Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, November 26, 2019

کیا ہندوستانی معیشیت تباہی کے دہانے پر پہنچ گٸی ہے ؟


از/ سراج الدین فلاحی /صداٸے وقت۔
==========================

آج کل ہمارے ملک کی معیشت  کئی بڑے چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے. حال یہ ہے کہ اب کوئی بھی دن ایسا نہیں گزرتا جس دن ہمارے ملک کی معیشت کی بدحالی پر کوئی ڈیٹا نہ آتا ہو. روزانہ نئی نئی خبریں آ رہی ہیں اور معیشت کی خستہ حالی پر پڑا پردا ہٹتا جا رہا ہے. ابھی پچھلے ہفتے ہمارے ملک کی معیشت سے متعلق دو بڑی خبریں آئی ہیں. پہلی یہ کہ جی ڈی پی گروتھ ریٹ 7 فیصد سے گھٹ کر 5 فیصد کے آس پاس پہنچ گیا ہے اور دوسری یہ کہ مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے. ایسا لگتا ہے کہ چیزیں حکومت کے ہاتھوں سے نکلتی جا رہی ہیں. معیشت کو پٹری پر لانے کے لیے حکومت نے پچھلے دنوں کئی اقدامات کئے لیکن حالات اتنے خراب ہیں کہ نتائج امیدوں کے برعکس ظاہر ہو رہے ہیں. چند ماہرین معاشیات کی نظر میں یہ سستی ہے لیکن اکثر کے خیال میں یہ معاشی بحران ہے اس لیے کچھ کہنے سے قبل معیشت سے متعلق اعدادوشمار پر نظر ڈالتے ہیں. 
انڈیا کی تقریباً تمام ریٹنگ ایجنسیاں GDP کا گروتھ ریٹ گراتی چلی جا رہی ہیں. ہم جانتے ہیں کہ ہر مالی سال میں تین تین ماہ کی چار سہ ماہیاں (quarters) ہوتی ہیں اور ہر سہ ماہی میں حکومت معاشی امور سے متعلق آنکڑے جاری کرتی ہے. سال 20-2019 کی دوسری سہ ماہی ستمبر میں مکمل ہوئی اب اس کے نتیجے آ رہے ہیں. اس سال کی دوسری سہ ماہی میں GDP گروتھ کا اندازہ 4.25 فیصد ہے حالانکہ حکومت 8 اور 9 فیصد گروتھ ریٹ کی بات کر رہی تھی. آئیے کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں کے ذریعے جاری کیے گئے آنکڑوں پر نظر ڈالیں. نمورا (NUMORA) ایک فنانشیل سروسز گروپ اور گلوبل انویسمنٹ بینک ہے سونل ورما اس کی منیجنگ ڈائریکٹر اور چیف اکونومک ایڈوائزر ہیں انہوں نے چند روز قبل ہندوستانی معیشت پر جو تجزیاتی رپورٹ شائع کی ہے اس کے مطابق جی ڈی پی کا آنکڑا 4.2 فیصد ہے. SBI کے چیف اکونومک ایڈوائزر سومیہ کانت گھوس کے مطابق بھی 4.2 ہی ہے جبکہ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ICRA کی سینئر پرنسپل اکونومکسٹ ادیتی نائر (Aditi Nayar) نے ایک ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جی ڈی پی گروتھ کا اندازہ 4.7 فیصد ہے. ان کے علاوہ ADB, عالمی بینک، آئی ایم ایف اور آر بی آئی نے بھی گروتھ ریٹ کا اندازہ گھٹا دیا ہے.  غرض یہ کہ کسی بھی اکونومکسٹ یا ایجنسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ نمبر اوپر کی طرف جائیں گے بلکہ تقریباً سبھی نے اس کی گرتی حالت پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے. صحیح معنوں میں حقیقی نمبر اس ماہ کے اواخر میں آئیں گے لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ اگر یہ اعداد و شمار ٹھیک ثابت ہوئے تو ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس سال ہندوستان کی جی ڈی پی 5 فیصد سے بھی کم رہنے والی ہے. انہیں ہنگاموں کے درمیان مشہور ماہر معاشیات پروفیسر ارون کمار نے جی ڈی پی گروتھ کے سلسلے میں اہم بات کہی ہے کہ حکومت جو GDP کے اعداد و شمار دے رہی ہے وہ صرف رسمی یعنی Formal sector کے آنکڑے ہیں اگر اس میں غیر رسمی شعبے یعنی informal sector کے آنکڑے بھی ملا دیے جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ اس وقت GDP کا گروتھ ریٹ منفی ہے. 

