Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, November 12, 2019

سانحہُ بابری مسجد اور ہماری ذمے داریاں


ڈاکٹر ساجد عباسی۔12نومبر 2019/صداٸے وقت۔
=============================
سپریم کورٹ کا فیصلہ مسلمانوں کے لئے غیر متوقع نہیں تھا۔مسجد کے حق میں فیصلہ کی اگر کسی کو امید ہوتی تو یہ  ایک بڑی خوش فہمی ہوتی  کہ ملک کی عدالت ِ عالیہ ہندو مسلم کی سیاست سے او پر اٹھ کر قانون  کی پاسداری کرےگی ۔ یہ امر سنی وقف بورڈ کے لیے اطمینان بخش ہے کہ انہوں  نے مسجد کے معاملے میں مداہنت  نہیں برتی اور  مصالحت کے نام پر  مسجد کو مقابل فریق کے حوالے نہیں کیا ورنہ وہ عنداللہ  جرم کے مرتکب ہوتے۔ اللہ کا شکر ہے کہ مسلم فریق نے ایک تاریخی قانونی لڑائی کا حق ادا کردیا۔ اس سلسلے میں  بھارت  کی مسلم عوام، ان   وکلا ء کی  دل سے مشکور  ہے جنہوں نے ایک  تاریخی مقدمہ میں  ایک  ریکارڈ  قسم کی قانونی لڑائی لڑی  اور مسجد کے حق میں  ناقابل ِ فراموش ثبوت پیش کرکے فریق ِ مخالف کو لا جواب کردیا۔بالخصوص ہم سینیئر ایڈوکیٹ ر جییؤ  دھاون کے بہت ممنون و مشکور ہیں جنہوں نے بابری مسجد کی وکالت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت سےنوازے ۔آمین۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس شر سے خیر کو برامد کرے۔  کچھ خیر کے پہلو تو ہمارے سامنے نظر آرہے  ہیں۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد  27 سال سے  بابری مسجد قضیہ بی جے پی کے لیے ووٹ  سمیٹنے کا ایک نادر ذریعہ بنا ہوا تھا۔اب عوام کو بےوقوف بنانے کے لیے اس سے بڑا کوئی ایجنڈا نہیں ہوسکتا ۔ دوسرا خیر کا پہلو یہ ہے کہ اگر مسجد کے حق میں فیصلہ ہوتا تو ہندو قوم پرست غنڈے اس کو بہانہ بنا کر نہ ختم ہونے والے فسادات کو سلسلہ شروع کرواتے۔ یہ بھی یہ ایک خیر ہے کہ عدالتِ عظمی کی حقیقت سامنے آگئی۔اگر مسلمان  مصالحت کرکے مسجد کو دان کردیتے تو عدالتِ عالیہ کا عمل ِ سافلہ سامنے نہ آتا۔ ایک اور خیر یہ ہے کہ انصاف پسند ہندو افراد شرمندہ ہیں اور ان  کی ہمدردیاں  ہمارے ساتھ ہیں۔ابھی پتہ چل رہا ہے کہ کون سے ہندو بھائی ہیں جو انصاف پسند ہیں  اور کون ہیں جو  اندھے تعصب کا شکار ہیں۔یہ وہ وقت ہے کہ  غیر انصاف پسندوں کے دلوں میں بھی انکے ضمیر ملامت کررہے ہونگے۔ ایسے حالات میں مسلمانوں کا صبر وضبط ا ن کے دلوں میں اس احساس کو اور بڑھادیگا۔اور بھی بہت سے خیر کے پہلو جو آج ہمارے  شعور سے ماوراء ہیں  مستقبل قریب میں ان شاء للہ آشکارا ہونگے ۔
ہم میں سے جو واقف نہیں ہیں ان کے لیے بابری مسجد  کے بارے میں  ضروری حقائق  پیش کیے جاتے ہیں:
بابری مسجد کو سن  1528 تا 1529 سن کے درمیان جنرل میر باقی نے شہنشاہ بابر   کے حکم پر تعمیر کیا تھا۔
