ہندوستان بھر میں انکی پوجا کے پروگرام کرنا طے پایا۔

 ملک بھر میں رام شیلا پوجن کی مہم شروع ہو گئی۔ ہندوستان کے طول و عرض میں بڑے پیمانے پر جلوس اور ریلیاں نکالی جانے لگیں جن میں ہندوؤں کے مذہبی جذبات بھڑکانے والے نعرے اور تقریریں کی جاتیں ۔ حالانکہ رام مندر مذہبی مہم ہونی چاہیے تھی لیکن یہ مکمل طور سے سیاسی اور مسلم مخالف رنگ لیے ہوئی تھی جس میں بابر کی اولاد، پاکستان اور قبرستان کے نعرے لگائے جاتے تھے ۔ بہت جلد مہم نے اپنے اثرات دکھانے شروع کیے اور فسادات کے نام پر ملک بھر میں مسلمانوں پر حملہ شروع ہوگئے۔ خاص طور پر راجھستان،مدھیہ پردیش اور اتر پردیش میں یہ حملے زیادہ ہوئے۔ سب سے شدید حملے بھاگلپور میں ہوئے جہاں ہزاروں مسلمان مارے گئے ۔ پورے ملک میں مسلمانوں کا کروڑوں روپے کا مالی نقصان ہوا اور ہزاروں بے گناہ مارے گئے۔ پورے ملک سے اینٹوں کو اتر پردیش لانے کا کام جاری تھا۔ پورے ملک میں ہندوتوادیوں  نے دہشت کا ماحول پیدا کردیا لیکن حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی اور نہ اس نے کوئی اقدام کیا ۔

ہندوستان اس زمانے میں بڑی سیاسی تبدیلیوں سے گزر رہا تھا ۔ 1979 میں مرار جی دیسائی کی گورنمنٹ نے بھینڈیشور پرساد منڈل کی نگرانی میں ایک کمیٹی بنائی جسکا مقصد یہ تھا  ہندوستان میں تعلیمی اور معاشی طور کمزور طبقات کی نشاندھی کرنا تاکہ انھیں ریزوریشن دیا جا سکے ۔ کمیشن نے اپنی سفارشات میں کہا کہ ہندوستان کی 3743 مختلف ذاتیں ہیں جو کل آبادی کا 52 فیصد ہے جنھیں سماجی اور معاشی بنیادوں پر ریزوریشن ملنا چاہیے۔ انکے لیے پبلک سیکٹر میں 27 فیصد ریزوریشن کی سفارش کی گئی۔  دس سالوں تک یہ سفارشات سرد خانے میں پڑی رہی 1989 میں وی پی سنگھ نے ان سفارشات کے نفاذ کا فیصلہ کیا۔ 

ہندو احیاء پرست ،ہندووں کے غلبہ کے لیے ہمیشہ سے دلتوں کو اپنے ساتھ جوڑے رکھنا چاہتے تھے ۔ آزادی کے  بعد دلتوں کے لیے جداگانہ انتخابات کی مانگ ہو یا کاسٹ کی بنیاد پر ریزوریشن، ایسی کوئی بھی کوشش جس سے دلتوں میں اپنی جداگانہ شناخت کا احساس پیدا ہوسکے ہندوتوادی اسے دباتے رہے ہیں ۔

دوسری طرف اٹل اور اڈوانی نے جنتا پارٹی سے الگ ہوکر سنگھ کی نگرانی میں راست طور پر ہندوتوا کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی قائم کی۔ اٹل بہاری واجپائی کو بی جے پی کا پہلا صدر بنا گیا ۔ بی جے پی نے ابتدائی دنوں میں جنتا پارٹی کے ہی نظریہ پر کام کرنا شروع کیا اور گاندھیائی سوشلزم یا دین دیال اپدھیائے کے integral humanism کو پارٹی کی بنیادی فکر کے طور پر اپنایا۔ لیکن کسی تعمیری فکر کو لے کر کوئی کام کرنا سنگھ کے بس کی بات نہیں ہے۔ نتائج ظاہر تھے۔ بی جے پی اپنے اثرات قائم کرنے میں ناکام رہی اور الیکشن میں بری طرح ہار گئی اسکے نصیب میں صرف دو نشستیں ہی ائی۔  اندرا گاندھی کے قتل کے سبب کانگریس کو عوامی ہمدردی حاصل ہوئی اور اسے 403 سیٹیں مل گئیں۔ 