سابق وزیراعظم منموہن سنگھ نے دی ہندو اخبار میں لکھی گئی اپنی تحریر میں معیشت کے درد کو بڑے واضح لفظوں میں بیان کیا ہے اور موجودہ معاشی بحران پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے. تحریر کی ابتدا میں ہی انہوں نے اس بات کی وضاحت کر دی ہے کہ وہ جو کچھ کہ رہے ہیں وہ حزب اختلاف کے رہنما کے طور پر نہیں بلکہ ایک عام شہری کی حیثیت سے کہ رہے ہیں اس لیے حکومت اسے سیاسی رنگ نہ دے. ہم سب جانتے ہیں کہ منموہن سنگھ بہت کم بولتے ہیں لیکن جب وہ بولتے ہیں تو دنیا انہیں سنتی ہے. ہم نے پہلے بھی دیکھا ہے کہ منموہن سنگھ نے معیشت پر جو کچھ کہا وہ سب سچ ثابت ہوا ہے. 
انہوں نے کہا کہ GDP گروتھ گذشتہ پندرہ سالوں کے سب سے نچلے درجے پر ہے اور بے روزگاری پچھلے 45 سالوں میں سب سے اوپر ہے. بینکوں کے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں یعنی بینک اس وقت قرض میں ڈوبے ہوئے ہیں اور ان پر جو NPA کا لوڈ ہے وہ تاریخ کے سب سے اونچے لیول پر ہے. انہوں نے مزید کہا کہ ایک اہم چیز جو باعث تشویش ہے وہ یہ کہ بجلی کی پیداوار پندرہ سالوں کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ گئی ہے. ان کے نزدیک یہ اعداد و شمار بہت پریشان کن ہیں اور اگر وقت رہتے ہوئے ان پر کنٹرول نہ کیا گیا تو حالات اور بھیانک ہو سکتے ہیں. 

پچھلے دنوں ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ہندوستانی معیشت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی معیشت 2024 تک 5 ٹریلین ڈالر کی ہو جائے گی اور اس کا شمار دنیا کی پانچ بڑی معیشتوں میں ہو گا جبکہ پچھلے ہفتے عالمی بینک کی درجہ بندی میں ہندوستانی معیشت چھٹے مقام سے گر کر ساتویں مقام پر آ گئی ہے. RBI کے سابق گورنر سی رنگا راجن جو 97-1992 تک RBI کے گورنر رہ چکے ہیں انہوں نے پانچ ٹریلین معیشت کے دعوؤں کو کھوکھلا بتایا ہے. احمد آباد میں ایک لیکچر کے دوران انہوں نے کہا کہ 2024 تک انڈیا کا پانچ ٹریلین معیشت بننے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. سی رنگا راجن جیسے بڑے اکونومکسٹ ایسا کیوں کہ رہے ہیں یہ جاننا بہت ضروری ہے. 

