Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, November 12, 2019

ایودھیا معاملے سے جڑی وہ شخصیات جن کے مذہب پر بھاری تھی کام کی وفاداری۔

صداٸے وقت /نماٸندہ (بشکریہ نیوز 18 اردو).
==============================
نئی دہلی: سپریم کورٹ کے فیصلےکے بعد ایودھیا معاملے(مندر- مسجد تنازعہ) کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ 135 سال پہلے1885 میں شروع ہوئےایودھیا تنازعہ کی قانونی لڑائی میں کچھ کردارایسے رہے ہیں، جنہیں ان کی ڈیوٹی کے فرائض کولےکرہمیشہ یاد رکھا جائےگا، جنہوں نےایودھیا معاملے میں اپنے مذہب سےاوپراٹھ کرکردارادا کیا، جن کے مذہب پران کے عہدے اورکام کی وفاداری بھاری تھی۔ جب کسی نظام پرعام آدمی کا بھروسہ ٹوٹنے لگتا ہے تب ایسے ہی لوگ اندھیرے میں اعتماد کی روشنی دکھاتے ہیں۔ آئیےملتے ہیں ایودھیا معاملے کے ایسےکرداروں سے۔
کے کے محمد: آرکیولوجیکل سروے آف انڈیا کے سابق علاقائی  ڈائریکٹرکےکے محمد نے ایودھیا میں آثار قدیمہ کی کھدائی کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ واضح طورپرمسجد کے نیچےایک مندرکی موجودگی کے نشانات (باقیات) ملے ہیں۔ ان کی رپورٹ ہندو فریق کےلئے سب سے بڑا ہتھیارتھا۔ 77-1976 کی کھدائی میں وہ شامل تھے۔ وہ کیرل کے کالی کٹ کے رہنے والےہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے، جو کھدائی 2003 میں ہوئی اسمیں تین مسلم تھے۔
پی این شکلا: 6 دسمبر 1992 بابری مسجد شہادت کے بعد شام سوا پانچ  بجے تھانہ رام جنم بھومی، اجودھیا میں نامعلوم کارسیوکوں کے خلاف بابری مسجد منہدم کرنے کی سازش، مارپیٹ اوردیگرمعاملوں میں کیس درج کیا گیا تھا۔ ہندو - مسلم جھگڑے میں ہندوؤں کے خلاف ایف آئی آرایک ہندو نے درج کی۔ وہ تھےتھانہ انچارج کے طورپرکام کررہے پی این شکلا۔ وہ کیس نمبر197 تھا۔
گنگا پرساد تیواری: بابری مسجد انہدام معاملے میں ایودھیا کے رام جنم بھومی تھانے میں 1988 نمبرکیس درج ہوا۔ اس میں اشوک سنگھل، گری راج کشور، لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہرجوشی، وشنوہری ڈالمیا، ونےکٹیار، اوما بھارتی اورسادھوی رتھنبھرا سمیت 8 لوگوں کے نام تھے۔ الزام تھا کہ رام کتھا کنج سبھا منچ سے مسلم طبقےکے خلاف مذہبی منافرت بھڑکانے والی تقریرکے ذریعہ بابری مسجد منہدم کرائی گئی۔ ان بڑے ہندو لیڈروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے والا افسرہندوتھا۔ وہ تھانہ رام جنم بھومی کے پولیس افسرگنگا پرساد تیواری تھے۔
افضل امان اللہ: لال کرشن اڈوانی رام مندرتحریک کو سیاسی رنگ دینے والے سب سے بڑے چہروں میں سےایک رہے ہیں۔ انہوں نےے25 ستمبر1990 کوسومناتھ سے رتھ یاترا شروع کی۔ 19 اکتوبرکووہ دھنباد پہنچے، تب دھنباد کےڈی ایم تھےافضل امان اللہ۔ بہارکےاس وقت کے وزیراعلیٰ لالوپرساد یادونےافضل امان اللہ کوحکم دیا کہ وہ اڈوانی کوگرفتارکریں۔ امان اللہ نےایسا کرنے سےانکارکردیا۔ تاکہ ماحول نہ بگڑے۔ وہ سید شہاب الدین کے داماد ہیں۔ تب شہاب الدین بابری مسجد ایکشن کمیٹی کےکنوینرتھے۔ اس لئےاگراڈوانی کوایک مسلم افسر، وہ بھی سید شہاب الدین کا رشتہ دارگرفتارکرواتا تو جھگڑا بڑھ جاتا۔
آرکے سنگھ: 23 اکتوبر1990 کوایل کےاڈوانی سمستی پورپہنچ چکے تھے،  تب وہاں کے ڈی ایم آرکے سنگھ تھے۔ لالویادونےانہیں اڈوانی کوگرفتارکرنےکا حکم دیا۔ اس پرآرکے سنگھ نے ہندوتوا کی شناخت بن چکے رام رتھ یاتری اڈوانی کوگرفتارکروالیا۔ اس گرفتاری کے ساتھ ہی رتھ یاترا ختم ہوگئی۔ حالانکہ پورے ملک میں اس کا سخت ردعمل سامنےآیا۔ آرکے سنگھ بعد میں مرکزی داخلہ سکریٹری بنے۔ اتفاق کی بات یہ ہےکہ انہیں بی جے پی سے ٹکٹ ملا اوروہ الیکشن جیت گئے۔ اب مودی حکومت میں وزیرہیں۔
ایڈوکیٹ راجیودھون: ایودھیا معاملے میں مسلم فریق کی  طرف سے جس  نے سپریم کورٹ میں وکالت کی وہ ہندوہیں۔ سینئرایڈوکیٹ راجیودھون اس معاملے میں سنی وقف بورڈ کی دلیل رکھ رہے تھے۔ راجیودھون مسلسل اپنی دلیلوں اورہندو فریقوں کے موقف پرحملہ کرکے سرخیوں میں رہے ہیں۔ اسی 16 اکتوبرکوانہوں نے ہندوسبھا کے وکیل کی طرف سے پیش کئےگئےایک نقشے کوعدالت میں پھاڑدیا تھا۔ 72 سال کے راجیودھون حقوق انسانی کارکن ہیں۔ انہوں نے الہ آباد یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے۔
جسٹس ایس عبدالنظیر: ایودھیا معاملے میں سپریم کورٹ نے  متنازعہ زمین رام للا وراجمان کو دے دی ہے۔ اس تاریخی فیصلے کوسپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی صدارت والی پانچ ججوں کی جس بینچ نےاتفاق رائے سے فیصلہ سنایا، اس میں واحد مسلم جج جسٹس ایس عبدالنظیربھی شامل ہیں۔ جسٹس عبدالنظیرنے فروری 1983 میں کرناٹک ہائی کورٹ میں وکالت شروع کی۔ 2003 میں انہیں کرناٹک ہائی کورٹ میں ایڈیشنل جج بنایا گیا۔ 2004 میں انہیں مستقل جج نامزد کیا گیا۔ فروری 2017 میں انہیں سپریم کورٹ کا جج بنایا گیا۔