واجپائی کی اعتدال پسند پالیسیوں  کی وجہ سے بی جے پی کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اسکے بعد پارٹی اپنی فکر بدلنے پر مجبور ہوئی اور اسے سخت ہندوتوا کی طرف لوٹنا پڑا ۔ 1984 میں اڈوانی کو پارٹی کا صدر بنا دیا گیا۔
اڈوانی کے سامنے جہاں  جہاں وی پی سنگھ کی منڈل سیاست کا چیلنج تھا  وہیں اسے بی جے پی کو  کھڑا بھی کرنا تھا۔ یہ دونوں مقاصد حاصل کرنے کے لیے اڈوانی کے پاس آسان نسخہ رام مندر کی سیاست کا تھا ۔
 اڈوانی نے صدر بنتے ہی وی ایچ پی سے قریبی تعلقات بنائے اور رام مندرجہ کے موضوع کو خوب گرمایا۔ اسے منڈل کے مقابلہ کمنڈل کی سیاست کہا جانے لگا۔ کمنڈل اس برتن کو کہتے ہیں جو ہندو سادھو  سنت پانی پینے کے لیے  استعمال کرتے ہیں۔ اس زمانے میں بعض دوسرے واقعات سے بھی اس تحریک کو تقویت پہنچی ۔ 

شاہ بانو کیس میں مسلم احتجاج کے سامنے جھکنے کے بعد ہندو مڈل کلاس اور ہندو احیاء پرستوں کی طرف سے کانگریس پر شدید تنقید ہونے لگی۔ ہندو ووٹرس کو خوش کرنے کے لیے راجیو گاندھی نے وہ ہمالیائی حماقت کردی جسکی سزا کانگریس اب تک بھگت رہی ہے۔ راجیو گاندھی نے بابری مسجد کے تالے کھلواکر ہندوؤں کو وہاں شیلا نیاس کی اجازت دے دی۔اگر راجیو گاندھی تالا نہیں کھلواتے تو کیا آج  حالات مختلف ہوتے ۔ یہ کہنا مشکل ہے لیکن راجیو گاندھی کے اس اقدام سے رام مندر تحریک کو تقویت ملی اور اسکے حوصلے بڑھ گئے ۔
 اسی طرح اس زمانے میں رامانند ساگر کا ٹیلی ویژن سیریل رامائن براڈکاسٹ ہونے لگا۔ اس سیریل سے پہلے رام کی نیشنل ہیرو والی امیج نہیں تھی لیکن یہ سیریل براڈکاسٹ ہونے کے بعد رام نیشنل ہیرو قرار پائے۔ ہندو احیاء پرستوں نے اس سیریل کو اپنے مقاصد کے لیے خوب استعمال کیا حالانکہ سیریل اس مقصد سے نہیں بنایا گیا تھا۔چونکہ ہندوستانی سماج کی تشکیلِ میں ہندی سینما اور ٹیلی ویژن سیریلز کے بہت زیادہ اثرات ہوتے ہیں ۔
 اروند راج گوپال اپنی کتاب  politics after television :Hindu nationalism and the reshaping of the public in India میں لکھتے ہیں " اس سیریل  کی اجازت دیکر حکومت نے دہائیوں پر مبنی مذہبی معاملات میں غیر جانبدار رہنے کی روایت کو توڑ دیا اور ہندو قوم پرستوں نے اسکا بھر پور فائدہ اٹھایا "
اس سیریل کی عوامی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ سیتا اور راون کا کردار ادا کرنے والے دونوں ہی ایکٹرس بی جے پی کی طرف سے الیکشن جیت کر ممبر آف پارلیمنٹ بنے ۔ 
یہ سارے عوامل رام مندر تحریک میں معاون ثابت ہوئے۔ رام مندر تحریک سے اڈوانی نے بی جے پی کے اندر ایک حرارت پیدا کردی اور اسے اپنا الیکشن ایجنڈا بنایا ۔ اسکی مدد سے 1989 کے جنرل الیکشن میں بی جے پی کی سیٹوں کی تعداد 2سے بڑھ کر 84 ہوگئی۔ اڈوانی نے جب دیکھا کہ رام مندر تحریک غیر معمولی کامیابی سے ہم کنار ہورہی ہے تو اسنے پورے میں ملک میں عوامی ماحول بنانے کے لیے یاترا نکالنے کا فیصلہ کیا۔ اڈوانی نے ٹویٹا گاڑی کو رتھ کی شکل دے کر یاترا نکالی ۔ اڈوانی کی رتھ یاترا نے 8ریاستوں کا سفر طے کیا جس میں اسنے دس ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا۔ یہ یاترا سومناتھ سے نکل کر ایودھیا جانا طے پائی ۔یاترا جس بھی شہر میں جاتی وہاں بی جے پی اور سنگھ کے کارکنان گھنٹیاں بجا کر،تھالیاں پیٹ کر اور جذباتی نعروں سے اسکا استقبال کرتے ۔ جذباتی ہندو، رتھ کی مٹی سے تلک کرتے اور جذبات کے اظہار کے طور پر خون کا عطیہ پیش کرتے۔ یاترا نے متعدد مقامات پر فسادات بھڑکائے جس سے ہزاروں معصوم لوگوں کی جانیں گئی۔ اس لیے اسے خونی یاترا بھی کہا جاتا ہے۔  رام چندر گوہا نے اسے " مذہبی،متشدد،بھڑکاؤ اور مسلم مخالف " قرار دیا۔ اڈوانی کی تقریریں بابر اور رام ان ہی دو ناموں کے گرد گھومتی۔ اڈوانی جہاں بھی جاتے انھیں ہتھیار تحفے میں دیے جاتے ۔ اڈوانی کو تحفے میں اتنے ہتھیار ملے کہ پرمود مہاجن نے یہاں تک کہہ دیا کہ ان ہتھیاروں کی مدد سے ہم ایک دن میں رام جنم بھومی آزاد کرا سکتے ہیں۔ 