2017 کی درجہ بندی میں ہندوستانی معیشت 2.65 ٹرلین ڈالر تھی. 2018 میں اس میں اضافہ ہوا اور یہ بڑھ کر 2.73 ٹریلین ہو گئی اس کے باوجود اس کی رینکنگ گر گئی. اس کے گرنے کی وجہ یہ رہی کہ 2018 میں فرانس اور برطانیہ کی معیشت ہندوستانی معیشت کی نسبت زیادہ مضبوط رہی. اس وقت حکومت کی جانب سے کہا جا رہا تھا کہ انڈیا برطانیہ کو پیچھے چھوڑ کر 5 ویں مقام پر آ جائے گا لیکن حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے برطانیہ اور فرانس نے انڈیا کی معیشت کو ساتویں مقام پر دھکیل دیا.

 2018 میں برطانوی معیشت 2.64 ٹریلین ڈالر سے بڑھ کر 2.84 ٹریلین ڈالر جبکہ فرانس کی معیشت 2.59 ٹریلین ڈالر سے بڑھ کر 2.78 ٹریلین ڈالر ہو گئی. فی الحال انڈیا کی معیشت 2.7 ٹریلین ڈالر ہے اس کو روپے میں دیکھیں تو 190 لاکھ کروڑ روپے ہوتے ہیں. اگر ہندوستانی معیشت کو 5 ٹریلین یعنی 358 لاکھ کروڑ روپے کی بنانی ہے تو انڈیا کو کم از کم 9 فیصد کا GDP گروتھ ریٹ چاہیے جو کہ آج کل صرف 4 فیصد کے لگ بھگ ہے. بعض اکونومکسٹ کے نزدیک تو منفی گروتھ ریٹ ہے.

دنیا کے ہر ملک کا معاشی گروتھ انویسمنٹ (Investment) پر منحصر ہوتا ہے لیکن انڈیا کا حال یہ ہے کہ یہاں کا انویسمنٹ پچھلے پندرہ سالوں کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ گیا ہے. انویسمنٹ جو 13-2012 میں اپنی چوٹی پر تھا اس میں تقریباً سات فیصد کی کمی درج کی گئی ہے. صرف سرکاری انویسمنٹ پر نظر ڈالیں تو دیکھیں گے کہ 15-2014 میں یہ 56 فیصد تھا وہ اب گھٹ کر 36 فیصد رہ گیا ہے. چنانچہ پرائیویٹ انویسٹر بھی موجودہ حالات سے ڈرے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے انہوں نے بھی اپنا نجی انویسمنٹ کافی کم کر دیا ہے. انویسمنٹ میں کمی کے باعث ابھی پچھلے دنوں صنعتی پیداوار سے متعلق جو اعداد و شمار آئے ہیں وہ بھی چونکانے والے ہیں. ستمبر میں صنعتی پیداوار پچھلے 8 سال کے سب سے نچلے درجے پر تھی اور اس میں تقریباً ساڑھے چار فیصد کی کمی بتائی جا رہی ہے. ساڑھے چار فیصد بہت بڑا نمبر ہوتا ہے کیونکہ یہ ملکی سطح کا آنکڑا ہے. مع انفراسٹرکچر تمام آٹھ اہم کور سیکٹر کے اعداد و شمار بھی کافی خراب ہیں زیادہ تر میں تو منفی گروتھ ریٹ ہے. قابل غور بات یہ ہے کہ جس طرح بجلی کے خرچ میں بھاری گراوٹ آئی ہے اس سے معلوم ہو رہا ہے کہ بجلی کی ڈیمانڈ میں کمی آئی ہے. آپ کو سن کر حیرت ہو گی کہ بجلی کی ڈیمانڈ میں 13.2 فیصد کی کمی درج کی گئی ہے اور 13.2 فیصد بہت بڑا نمبر ہوتا ہے یعنی جو فیکٹریاں بجلی لے رہی تھیں وہ اب 13.2 فیصد کم بجلی لے رہی ہیں. ہم سب جانتے ہیں کہ تقریباً تمام صنعتی پیداوار بجلی پر منحصر ہیں. اگر بجلی کی ڈیمانڈ میں کمی دیکھنے کو مل رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ فیکٹریوں میں پیداوار کم ہو رہی ہے. اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ Capital goods میں کمی آئے گی جس کی وجہ سے سرمایہ کاری مزید اور رک جائے گی.اس سے آنے والے دنوں کے نتائج کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے. 