سن 1949 ،22دسمبر کی رات  ہندو مہاسبھا کے کارندوں نے مسجد میں، عشاء کی نماز کے بعدچوری سے رات کی تاریکی میں  مورتیوں کو رکھا۔اس وقت تک مسجد ہمیشہ آباد رہی۔اسی وقت سے یہ باور کیا گیا کہ یہ مسجد  رام جنم بھومی  پر بنائی گئی ہے۔
23 دسمبر 1949 کو حکومت ِ ہند نے مسجد  کو متنازعہ  جگہ قرار دے کر اس کو نمازیوں کے لیے بند کردیا اور اس کو تالا لگادیا۔
16 جنوری  1950 کو گوپال سنگھ وشارد نے فیض آباد کورٹ میں مقدمہ دائر کیا کہ مسجد کا تالا کھولا جائے تاکہ  ہندو  رام کی پوجاکرسکیں۔
1959 میں نرموہی اکھاڑا نے مقدمہ دائر کیا کہ  مسجد کی زمین ان  کو دی جائے۔
18 دسمبر 1961 کو سنی وقف بورڈ نے مقدمہ دائر کیا کہ مورتیاں ہٹا کر مسجد کے مقام کو بحال کیا جائے اور نمازیوں کے لیے کھول دیا جائے۔
25جنوری 1986 کو اومیش چندر پانڈے  نے  استغاثہ  کیا کہ بابری مسجد کو  پوجا کے لیےکھول دیا جائے۔ راجیو گاندھی جو شاہ بانو کیس پر مسلمانوں کے حق میں   مسلم پرسنل لا کی حمایت کی تھی اس لیے  اسکو ر برابر کرنے کے لیے وہ ہندوؤں کو بھی خوش کرنا چاہتے تھے اس کےلیے انہوں نے مسجد کے تالے کو  رام  کی شیلا نیاس کے لیے کھول دیا۔
6دسمبر 1992 کو سنگھ پریوار کے کار سیوکوں نے  بابری مسجد کو شہید کردیا ۔ اس کے بعد فسادات میں ہزاروں مسلمان مارے گئے۔
2010میں مسجد کے مرکزی گنبد کے نیچےکی زمین کو الہ آباد کی ہائی کورٹ نے  رام مندر کے حق میں  دینے کا فیصلہ سنایا ۔ مسجد کے لیے ایک تہائی حصّہ کو دینے  کا اعلان کیا  گیا۔
2019  میں اگسٹ سے اکٹوبر کے درمیان تمام فریقوں  کی اپیل پر    سپریم کورٹ میں مقدمہ کی  سنوائی ہوئی اور پانچ ججس نے 9 نومبر کو یہ فیصلہ سنادیاکہ 2.77ایکڑ زمین پر مسجد کی جگہ پر رام مندر ایک ٹرسٹ کی نگرانی میں تعمیر کی جائےگی۔اور 5 ایکڑ زمین  ایودھیا کے کسی دوسرے مقام پر مسجد کی تعمیر کے لیے دی جائے گی۔
یہ ہے بابری مسجد کے ساتھ ہونے والا ظلم اور انصاف کے ساتھ ایسا مذاق جسکی مختصر تاریخ آپ کے سامنے رکھی  گئی۔
 شاید انسانی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ایسا واقعہ   قانون کی دنیا میں پیش آیا کہ    سپریم کورٹ  جیسی  بڑی عدالت  میں فیصلہ کا انوکھا طریقہ ہمارے علم میں آیا کہ فاضل ججوں  نے قانون کے بجائے آستھا کو اپنے  فیصلہ کی بنیاد بنایا ۔اور اس فیصلہ میں  آستھا کو قانون پر ترجیع دی گئی۔اس فیصلہ سے بابری مسجد  کے تما م مجرموں  (1949 سے اب تک کے )کو معافی تو درکنار  گویا  انعام سے نوازا گیاہے۔اس فیصلہ کے بعد ان سارے مجرموں کو آپ سے آپ   نہ صرف کلین چٹ  مل جائے گی بلکہ وہ احساسِ تفاخر سے ان کی گردن  اونچی ہوجائے گی۔ عقیدہ ( آستھا )  کی بھی کوئی نہ کوئی بنیاد ہونی چاہیئے۔رام جنم بھومی  کے بارے میں جو آستھا ہے اس کی کوئی منطقی بنیاد نہیں ہے۔ایک اندھا عقیدہ ہے ۔محض  قیاس  و گمان  سے بڑہ کر اس کی بنیاد   ہوتی تو اس کو پیش کیا جاتا۔ رام  چندرجی  ایک راجہ کے بیٹے تھے اور انکی پیدائش مندر میں کیوں ہوگی ۔ان کی پیدائش تو محل میں ہونی چاہیئے۔خیر  ان دلائل  کو پیش کرنایہاں  مقصود نہیں ہے۔ ہمارے وکلاء نے دلائل کے انبار لگادیے۔یہ اللہ کا شکر ہے کہ مسلمانوں کی جو آستھا ہے  یعنی جو ایمان و عقیدہ ہے وہ اندھا عقیدہ نہیں ہے۔ الحمدللہ ۔قرآن میں ایمانیات  کے سلسلے میں بہت ہی مضبوط دلائل دیے گئے ہیں ۔ یہ ایمان ان دلائل کی بنیا د پر اتنا مضبوط ہوتا ہےکہ اس ایمان کے لیے ایک  مسلمان  اپنی جان و مال ہر چیز داؤ پر لگا سکتا ہے۔
قیاس و گمان  کی بنیاد پر گھڑے ہوئے ایک آستھا  کی بنیا د پر فیصلہ صادر کرنا ایک خطر ناک روایت ہے  ۔ اس طرز عدالت  سےتو  کوئی جرم  ،جرم ہی باقی نہ رہے گا بلکہ مجرم  کو انعام سے نوازا جائے گا۔اس وقت مسئلہ ایک مسجد کا نہیں ہے جو سارے مسلمانوں  کے دلوں میں ویران ہوکر  بھی آباد تھی۔بلکہ مسئلہ اس طرز عدالت کا ہے جس سے مستقبل میں  نہ کوئی مسجد بچ سکتی ہے نہ ہی کوئی  ادارہ ۔ نفرتوں کے سوداگروں کے لیے یہ بات  کافی نہیں ہے کہ ایک مسجد پر  وہ  اکتفا کریں   اور جس پر وہ پشیمان ہوں ۔ بلکہ برسوں سے نفرت کی سیاست کرنے والوں کے  دل سیاہ و سخت ہوچکے ہیں۔ آج ہی کی خبر ہے  کہ ا   نکا اگلا ہدف یونیفارم سول کوڈ ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ بھارت جیسے ملک میں جہاں  بےشمار کلچر پائے جاتے ہیں ، یکساں سول کوڈ کی زد میں کیا کچھ آئے گا۔مسلم دشمنی  کے نشہ میں یہ تابڑ توڑ  قانون سازی کرتے جارہے ہیں۔ اس سے ان کو کوئی سروکار نہیں ہے کہ اس بے ہنگم قانون سازی  سے ملک میں یہ کیا کیا گل کھلائیں گے۔ ان کا بس ایک ہی ہدف  ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں   سے ایک ایک کرکے ہر چیز چھین لی جائےاور ان کو مستقل  حالتِ خوف میں رکھا جائے۔ مسجد ِ مظلوم کے ساتھ جو بھی ہوا وہ قانون کے نام پر قانون کا قتل ہے اور انصاف  کے نا م پر انصاف کا قتل ہے۔
بابری مسجد کا یہ سانحہ ایک  اتفاقی حادثہ نہیں ہے بلکہ  اس کا تعلق  مسلمانوں  کے ۸۰۰ سالہ دور حکومت  سے ہے  جنکے بارے میں   یہ قوم پرست اس   غلط فہمی کا شکار ہیں یا اس غلط فہمی کے  موجد ہیں  کہ مسلم بادشاہوں نے ظلم ڈھائے ہیں۔ اس  غلط  فہمی  کو  سب سے قبل انگریزوں  نے ایجاد کیا تھا  اور انکی ایک غرض تھی ۔ ان کو اس بات پر غصّہ تھا کہ انگریزوں سے لڑائی میں مسلمانوں کے ساتھ ہندو بھی ہیں ۔