آخر کار 23اگست کو بہار کے وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو نے اڈوانی کی یاترا کو روکا اور اسے حراست میں لیا۔ اس طرح اس خونی یاترا کا خاتمہ ہوا ۔
 
بی جے پی نے رام مندر تحریک کو 1991 کے الیکشن میں زوردار طریقے سے استعمال کیا۔ 1989 کے مقابلے اسکا ووٹ بینک 11فی صد سے بڑھ کر 21 فی صد یعنی  تقریباً ڈبل ہوگیا۔ لوک سبھا میں اسکی سیٹوں کی تعداد 85 سے 120 ہوگئی۔ اسکو کرناٹک ، آسام اور تلنگانہ جیسی ریاستوں میں داخلہ مل گیا اور وہ کانگریس کے بعد ملک کی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ۔ سنگھ اس تجربہ سے بہت خوش ہوا ۔ 6دسمبر 1992 کو سنگھ ،وی ایچ پی اور بی جے پی نے دیڑھ لاکھ کے قریب کار سیوکوں کو جمع کیا تاکہ مسجد شہید کی جا سکے۔ وہاں اوما بھارتی ، مرلی منوہر جوشی اور اڈوانی نے جذباتی تقریریں کی اور ہجوم کو مشتعل کیا۔ اسکے بعد ایک جنونی ہندو نے مسجد پر بھگوا پرچم لہرا دیا اور ہجوم نے تھوڑی ہی دیر میں مسجد کو زمیں بوس کردیا ۔ جسکے نتیجے میں ملک بھر میں ہندو مسلم فسادات ہوئے جس میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا جانی و مالی نقصان ہوا۔ رام مندر تحریک نے منڈل کا جواب بھی دے دیا اور ہندوؤں کو متحد بھی کردیا ۔ ہندو ووٹ بینک مضبوط ہوا اور اسکا فائدہ بی جے پی کو ہوا۔ مرکز میں پہلی مرتبہ ہندوتوا فکر کی حکومت قائم ہوئی۔ 96 میں پہلے تیرہ دن کے لیے پھر 98 میں تیرہ مہینے کے لیے اور پھر پانچ سال کے لیے۔ 

مسجد کی شہادت سے اب تک عدالت میں کیس چلتا رہا اور 9نومبر کو مسلمان تمام شواہد اور ثبوتوں کے باوجود سپریم کورٹ میں کیس ہار گئے۔ اس فیصلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے اپوروانند نے کہا" یہ دن میرے لیے 6دسمبر 92 جیسا ہی ہے ۔ " اس فیصلے کے بے شمار فائدے نریندر مودی کو ماضی قریب اور بعید دونوں میں حاصل ہونگے۔

