Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, November 13, 2019

!!!مسلم قاٸدین میں نہ تو ہمت ہے اور نہ حمیت

”مسلم قائدین“ میں ہمت ہے نہ حمیت /از عدیل اختر۔/صداٸے وقت۔
===============================
بابری مسجد کی مقدس زمین کو عدالت نے اس اقرار کے باوجود رام مندر بنانے کے لئے دے دیا کہ بابریv مسجد کسی مندر کو توڑ کرنہیں بنائی گئی تھی، اس میں غیر قانونی طریقے سے مورتی رکھی گئی تھی اور اسے غیر قانونی طریقے سے منہدم کیا گیا تھا۔ عدالت کے اس فیصلہ پر ماہرین قانون یہ کہہ رہے ہیں کہ اس میں تضاد ہے اور یہ فیصلہ قانونی ودستوری اعتبا ر سے درست نہیں ہے۔ عوامی طور پر یہ بات محسوس کی جارہی ہے اور کسی نہ کسی انداز میں اس کا اظہار بھی ہورہا ہے کہ یہ ویسا ہی فیصلہ ہے جس کا خاکہ مخالف فریق اور اس کے نمائندوں کی طرف سے متعدد بار پیش کیا گیا تھا۔ فیصلہ سنائے جانے سے پہلے آرایس ایس، اس کی ذیلی تنظیموں اور اس کی پارٹی کی حکومت کی طرف سے جو ماحول بنایاگیا اس سے بھی یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ عدالت کے ذریعہ اس فیصلہ کو سامنے لانے سے پہلے مسلمانوں کی طرف سے اس کے ردعمل کے امکان کو کم سے کم کرنے کے لئے یہ چوطرفہ کوششیں کی گئیں۔ یعنی یہ فیصلہ جو عدالت کی طرف سے سنایا گیا بادی النظر میں ایک طے شدہ فیصلہ تھا۔ 
تو سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے نام پر قیادت کرنے والے لوگوں نے اس فیصلہ سے پہلے اور اس کے بعد کیا رول ادا کیا اور کیارول ادا کرنا چاہئے تھا؟

 مسلمان بابری مسجد کی لڑائی اس لئے لڑرہے تھے کہ ان کی مسجد پر ہندوؤں نے جبراًغنڈہ گردی اور مجرمانہ طریقے سے قبضہ کیا،اجتماعی طور پر منظم اور منصوبہ بند دہشت گردانہ حملے سے اسے برسرعام شہید کیا اور سجد ہ و عبادت کی مقدس جگہ کو (ہمارے عقیدے کے مطابق) بتوں کی گندگی سے ناپاک کیااور اس ظلم کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو مستقل دہشت زدہ کرتے رہے، نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ ملک کی عدالت کو، ملک کے کثیر قومی سماج کواور ملک کے نظام کو مستقل دھمکاتے رہے اور ہندوؤں کی اس دہشت گردانہ اور مجرمانہ روش کی قیادت آر ایس ایس اور اس کی تنظیمیں کررہی تھیں۔ تو مسلمان اس لئے عدالت سے انصاف کا انتظار کررہے تھے کہ ملک میں ایک نظام انصاف ہے، ہم اس کے پابند ہیں، ہم ہندؤوں سے براہ راست لڑائی نہیں چاہتے، اس لئے ملک کا نظام اور عدالت عالیہ اس بنیادی مقدمہ کا فیصلہ کرے جو غیر قانونی طریقے سے مورتیاں رکھے جانے کے خلاف ہم نے مقامی عدالت میں کیا تھا اور جس کاحتمی فیصلہ نہ ہونے سے ہندؤوں کو دہشت گردی کرنے کا بہانہ ملاہواتھا۔ اس لئے زمین کی ملکیت کا یہ دیرینہ مقدمہ فیصل ہو اور عدالت اگر ہمیں ہماری مسجد واپس دلادے تو سبحان اللہ، لیکن اگر عدالت سے ہمیں مسجد نہ بھی ملے تو بھی ہم عدالت کے پابند ہیں ہندوؤں کے جبر میں تو مسجد کو مندرنہ بنانے دیں گے ہاں ملک کے نظام انصاف کی بات کو تسلیم کرلیں گے چاہے ہمیں اس سے اتفاق ہو یا نہ ہو۔ 

