Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, November 17, 2019

جہاں نما کی سیر ۔۔۔۔۔قسط9

 

از/فضیل احمد ناصری /صداٸے وقت۔
============================
*جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور میں*
                  --------------------
مدرسہ منبع العلوم کی زیارت کے بعد ہم ایک بار پھر حاجی بابو کے یہاں گئے۔ چائے باقی تھی، وہ بھی پی لی گئی، اس کے بعد ہمارا کارواں اگلے مراحل کے لیے روانہ ہو گیا۔ اس کارواں میں حاجی بابو کا اضافہ تو ہوا ہی، ان کے چھوٹے صاحب زادے عزیزم محمود ضیا سلمہ بھی شریکِ کارواں ہو گئے۔ 
خیر آباد سے نکلے تو چند ہی منٹوں کے بعد ہم مبارک پور میں تھے۔ یہ ایک بڑا قصبہ ہے۔ اپنی پشت پر تاریخی عظمتوں کا انبار لیے ہوئے۔ متعدد اہلِ علم اسی قصبے سے اٹھے اور انفس و آفاق میں چھا گئے۔ صاحبِ تحفۃ الاحوذی مولانا عبدالرحمن مبارک پوریؒ، مؤرخِ اسلام مولانا قاضی اطہر مبارک پوریؒ اور مفتئ زماں مولانا یاسین مبارک پوریؒ اسی زرخیز زمین کی پیداوار ہیں۔ مزید تفصیل اگلی قسط میں پیش ہوگی۔ 

ہم جس راستے پر چل رہے تھے، یہ آبادی کے درمیان سے گزر رہا تھا۔ اس دوران شہر کی بڑی عیدگاہ بھی نظر سے گزری۔ وہ اسکول بھی نگاہوں سے ہو کر گزرا جہاں مفتی یاسر صاحب نے اپنے بچپن کے امتحانات دیے تھے۔ گاڑی دوڑتے بھاگتے جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور جامعہ آباد میں داخل ہو گئی۔ 

*جامعہ عربیہ احیاء العلوم کا تعارف*
        -----------------------------
مدرسہ احیاء العلوم بھی ان مدارس میں سے ہے جن کا نام میں 13، 14 کی عمر سے سنتا آ رہا تھا۔ خوش قسمتی سے اب وہ ادارہ میرے سامنے تھا۔ بہ کمالِ جاہ و جلال۔ اس درس گاہ کی ایک عظیم، طویل اور ناقابلِ فراموش تاریخ ہے۔ جنگِ آزادی میں بھی اس کے نقوش انمٹ ہیں۔ قابلِ قدر علما و فضلا کی ایک بڑی تعداد نے یہاں سے کسبِ فیض کیا، جن میں مولانا شکر اللہ صاحب مبارک پوریؒ، مولانا مفتی نظام الدین اعظمیؒ، مولانا عبدالجبار صاحب اعظمیؒ، مولانا عبدالستار اعظمیؒ سابق شیخ الحدیث ندوۃ العلماء لکھنؤ، مولانا قاضی اطہر مبارک پوریؒ، مولانا مفتی محمد یاسین مبارک پوریؒ، مولانا عثمان ساحر مبارک پوریؒ، مولانا اعجاز احمد اعظمیؒ، مولانا زین العابدین معروفیؒ، مولانا عبدالمنان صاحب باسو پاریؒ، مولانا عبدالباری قاسمیؒ، مولانا ابو بکر غازی پوریؒ، نیز دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ: مولانا قمر الدین گورکھپوری، مولانا مفتی حبیب الرحمنٰ خیر آبادی، مولانا نسیم بارہ بنکوی اور مولانا عارف جمیل مبارک پوری زید مجدہم جیسی نامور شخصیات بھی شامل ہیں۔ جن اکابرِ امت نے یہاں مسندِ تدریس سجائی ان میں مولانا محمود صاحب معروفیؒ، مولانا شکر اللہ صاحبؒ، مولانا شاہ وصی اللہ فتح پوریؒ، مولانا عبد الجبار صاحب معروفیؒ، مولانا محمد مسلم صاحب بمہوریؒ، مولانا نعمت اللہ صاحب مبارک پوریؒ، مولانا عبدالغنی بارہ بنکویؒ، مولانا اسلام الحق کوپا گنجیؒ، مولانا عبدالمنان باسو پاریؒ، مولانا شکر اللہ صاحب ولید پوریؒ، مولانا زین العابدین معروفیؒ اور مولانا جمیل احمد مدنیؒ جیسے نوابغِ عصر نظر آتے ہیں، جن کے فضل و کمال کا ڈنکا ہر طرف بج رہا تھا۔ حکیم الامت حضرت تھانویؒ کو اس ادارے سے بڑی محبت تھی۔ کئی بار اپنے قدومِ میمون سے انہوں نے اس کو نوازا بھی ہے۔ ان کے نامور خلیفہ حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھول پوریؒ اس کے سرپرست رہے ۔ اپنے دور کے تقریباً سارے ہی اکابر یہاں تشریف لا چکے ہیں ۔ شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ، مولانا ابو الوفا شاہ جہاں پوریؒ، مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ اور مولانا منظور نعمانی وغیرہم۔ علم و فن کا یہ قلعہ 1317 مطابق 1899 میں تعمیر کیا گیا۔ پہلے یہ ادارہ محلہ پورہ صوفی میں *کندھی کنواں* کے قریب مسجد میں تھا، پھر وہاں سے *مسجد دینا بابا* منتقل ہو گیا۔ مدرسہ دن بہ دن ترقی کرتا رہا۔ اس کی شہرت اطراف و اکناف میں پھیلتی رہی۔ اس وقت اس کی عمر 125 سال ہے۔ 20 شاخیں اس کے زیرِ انتظام کام کر رہی ہیں۔ مرکز سمیت داخل طلبہ کی تعداد 2350 ہے۔ تعلیم کا نظام درجۂ فارسی سے دورۂ حدیث تک ہے۔ تکمیلِ افتا کا نصاب بھی یہاں پڑھایا جاتا ہے۔ عوامی رہ نمائی کے لیے دارالافتاء بھی عرصۂ دراز سے قائم ہے۔

