Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, November 27, 2019

ایف آئی آر میں اردو الفاظ کے استعمال پر دہلی ہائی کورٹ سخت برہم ۔ پولس کو لگائی پھٹکار.

اردو بھارت میں تسلیم شدہ بائیس سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے اور دارالحکومت دہلی میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ چونکہ بھارت کے فوجداری اور سول قوانین بڑی حد تک برطانوی دور کے ہیں اس لیے اکثر اصطلاحات بھی اردو زبان میں ہیں۔
نئی دہلی /صداٸے وقت/ذراٸع۔
============================
بھارت میں میر، غالب اور داغ کے شہر دہلی میں عدالت نے پولیس ایف آئی آر میں اردو کے ‘مشکل‘ الفاظ کے استعمال پر دہلی پولیس کی سرزنش کی ہے۔
دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ڈی این پٹیل اور جسٹس سی ہری شنکر پر مشتمل بنچ نے حکم دیا کہ دہلی پولیس کو ایف آئی میں اردو اور فارسی کے ایسے الفاظ کا استعمال بندکردینا چاہیئے، جو عام لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہیں۔
عدالت نے تعزیرات ہند کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پولیس ایف آئی آر بہت اہم دستاویز ہوتی ہے۔ اس لیے اسے سہل زبان میں لکھنے کی ضرورت ہے یا اس شخص کی زبان میں لکھا جانا چاہیئے جو پولیس کے پاس اپنی شکایت لے کر پہنچا ہوتاکہ اسے پتہ ہو کہ کیا لکھا گیا ہے۔
ہائی کورٹ نے دہلی پولیس کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ پولیس عام لوگوں کے لیے کام کرتی ہے، صرف ان کے لیے نہیں جن کے پاس اردو یا فارسی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری ہے۔ عدالت نے کہا کہ ایسے الفاظ کا استعمال ختم ہونا چاہئے جن کے معنی تلاش کرنے کے لئے ڈکشنری کی مدد لینی پڑے کیونکہ پولیس کا کام زبان سے متعلق اپنی معلومات دکھانا نہیں۔
اردو بھارت میں تسلیم شدہ بائیس سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے اور دارالحکومت دہلی میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ چونکہ بھارت کے فوجداری اور سول قوانین بڑی حد تک برطانوی دور کے ہیں اس لیے اکثر اصطلاحات بھی اردو زبان میں ہیں۔
اردو الفاظ کے استعمال پر پابندی عائد کرنے کی درخواست وکیل وشالاچھی گویل نے دائر کی تھی۔ جس پر عدالت نے سات اگست کو دہلی پولیس کو اپنا موقف دینے کی ہدایت کی تھی۔ دہلی پولیس نے اپنے جواب میں بتایا کہ اس نے بیس نومبرکو ایک سرکلر جاری کرکے تمام تھانوں کو ہدایت دی ہے کہ ایف آئی درج کرتے وقت اردو کے الفاظ استعمال نہ کیے جائیں۔ اس سلسلے میں دہلی پولیس نے اردو کے 383 الفاظ پر مشتعمل ایک فہرست بھی عدالت کو پیش کی جن کا استعمال اب ترک کردیا گیا ہے۔
اس میں اس طرح کے الفاظ سامل ہیں: استغاثہ، مسمی، مسما?، مشتبہ، نقول، سرزد، عدم پتہ، مرگ رپورٹ، موصول، نزد، ضمنی، نعش، اندراج، عدم تعمیل، انسداد جرائم، کارآمد، قابل دست اندازی، مذکور، معطل، روپوش، راضی نامہ، تحریر، مجرم، گفتگو، سنگین جرائم، زیر تفتیش، روبرو، اشتہار، ظاہر، بیان تحریری، غفلت، روزنامچہ، مجروح، فرمان، مقدمہ ہذا، حفاظت، تفتیش وغیرہ۔
ہائی کورٹ نے دہلی پولیس کو حکم دیا ہے کہ وہ دہلی کے دس تھانوں میں سے ہر تھانے سے دس دس یعنی مجموعی طور پر ایک سو ایف آئی آر کی نقول پیش کرے تاکہ یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ اردو کے الفاظ کا استعمال بند کرنے پر کتنا عمل ہوا۔ کیس کی اگلی سماعت گیارہ دسمبر کو ہوگی۔
دہلی پولیس کے ایک اعلی افسر نے نام ظاہر نہیں کرنے کی شرط پرڈ ی ڈبلیو کو بتایا کہ، ”برطانوی دور میں اردو اور فارسی کے الفاظ کا استعمال عدالتی اور انتظامی امور میں عام تھا۔ ان میں سے بہت سے الفاظ ہماری روز مرہ کی بول چال کا حصہ بن گئے ہیں لیکن پولیس ٹریننگ کالجوں میں اب اسٹاف کو کہا جا رہا ہے کہ وہ اردو کے’مشکل اور پیچیدہ‘ الفاظ کا استعمال نہ کریں۔”
اردو کے فروغ کے لیے سرگرم تنظیم اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر سید احمد خان نے کہا کہ، ”عدالت کا حکم اپنی جگہ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں ہے کہ اردو دنیا کی پیاری اور عام فہم زبانوں میں سے ایک ہے اور بھارت میں یہ رابطے کی سب سے بڑی اور اہم زبان ہے۔”