Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, November 22, 2019

وہ ہاتھ جوڑ کر بولا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!



تحریر : ابرار اصلاحی مکی - فون :9910450704.........صداٸے  وقت۔
==============================
گذشتہ دنوں ایک سفر سے واپسی پر دہلی ریلوے اسٹیشن سے اٹو رکشا لیا اور جامعہ نگر میں اپنی رہائش کے لئے روانہ ہوا۔
ملک کے اندر اور باہر بارہا سفر سے واپسی پر ایرپورٹ یا ریلوے اسٹیشن سے جامعہ نگر کے لئے ٹیکسی ڈرائیوروں کی عمومی بے رغبتی کا ایک تاثر میرے ذہن میں رہا ہے۔

اس بار بھی یہ آٹو ڈرائیور، دو ڈرائیوروں کے انکار کے بعد تیسرا شخص تھا جو جامعہ نگر کے لئے تیار ہوا تھا۔

میں نے اس سے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے؟ اس نے جواب دیا کہ بابو جی!  میں آپ کو صحیح بات بتاتا ہوں۔ جامعہ نگر کے لوگ   سواری میں بیٹھتے وقت عام لوگوں کی طرح ‌ہوتے ہیں۔ جوں ہی وہ جامعہ نگر سے قریب ہونے لگتے ہیں، ان کا لب ولہجہ تبدیل ہونے لگتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ پیسے کم دیتے ہیں کہ ہمارے پاس یہی ہے۔  گالی گلوج اور مار پیٹ کی نوبت بھی آجاتی ہے۔ اس لئے اکثر ڈرائیور ایسے علاقوں میں جانے سے ‌منع کردیتے ہیں۔

مسلم علاقوں کے بارے میں غیر مسلم ٹیکسی ڈرائیوروں کے اس تاثر کا مجھے بھی اندازہ تھا۔ لہٰذا میں نے سوچا کہ جو میں کرسکتا ہوں، وہ مجھے ضرور کرنا چاہیے۔

میں جب بھی ایرپورٹ یا ریلوے اسٹیشن سے جامعہ نگر کے لئے ٹیکسی لیتا ہوں۔ اگر ٹیکسی ڈرائیور مسلمان ہے تو گفتگو حسب موقع  اس کی دینداری اور اس کے بچوں کی تعلیم پر مرکوز ہوتی ہے۔ اور اگر وہ غیرمسلم ہے تو مجھے شدت سے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ اسلام کے اعلی اخلاق کا مظاہرہ ہونا چاہئے، لہٰذا اس سے اچھی باتیں کرتا ہوں اور جب میرے گھر کے سامنے اپنی گاڑی روکتا ہے تو اس کے پیسے ادا کرکے ضرور پوچھتا ہوں کہ وہ خوش ہے۔  

مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ غیر مسلم ٹیکسی ڈرائیور میرے گھر کا کھانا نہیں کھاے گا پھر بھی میں ناشتہ یا کھانا کے لئے ضرور پوچھتا ہوں۔ اگر وہ منع کرتا ہے تو چاے پانی کے لئے کہتا ہوں۔ اپنے دروازے سے اس کے ‌خوش ہوکر جانے سے مجھے بھی خوشی ہوتی ہے۔

اس ڈرائیور سے جب میں نے ناشتہ کے لئے کہا اور اس کے منع کرنے پر میں نے درخواست کی کہ کم از کم چاے تو پی لو تو وہ خوشی سے ہنس بڑا اور ہاتھ جوڑ کر بولا: بابو جی! آپ جیسے لوگ کم ہی ملتے ہیں۔