یہ مسلمانوں کا بہت اصولی، اخلاقی اور منطقی موقف تھا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اس موقف پر مستقل ثابت قدم رہااورکسی بھی جبر، مکر، فریب یا لالچ میں آکر اس موقف سے نہیں ہٹنے کی ہمت دکھائی۔ یقینا یہ مسلم پرسنل لا ء بورڈ کی محترم ومکرم قیادت اور بورڈ میں شامل مخلص لوگوں کی کامرانی اور سرفرازی ہے اور اس کے لئے وہ دعاؤں اور مبارک باد کے مستحق ہیں۔ تمام مسلمانوں کو ان کا احسان مند ہونا چاہئے کہ ان کی قومی عزت اور دینی ذمہ داری کو بنائے رکھنے کے لئے ان مخلصین نے ہرسرد وگرم کا مقابلہ کیا۔ 

لیکن بورڈ سے ہٹ کر مسلمانوں کی یہ جو بکھری بکھری قیادتیں (دہلی میں) ہیں، خاص طور سے وہ قیادتیں جن کے ساتھ ان کے متبعین کی کچھ نہ کچھ بھیڑ ہے، جنہیں ناقدین دوکانیں بھی کہتے ہیں، یہ مینڈھک کی طرح اچھلتی کودتی نظر آتی ہیں۔ جیسے مینڈھک کبھی منڈیر پر ہوتے ہیں کبھی پانی میں غوطہ لگا جاتے ہیں، کبھی مٹی میں چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں، کبھی ایک دم سے نکل کر سامنے آجاتے ہیں۔ اسی طرح یہ قیادتیں کبھی کچھ کرتی اور کبھی کچھ کرتی نظر آتی ہیں۔ بابری مسجد کے مقدمہ کے معاملے میں یہ اپنے اعلانوں اور اپنے نظریو ں سے  تومسلم پرسنل لاء بورڈ کے موقف کے ساتھ ہم آہنگ رہیں۔ لیکن بابری مسجد کو مندربنانے کا قانونی طریقے سے اعلان کرنے کی تیاری جب کرلی گئی اور اس کی پیش بندی کے طور پر منظرنامہ بننے لگا تو یہ قیادتیں صاف اور صریحا ً مسلمانوں سے امن بنائے رکھنے کی اپیل اس طرح سے کرتی رہیں کہ جیسے مسلمان کسی احتجاج،تشدد یا بغاوت کی تیاری کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہوں۔ صرف تنظیمیں اور قیادتیں ہی نہیں تعلیمی ادارے، بڑے مدرسے، یونیورسٹیاں، اسلامک سینٹر سب ایک ہی دھن میں ایک ہی راگ الاپ رہے تھے۔باخبر اور باشعور لوگوں کے لئے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ یہ سب کچھ کروایا جارہا تھا۔ کون کروارہاتھا یہ بھی سب پر ظاہر ہے۔اب ان میں سے کچھ لوگ دباؤ اور خوف میں، کچھ لالچ میں اور کچھ اپنی کفر دوستی کی وجہ سے طوطوں کی طرح رٹایا ہوا سبق یا غلاموں کی طرح لکھی ہوئی تحریر دوہرا رہے تھے۔ 