اب بینکنگ سیکٹر کی طرف آتے ہیں. اگر آپ معیشت سے متعلق خبروں پر نظر رکھتے ہیں تو آپ نے یہ خبر ضرور سنی ہو گی کہ حکومت بینکوں کا Recapitalisation کرئے گی. Recapitalisation ایک ایسا عمل ہے جس میں حکومت بینکوں کی بیلینس شیٹ کو بنائے رکھنے کے لیے نئی سرمایہ کاری کرتی ہے. اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت نے کیا لیکن بہت کم کیا. معاشی حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ اس سہ ماہی میں لوگوں نے بینکوں سے کافی کم قرض لیے ہیں جس کی وجہ سے Non banking financial companies یعنی NBFC اور ہاؤسنگ فائنانس کمپنیوں کے قرض دینے میں بھی بھاری گراوٹ آئی ہے. بینکنگ سیکٹر کے حالات اتنے تشویشناک ہیں کہ جن بینکوں کا کام عوام سے ڈپازٹ لینا اور معاشی گروتھ کے لیے لوگوں کو لون دینا تھا وہ کارپوریٹ سیکٹر کو لون دینے سے ہچکچا رہے ہیں اور وہ خود اپنا پیسہ محفوظ بنانے کے لیے سرکاری سیکورٹیز میں لگا رہے ہیں. RBI کے اس سال پانچ دفعہ سود کی شرح کم کرنے کے باوجود عوام قرض حاصل کرنے کے لیے بینکوں کی لائن میں کھڑی نظر نہیں آ رہی ہے. جس طرح یکے بعد دیگرے برے سے برے اعداد و شمار سامنے آ رہے ہیں ایسے میں بینکوں کو پھر سے امید جگی ہے کہ ہو سکتا ہے RBI دسمبر میں ایک بار اور سود کی شرح میں کمی لائے تاکہ لون سستا ہو اور لوگ بینکوں سے لون لے سکیں. 

حکومت نے liquidity کی کمی کو پورا کرنے کے لئے بہت سارے اقدامات کئے ہیں جیسے ستمبر میں کارپوریٹ ٹیکس میں 8 فیصد کی کٹوتی اور ابھی چند روز قبل Real Estate کی مدد کے مقصد سے ان کو پچیس ہزار کروڑ کے ایک بڑا پیکج کا اعلان وغیرہ. باوجود اس کے معیشت کے بحران میں کوئی کمی نہیں آ رہی ہے. چنانچہ اس بحران کا حکومت کی وصولیوں پر بھی برا اثر پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے ٹیکس وصولی میں بھی بھاری گراوٹ آئی ہے. گویا آنے والا وقت حکومت کے لیے آسان نہیں ہوگا کیونکہ اگر حکومت خرچ میں کٹوتی کرئے گی تو گروتھ پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور اگر خرچ میں اضافہ کرئے گی تو مالیاتی خسارہ (Fiscal deficit) بڑھے گا.