اس ادارے کے بانی مولانا حکیم الہی بخش صاحبؒ تھے۔ انتہائی خوش حال و متدین۔ فعال اور بیدار مغز ۔آپ کے والد حکیم عبداللہ بن شیخ بھولنؒ بھی رئیسِ کبیر اور زہد و ورع سے متصف تھے۔ حکیم الہی بخش صاحبؒ کی مسیحا نفسی بڑی مشہور تھی۔ ان کی حکمت کے کئی واقعات آج بھی زبان زد ہیں۔ 1863 میں انہوں نے آنکھیں کھولیں، یعنی قیامِ دارالعلوم دیوبند سے ٹھیک تین سال قبل۔ اپنے والد سمیت متعدد اہلِ علم سے کسبِ فیض کیا۔ ترمذی شریف کی شہرۂ آفاق عربی شرح: تحفۃ الاحوذی کے مصنف، مشہور محدث حضرت مولانا عبدالرحمن مبارک پوریؒ کی شاگردی بھی اختیار کی۔ تحصیلِ علم کے لیے کان پور کے *مدرسہ فیضِ عام* میں بھی داخلہ لیا۔ مولانا احمد حسن کان پوریؒ سے خصوصی استفادہ کیا ۔ فراغت وہیں سے 1899 میں ہوئی۔ 

حکیم صاحبؒ نے فراغت کے بعد ہی احیاء العلوم کی بنیاد رکھی اور لگاتار 18 سال اس کے مہتمم رہے۔ اس دوران بڑے نشیب و فراز سے بھی انہیں گزرنا پڑا۔ 1321ھ کا طاعون بھی انہوں نے جھیلا۔ بلاشبہ ان کی بڑی خدمات ہیں، جو جریدۂ عالم پر ہمیشہ ثبت رہیں گی۔ مولانا حکیم عبدالحمید صاحبؒ اور مولانا علی احمد کوریا پاریؒ ان کے نمایاں تلامذہ میں ہیں۔ 1356ھ مطابق 1937 میں ان کی وفات ہوئی۔

*مولانا شکر اللہ صاحبؒ*
      ----------------------
1336ھ مطابق 1917 میں مولانا شکر اللہ صاحبؒ دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہو کر آئے تو حکیم الہی بخش صاحبؒ نے اپنی ذمے داری انہیں دے دی۔ احیاء العلوم کے نئے ناظم اب مولانا شکر اللہ صاحبؒ تھے۔ ان کا ناظم بننا جامعہ کے لیے نیک فال ثابت ہوا۔ وہ مدرسہ جو ابھی بشکلِ مکتب *مسجد دینا بابا* میں تھا، ان کی مساعئ جمیلہ سے اپنی عمارت میں آ گیا۔ ان کی اہلیہ بھی بڑی خدا رسیدہ بزرگ تھیں۔ مدرسے کی تنگی و ترشی دیکھ کر انہیں ترس آ گیا اور اپنی وسیع قطعۂ اراضی، جو مسجد کے قریب ہی تھی، احیاء العلوم کے نام وقف کر دی۔ پھر مدرسے نے روز افزوں ترقیات کے منازل اس برق رفتاری سے طے کیے کہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ ادارہ ملک کی اہم درس گاہوں میں شمولیت اختیار کر گیا۔