ان لوگوں کو آخر یہ توفیق کیوں نہ ہوئی کہ یہ حکومت اور عوام کے سامنے یہ بات کھل کر کہتے کہ مسلمانوں سے امن و امان کو کوئی خطرہ نہیں ہے البتہ حکومت آرایس ایس اور ہندو تنظیموں سے بھی امن کی ضمانت لے اور عدالت کو حکومت کی طرف سے یہ کھلا پیغام دیا جائے کہ عدالت دستورو قانون کے مطابق حقائق اور شواہد کی بنیاد پر غیر جانب دارانہ طریقے سے بے خوف ہوکر زمین کی ملکیت کاتصفیہ کرے۔ حکومت کسی بھی فیصلہ کی صورت میں امن وامان کو قائم رکھنے کی ذمہ داری نبھائے گی۔اس کے بجائے ان تنظیموں نے فریق مخالف (حکومت اور آر ایس ایس) کے دباؤ میں آکر مسلمانوں کو نفسیاتی خوف اور افسردگی میں مبتلا کیا، پر امن، نہتے اور بے بس مسلمانوں کی مخصوص بستیوں کو متعدد ضلعوں میں چھاؤنی بنادیاگیا، وہاں کے اسکولوں کو عارضی جیل بنادیا گیااور کتنے ہی لوگوں کو بے خبری میں گرفتار کرکے نظر بند کردیا گیا، تو کیا مسلمانوں کی قیادت کے دعوے داروں سے مسلمانوں کو یہ پوچھنے کا حق نہیں کہ آپ ہمارے قائدین کس لئے ہیں؟

بابری مسجد کو بت خانہ بنانے کا فیصلہ سنادیا گیا، فیصلہ کی قانونی خامیوں پر سوال بھی فوراً سامنے آنے لگے لیکن ان قیادت خانوں سے جاری ہونے والی رسمی پریس ریلیزیں ایسی تھیں جیسے یہ کوئی آبزرور ہوں، کسی کھیل کے خاموش تماشائی، جو تماشہ ہونے تک خاموش رہنے کی آوازیں نکالنے والے اور تماشہ ختم ہونے پر تالی بجانے والے اور مداری کی تعریف کرنے والے ہوں۔ ان کے بیانات مقدمہ کے فریق یعنی مسلمانوں کی طرف سے قانونی اور منطقی ترجمانی کرنے والے نہیں تھے، الا ماشا ء اللہ۔

یہاں تک بھی چلئے ٹھیک ہے، لیکن اس کے آگے ان لوگوں نے جو کچھ کیا وہ مسلمانوں کے وقار کو خاک میں ملادینے والا، مسلمانوں کے جذبات کی توہین کرنے والا اوردشمن کے پاؤں دھونے والا رویہ تھا۔ یہاں ہماری مراد اس لنچ پارٹی سے ہے جونیشنل سیکورٹی ایڈوائزر نے اپنے گھر پر منعقد کی۔ اس پارٹی کو نام تودیاگیاتھا سد بھاؤنا، لیکن گوبر کو اگر حلوہ کی ٹکیہ کہہ کر کھلایاجائے گا تو وہ ٹکیہ کھائی جائے گی؟ ہر بات کی اہمیت اس کے موقع و محل کے حساب سے ہوتی ہے۔ یہ نیشنل سیکورٹی ایدوائزر کون صاحب ہیں، یہ جس حکومت کے کارپرداز ہے وہ حکومت کون ہے، اس حکومت کی پشت بانی کرنے والی طاقتیں کون ہیں؟ کیا یہ سوالات ان سے معاملہ کرنے کے لئے لائق غور نہیں ہیں؟