اس ہنگامے کے درمیان National Council of Applied Economic Research (NCAER) جو کہ دلی کا ایک اہم تھنک ٹینک ہے اس کا حالیہ سروے بتاتا ہے کہ گذشتہ تین ماہ کے دوران انڈیا کے نجی شعبے کا بزنس 6 سال کے سب سے نچلے درجے پر پہنچ گیا ہے. اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ کاروں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے. سرمایہ کاروں کے خوف و ہراس کے پیچھے کی وجہ سمجھنی ہو تو ووڈا فون (Vodafone) کی حالت زار دیکھ لیجیے. پچھلے دنوں جیسے ہی سپریم کورٹ نے ٹیلی کام کمپنیوں سے لائسنس وغیرہ کے بقایا جات وصولنے کی ہدایت جاری کی، ٹیلی کام کمپنیوں نے رونا دھونا شروع کر دیا. اگر سپریم کورٹ کی ہدایت کو نافذ کیا گیا تو ٹیلی کام کمپنیوں کو 90 ہزار کروڑ روپے ادا کرنے ہوں گے. اسی لیے مندی کی مار جھیلنے والے ووڈا فون کے CEO نے اپنی کمپنی کے درد کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حکومت نے ان کے بقایا جات کو ادا کرنے کے لیے کم از کم دو سال کا وقت نہیں دیا تو کمپنی Liquidation میں چلی جائے گی اور ہم انڈیا میں اپنا بزنس بند کر دیں گے.(معاشیات میں Liquidation کاروبار کو ختم کرنے اور اس کے اثاثوں کو اس کے دعویداروں میں تقسیم کرنے کا عمل ہے. یہ عام طور پر اس وقت ہوتا ہے جب کمپنی دیوالیہ ہو جائے. مطلب یہ کہ وہ اپنی liabilities کو ادا نہ کر سکے). یعنی ٹیلی کام سیکٹر جو پہلے ہی ہچکولے لے رہا تھا اگر سپریم کورٹ کی ہدایت کو نافذ کیا گیا تو وہ پوری طرح ڈوب جائے گا.

مہنگائی کے تازہ اعدادوشمار پر نظر ڈالتے ہیں اکتوبر میں retail Inflation سولہ مہینے کے سب سے اوپری سطح پر تھا جبکہ فوڈ مہنگائی 7.89 فیصد تھی. ایسے میں ماہرین معاشیات کو ایک نیا ڈر ستا رہا ہے وہ ڈر stagflation کا ہے stagflation  ایسی حالت کو کہتے ہیں جس میں ڈیمانڈ تو گھٹ جاتی ہے لیکن مہنگائی اور بے روزگاری بڑھ جاتی ہے. چنانچہ مذکورہ بالا مسائل کو لے حکومت اور RBI دونوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے اور دونوں پریشان ہیں کہ کیا کریں؟ وہ گروتھ کے لیے شرح سود گھٹائیں یا مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے شرح سود بڑھائیں.

ہم جانتے ہیں کہ کسی ملک کی معیشت اس ملک کے سماج کی عکاس ہوتی ہے اور آج کل ہندوستانی معیشت اتنے خراب حالات سے گزر رہی ہے کہ یہاں سے انڈیا جیسی بڑی معیشتوں کو ترقی کی پٹری پر لانا بہت مشکل ہے. اہم سوال یہ ہے کہ حکومت کیا کر رہی ہے یا اسے کیا کرنا چاہیے؟ سب سے پہلے حکومت کو پرائیویٹ سرمایہ کاروں کے اندر پنپ رہے ڈر و خوف کو نکالنا چاہیے اور ان میں بھروسہ پیدا کرنا چاہیے تاکہ وہ کھل کر سرمایہ کاری کر سکیں. دوسری سب سے اہم چیز یہ ہے کہ حکومت غیر رسمی شعبے کی قوت خرید بڑھانے پر غور کرے. دیکھا یہ جا رہا ہے کہ حکومت معیشت کو بچانے کے لیے صرف سپلائی سائڈ پر فوکس کر رہی ہے اور کارپوریٹ سیکٹر کو نواز رہی ہے کارپوریٹ سیکٹر مارکیٹ پیدا نہیں کرتے بلکہ مارکیٹ عام لوگوں سے پروان چڑھتی ہے کیونکہ ہندوستانی معیشت کے بحران کا سبب سپلائی نہیں بلکہ ڈیمانڈ میں کمی ہے اور ڈیمانڈ عام شہریوں سے ہی بوسٹ کی جا سکتی ہے.