مولانا شکر اللہ صاحبؒ بھی اسی مبارک پور کے تھے۔ محی السنۃ کے لقب سے سرفراز۔ 1314ھ میں پیدا ہوئے۔ پہلے اپنے وطن کے *مدرسہ اسلامیہ* میں تعلیم پائی۔ پھر احیاء العلوم میں داخل ہوئے۔ چند سالوں کے بعد وہاں سے مدرسہ حنفیہ جون پور تشریف لے گئے، وہاں کے بعد مدرسہ سبحانیہ الہ آباد۔ وہاں سے اٹھے تو سیتا پور کے ایک مدرسے کو اپنا مسکن بنایا۔ علم کی تشنگی انہیں علی گڑھ بھی لے گئی۔ اخیر میں دارالعلوم دیوبند پہونچے اور وہیں سے 1336ھ مطابق 1917 میں فراغت پائی۔ اساتذہ میں حافظ احمد صاحب بن مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور امام العصر علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ بھی شامل ہیں۔

فراغت کے بعد فوراً احیاء العلوم کی نظامت سنبھالی۔ مدرس بڑے قیمتی تھے۔ کتاب نہیں، فن پڑھاتے تھے۔مشکل مباحث کو سہل بنانے میں انہیں یدِ طولیٰ حاصل تھا۔ خطابت بھی بلا کی تھی۔ چار چار گھنٹے تقریر کرتے اور مجمع پر چھا جاتے تھے۔ جنگِ آزادی میں بھی بے جگری سے حصہ لیا اور خوب دادِ شجاعت دی۔ چھ ماہ کے لیے دیوارِ آہن میں بھی محصور کیے گئے۔ بڑے بڑے کارنامے ان کے نام ہیں۔ وہ جمعیۃ علمائے ہند کی اترپردیش شاخ کے صدر بھی رہے۔ مبارک پور کی عیدگاہ اور جامع مسجد بھی انہیں کی یادگاریں ہیں۔ ایک زمانے تک یہاں شرعی عدالت قائم کر کے عوامی اور عائلی مسائل کو نمٹاتے بھی رہے۔ 

مولانا کا انتقال 1361ھ مطابق 1943 میں ہوا۔ نامور شاگردوں کی ایک بڑی تعداد اپنے اثاثے میں چھوڑی، جن میں مولانا مفتی نظام الدین صاحبؒ سابق صدر مفتی دارالعلوم دیوبند، مولانا عبدالجبار معروفیؒ سابق شیخ الحدیث مدرسہ شاہی مراد آباد اور مؤرخِ اسلام مولانا قاضی اطہر مبارک پوریؒ جیسی شخصیات بطورِ خاص قابلِ ذکر ہیں۔ اول الذکر میرے والدِ مرحوم مولانا جمیل احمد ناصریؒ کے استاذ بھی تھے۔

*مولانا عبد الباری قاسمیؒ*
       ------------------
مولانا شکر اللہ صاحبؒ کے بعد احیاء العلوم کے یہی ناظم بنے اور 47 سال تک اس منصب پر فائز رہے۔ 1336ھ مطابق 1918 میں پیدائش ہے اور وفات 1408ھ مطابق 1987۔ یہ مہتممِ ثانی مولانا شکر اللہ صاحبؒ کے حقیقی برادر زادے بھی تھے۔ تربیت بھی انہیں کے زیرِ سایہ پائی۔ دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور جامعہ مظاہر علوم کے مستفیدین میں سے تھے۔ مظاہر میں انہوں نے جن اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا ان میں مولانا عبدالرحمن کیمل پوریؒ، مفتی سعید احمد اجراڑویؒ، مولانا صدیق کشمیریؒ اور مولانا ظہور الحقؒ کے نام نمایاں ہیں۔ 1354ھ میں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ، علامہ ابراہیم بلیاویؒ، مولانا اعزاز علی امروہویؒ اور مولانا سید اصغر حسین میاں دیوبندیؒ جیسی عباقرۂ زمانہ ہستیوں سے اقتباسِ نور کیا۔ 1355ھ میں فراغت پائی۔ 

جامعہ عربیہ احیاء العلوم میں ان کی نظامت کا دور ایک تابناک دور کہلاتا ہے۔ ان کے عہد میں جامعہ بے پناہ ترقیوں سے ہم کنار ہوا۔ انہیں کے دور میں تعلیمی نظام دورۂ حدیث تک پہونچا۔ قومی و ملی مسائل میں بھی خوب سرگرم رہے۔ یوپی وقف بورڈ کے ممبر، ضلع کانگریس کے جنرل سکریٹری اور ضلع جمعیۃ علمائے ہند کے صدر بھی رہے۔ کئی عرصے تک مبارک پور کی چیئرمینی بھی ان کے ہاتھوں میں رہی۔ 

[اگلی قسط میں پڑھیں: احیاء العلوم کے کچھ اور احوال]