Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, November 10, 2019

بابری مسجد کا فیصلہ اور کرتار پور کیریڈور۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہندوستان کی تاریخ کے دو الگ واقعات۔

9/نومبر 2019/پر ایک نظر/صداٸے وقت/ماخوذ۔مورخہ ١٠ نومبر ٢٠١٩۔
==============================
کل نومبر 2019 کو آزادی سے قبل ہندوستان کے دو حصوں میں تاریخی امور انجام پائے اور دونوں کی نوعیت ایک دوسرے کی متضاد تصور ہوتی ہیں
بھارت کی عدالت عالیہ نے بابری مسجد کے حق ملکیت میں فیصلہ نہ کرکے قضیہ کا حل پیش کیا اور صدیوں پر محیط مسجد کے وجود و قبضہ اور زمین کے مالکانہ شواہد کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ قطعہ زمین مندر کی تعمیر کے لئے عطا کی گئی اس طرح جبر کی سیاہ چادر مقدمے کی فایل پر ڈال دی گئی اس چادر کو اعتقاد اور آثارقدیمہ کے سروے کواعتبارو اعتماد کے گل بوٹوں سجایا گیا حق اور مذہبی آزادی کو معدوم کرتے ہوئے شب خون کے ظہوری صنم اور صنم پرستی کے حقوق محفوظ کیے گئے
بابری مسجد جس کا وجود ختم کردیا گیا۔

اسی کے متوازی پاکستان میں کرتارپور میں سکھ فرقے کے موسس پیشوا گرو نانک صاحب کی آخری آرام گاہ اور سکھوں کے اول ترین گرودوارہ کو  حکومتی نگرانی میں سکھوں کو زیارت و عبادت کے لئے غیر مرئ طور پر سکھوں کے حوالے کیا گیا اس طرح سکھوں کے حق کااحترام کرتے ہوئے انکی مذہبی آزادی اور سہولت کی غرض سے کاریڈار کی تعمیر کی گئ ہے جسکا کل حکومت پاکستان نے افتتاح کرتے ہوئے گویا گرو دوارہ پر مذہبی رواداری کے پھولوں کی خوشنما چادر ڈالی ہے
یہ بھی اتفاق ہے کہ کرتارپور کے مقدس درودیوار کی عمر اور اجودھیا کے مقدس بام و در کی عمر میں بہت زیادہ زمانی فرق نہیں ہے مگر کل دونوں عبادت گاہوں کے باب میں انسانی سلوک کی مختلف اور علیحدہ جہات کا دنیا نے مشاہدہ کیا ایک طرف خوبصورت اور لایق تحسین عبادت گاہ کے احیا کو مستحکم کیا گیا دوسرے عبادت خانہ کو انصاف کی نا قابل قبول تحریر کے سہارے نیست و نابود کرنے کے نظم کو یقینی بنایا گیا.
گرودوار کرتار پور جسکو بحال کردیا گیا

تاریخ کے اوراق ہم جب پلٹتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ملک کے بٹوارے کے بعد مذہبی بنیاد پر مہاجرت کے تحت سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی مخاصمت بیگناہوں کے خون سے گوندھی گئ اور دونون فرقوں کے درمیان وسیع خلیج قائم ہوئ لیکن اس خلیج کی کینہ پروری کو در گزر کرتے ہوئے کل اعراض و خیر سگالی کی فضا میں طویل راہداری کو کرتارپور کاریڈار کا نام دیا گیا
آزادی کے حصول کے بعد جب ملک کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ چار پانچ دہائ قبل بابری مسجد کی تاریخ اور شہنشاہ بابر کے کردار اور اسکے معتمد نوکر شاہ میر باقی کی شخصیت کو مسخ کرتے ہوئے عوام کے سامنے پیش کرنے کے سلسلے کا آغاز ہوا کورٹ میں مسجد بنام مندر کئ مقدمے فریقین کی جانب سے قائم ہوئے اور اقتدار کے حصول کے لئے اس اسکیم کو  تحریک کا جامہ پہنایا گیا اور مختلف سیاسی بھٹیوں سے اس پروپیگنڈہ کو گزارتے ہوئے مسجد کے انہدام جیسا مذموم فعل کانگریس کی سر پرستی میں انجام دیاگیا اس زمانے میں کئی قابل گرفت نعرے وضع کیے گئے جسمین ایک نعرہ بہت مقبول ہوا " تیل لگا کے ڈابر کا نام مٹا دو بابر کا" ہجومی کارسیوک (ہجوم فاجرہ) کے بدست حادثہ فاخرہ(یوم سیاہ) سے ملک کی تاریخ داغدار ہوئ مسجد کی بازیابی کے لئے بابری مسجد ایکشن کمیٹی قائم ہوئی جس کے نگرانی میں یہ معاملہ مختلف مراحل سے گزرتا ہوا عدالت عالیہ میں داخل ہوا جو  9/11  کو فیصل ہوا جسمین حقائق و شواہد پر ڈابر کا تیل ڈالکر عقائد صنم کو اجاگر کیا گیا 
ان دونوں واقعات سے اہم نتائج برآمد ہوتے ہیں مسجد کے عنوان سے باطل بت اور طاقت پرستوں کی فطرت بےنقاب ہوئ اقتدار کے حصول کے لئے تاریخ کی کال کوٹھری سے برآمد خود ساختہ رنجش کوحق وانصاف پر بالا دستی عطا کی گئ  جبکہ کرتارپور کے گوردوارہ کے عنوان سے کل کی رنجش کو در گزر کرتے ہوئے انصاف کے ساتھ حق بحقدار رسید کا مظاہرہ کرتے ہوئے خیر سگالی اور مذہبی رواداری کا پیغام دیا گیا ہے جو احمد مجتبی محمد مصطفی صلی اللہ و علیہ وسلم کے غلاموں کی فطرت کا عکاس ہے جس پر تعلیم مصطفی ص کے پرتو کا احساس ہوتا ہے 
آج آپ ص کا یوم ولادت ہے ہم کو آپ کی اتباع کرنے کی توفیق حاصل ہو آپ کی آمد مرحبا  اس مبارک موقع پر ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہم کو مسجد کے تعلق سے فیصلہ کے بار گراں کو اٹھانے کا حوصلہ دے اور مسجد کی بازیابی کے جذبے و عزائم کو سلامتی عطا فرمائے ہم کو یقین ہے کہ اس طرح کے فیصلے ہمارے لئے یا ہماری نسلوں کے لئے دیوار آہن نہیں ہو سکتے اللہ ہم کو عقل و شعور عطا فرمائے تاکہ ہم اسی زمین پر پھر سجدہ ریز ہو کر تیری عظمت اور بزرگی کو بیان کر سکیں اور نبی کریم صلی اللہ وعلیہ و سلم کے لئے درود و سلام کا نذرانہ پیش کر سکیں آمین