کل ملاکر یہ فریق مخالف ہے۔ یعنی جس کے ظلم وجبر کے خلاف ہم قانونی لڑائی لڑرہے تھے اور جو ہماری ہزیمت پر آمادہ تھا اور مستقل آمادہ رہے گا۔ یہ رام مندربنانے کی اپنی دیرینہ مشکل کو حل کرنے کے بعداس پر فخریہ اظہار کررہا ہے اور آپ سے کہہ رہا ہے آئیے اب ہمارے ساتھ تھوڑی سی سد بھاؤنا بھی کرلیجئے۔ آئیے ہم سب مل کر خوشی منائیں۔ اور آپ لنچ کرنے پہنچ گئے۔ آپ نے پیٹ کر شاندادعوت بھی اڑائی، دشمن کو تہنیت پیش کرنے والے انداز میں اپنے خطابات سے بھی محفل کو کامیاب بنایا اور پھر ان کے ساتھ کھل کھلاکر ہنستے ہوئے فوٹو کھنچوائے۔ آپ کے دل کی کیفیت کیا تھی یہ ہمیں نہیں پتا، لیکن آپ کے چہرے مسرور تھے، آپ مسلمانوں کے دشمنوں (اللہ اور رسولؐ کے د شمنوں) کے ساتھ شیروشکر تھے۔ آپ کو ان جلوؤں میں دیکھ کر زخمی دل مسلمانوں کے اوپر کیا گزری آپ کو ا س کا احساس نہیں۔ ایسی عیاشیوں کے لئے آپ کے پاس بہانہ ہوتا ہے فرقہ وارانہ خیرسگالی کا، افہام و تفہیم کا، کشیدگی کو کم کرنے کا، ملک میں بہتر ماحول بنانے کا۔ لیکن آپ کے یہ بہانے آپ کی بزدلی اورآپ کے ڈر یا اقتدار کے ایوانوں میں آتے جاتے رہنے کی آپ کی حرص وہوس پر پردہ ڈالنے کے لئے کافی نہیں ہیں۔این ایس اے نے آپ کو اٹھاکر لانے کے لئے کمانڈو تو نہیں بھیجے ہوں گے یابلڈوزروں سے آپ کے مرکزوں کو منہدم کردینے کی دھمکی تو نہیں دی ہوگی کہ نہیں جانے کے علاوہ آپ کے پاس کوئی چارہ ہی نہ ہوگا۔ آپ اپنے پیروں سے چل کر گئے ہوں گے، اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کر گئے ہوں گے۔ تو کیا آپ یہ کہہ کر معذرت نہیں کرسکتے تھے کہ ہمارے دل افسردہ ہیں اور ہماری قوم غم اورمستقبل کے اندیشوں میں مبتلا ہے، ہم ابھی اس حالت میں نہیں ہیں کہ آپ کی دعوت میں آسکیں۔پرسنل لاء بورڈ کے محترم صدر صاحب تو نہیں گئے، محترم سکریٹری صاحب نے جانا قبول نہ کیا، اور بہت سے غیرت مند نہیں گئے تو پھر آپ کیوں چلے گئے۔؟

متحارب قوموں کے درمیان معاملات میں کسی قوم کی قیادت ایک سفار ت کی طرح نازک عمل ہوتا ہے۔ سفارت موقع و محل کو دیکھتی ہے، افادیت اور نقصان کو دیکھتی ہے، سفارت میں ملنے جلنے کے انداز اور باڈی لینگویج کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ آپ کے بیانات، آپ کے انداز اور آپ کی باڈی لینگویج کیا کہہ رہی تھی؟

بھارت کے مجبوروبے کس مسلمانوں کی قیادت کے یہ دعوے دار اگر ہمت اور حمیت کا اظہار کرتے تو مسلمانوں کی دعائیں ان کامقدر بنتیں۔ لیکن افسوس یہ باطل قوتوں سے جتنی ہم آہنگی بڑھاتے جارہے ہیں مسلمانوں کی دعاؤں اور نیک تمناؤں سے اتنے ہی دور ہوتے جارہے ہیں۔ شعور کی آنکھوں سے اپنی قیادتوں کے رنگ ڈھنگ کو دیکھنے والا مسلم نوجوان آ ج یہ سوچتا ہے کہ اے ہمارے قائدو! ہمارے حال پہ رحم کرو، کوئی اور کاروبار ڈھونڈ لو، ہمیں تمھاری ضرورت نہیں، ہماری رہنمائی کے لئے اللہ کی کتاب اور رسو ل اللہؐ کے نقش قدم ہی کافی ہیں۔ 

جن لوگوں کو یہ صاف صاف باتیں گراں گزریں ان سے بس یہ کہنا ہے:
میں یوں رہزن  کے بدلے پاسباں پر وار کرتا ہوں 
مرے گھر کی تباہی ہے نگہبانوں سے وابستہ 

عدیل اختر