رام مندر کی تحریک سے ہندو احیاء پرستوں کو خوب فائدہ ہوا ۔ سب سے بڑا فائدہ ہوا کہ ہندوستانی سیاست میں انکے قدم نہ صرف جم گئے بلکہ انھیں اقتدار نصیب ہوگیا اس سے پہلے وہ بہت قسمت آزمائی کر چکے  تھے لیکن کوئی کامیابی انھیں ہاتھ نہیں لگ رہی تھی۔ چاہے وہ  ہندو مہا سبھا کی مسلم لیگ کے ساتھ سیاسی شراکت سے لیکر جنتا پارٹی کی جن سنگھ کے ساتھ ساجھے داری ہو یا پھر ساٹھ کی دہائی میں گائے کے تحفظ کے نام پر مہم کھڑے کرکے پارلیمنٹ کا گھیراؤ ہو یا اندرا گاندھی کی آمریت کے خلاف کی گئی جدوجہد، کوئی کوشش کامیاب ہوتے نظر نہیں آرہی تھی۔ لیکن  مندر کے موضوع نے برسوں پرانےخواب کو تعبیر کی شکل دے دی اور سنگھ مین اسٹریم ہندوستانی سیاست میں اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوگیا۔ 
اس طرح یہ فیصلہ سنگھ اور احیاء پرست ہندوؤں کو مسلمانوں پر غلبہ   کا مسرت آمیز احساس عطا کرے گا ۔ اس فیصلے نے ہندوستان کے ہندو راشٹر بننے سے بہت قریب کردیا۔ احیاء پرست ہندوؤں کو جو احساس برتری حاصل ہوئی اسکا بیان مشکل ہے اور مسلمانوں کے ہاتھ لگی مایوسی بھی بیان سے باہر ہی ہے ۔

 اس پورے پروسس میں سنگھ نے ایک نیا تجربہ بھی کیا۔ سنگھ بنیادی طور پر سیاسی تنظیم ہے مذہب سے اسے کچھ واسطہ نہیں لیکن اس نے مذہب کا استعمال کرکے ایک سیاسی ہندو تیار کیا۔ یہ سیاسی ہندو اسے ایک مضبوط ووٹ بینک فراہم کرتا ہے۔

اس فیصلے نے مسلمانوں کو تقسیم کے وقت جیسی صورتحال میں لا کھڑا کیا ہے۔ اس دور کے زخم اور یادیں بھرنے لگی تھی اور مسلمان ہندوستان کے مین اسٹریم میں شامل ہونے لگے تھے لیکن اس فیصلے نے انھیں شاید خواب سے جھنجوڑ دیا۔
وہ ساری یادیں پھر سے تازہ ہوگئی۔

 آزادی کے بعد سے اب تک مسلمانوں نے اپنے لیے علیحدہ مسلم قیادت کی ضرورت نہیں سمجھیں تھی وہ ملک کی سیکولر قیادت کے ساتھ تھے۔ 2014 کے انتخابات سے پہلے تک ہر پارلیمنٹری الیکشن میں مسلمانوں نے ان ہی سیاسی پارٹیوں کو سپورٹ کیا تھاجنکو ملک کی اکثریت نے چنا تھا لیکن موجودہ حالات میں اب انھیں اپنی قیادت کی ضرورت محسوس ہونے لگی ہیں۔فیصلہ پر مسلمانوں کا ردعمل محتاط ہی رہا ۔ ڈر بعض اوقات انسان میں بزدلی پیدا کرتا ہے اور بعض حالات میں شدت پسندی پیدا کرتا ہے لیکن کبھی کبھی ڈر ایک  درجہ کی سمجھداری پیدا کر دیتا  ہے اور فی الوقت مسلمان اسی سمجھداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ مسلمان بزدل نہیں ہے لیکن وہ ہوا کا رخ دیکھ رہے ہیں اور حالات کی نزاکت کو سمجھ رہے ہیں۔ وہ اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ یاترائیں کرکے  مسلمانوں کو منظم کر سکے بلکہ اقتدار تو جمہوری طور پر صدائے احتجاج تک درج کرنے کی اجازت نہیں دے رہا ہے ۔جمہوریت اسکے اداروں سے چلتی ہے اور یہاں ایک ایک کرکے سبھی ادارے ختم کیے جا چکے ہیں۔اس پورے institutional eco system میں عدلیہ وہ آخری ادارہ بچی تھی جس سے کچھ امیدیں اور توقعات وابستہ تھی موجودہ حکومت کافی عرصہ سے اسے قابو میں کرنے کی کوشش میں تھی گمان ہوتا ہے کہ شاید اسے کامیابی مل گئی ۔ اس لیے مسلمانوں کے پاس چاہتے یا نہ چاہتے سوائے صبر کے کوئی چارہ نہیں ہے