اس لیے انہوں نے ہندوؤں کو مسلمانوں سے بدظن کرنے کا ناپاک ارادہ کیا اور مسلم بادشاہوں  کی تاریخ کو تاریک ترین بنا کر پیش کیا۔جو ہندو انگریزوں کے حاشیہ نشین تھے انہوں نے اس جھوٹ کو ہاتھوں ہاتھ لیا  اور ان کو پھیلانا  شروع کیا۔  انگریزوں کو سب سے زیادہ دشمنی مسلمانوں سے تھی کیونکہ وہی انگریزوں  سے آزادی کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے تھے اور انگریزوں کے لیےچیلنج بنے ہوئے تھے۔انگریزوں کے  زمانے سے ہی  مسلم دشمنی   کے جذبات و احساسات   ہندو قوم میں شدّت سے پیدا کیے جا نےلگے۔دنیا میں ہمیشہ جھوٹ ،بغض و عناد اور  منفی افکار پھیلانا بہت آسان ہوتا ہے۔چنانچہ انگریزوں کے لگائے  گئےشجر ِ خبیثہ کی، انگریزوں کے جانے کے بعد، ان  مسلم دشمن تنظیموں نے خوب آبیاری کی۔اس طرح اسلام دشمنی اور مسلمانوں سے نفرت کے جذبات  تیزی سے پھیلائے جاتے رہے۔آزادی سے بہت پہلے  مسلمانوں  کو ان  متعصب  ہندو نظریات کا علم ہوا تو  انکے اندر  عدم تحفظ کا  احساس  پیدا ہونے لگا۔ ان کو یہ احساس ہونے لگا کہ انہوں نے انگریزوں سے غلامی  حاصل کرنے کے لیے  اپنے قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔لیکن انگریزوں سے آزادی  حاصل کرکے اس سے بدتر غلامی کی طرف گامزن  تھے ۔ ایسی غلامی جس میں   عقیدہ و ایمان ،جان ، مال ، عزّت  و آبرو ہر چیزداؤ پر لگنے والی تھی۔ یہیں سے دو قومی نظریے  کا آغاز ہوا جو تقسیمِ ملک  کا سبب بنا۔تقسیم ِ ملک کے بعد یہی  نفرت   انگیز تنظیموں  نے الٹا مسلمانوں پر الزام لگا  نا شروع کردیا  کہ مسلمان  اس تقسیم کے ذمّدار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی تنظیمیں  چاہتی تھیں کہ تقسیم ہند ہو جس سے 40فیصد مسلمانوں کی طاقت تین حصوں میں منقسم ہو  اور مسلمانوں کی طاقت  بھارت میں ایک تہائی ہوجائے۔ اس طرح  ملک کی تقسیم   سے بھارت  کی مسلم آبادی جو بھارت میں رہ گئی  اس کو  سب سے بڑا  نقصان  ہوا۔تقسیم ِ ہند کے بعد فرقہ پرست  تنظیموں کو مسلم دشمنی کے کارڈ کو استعمال کرنے کا ایک مستقل ہتھیار دستیاب ہو ا جس سے  بالآخر سیاسی قوت   میں اضافہ کرنا   ان کے لیے آسان  ہوتا چلا گیا۔ماضی کی جھوٹی داستانیں بیان کرنا اور ہندوؤں   کے اندر  مستقبل کے بارے میں مسلمانوں  سے  ڈر کی نفسیات پیدا کرنا یہ دونوں چیزیں  ہندوؤں  کےدلوں میں زہر گھولنے کا    ذریعہ بنی  رہیں۔ مسلمانوں کے دورِ حکومت  سے   ان کے اندر جو بغض و حسد  کی آگ  موجزن رہی ہے اب وہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ چونکہ   آج  وہ  اقتدار   کی طاقت  کی بلندی پر پہنچ چکے ہیں ان کے نزدیک   اب  یہ وقت  انتقام لینے کا  ہے ۔ بابری مسجد کے انہدام  میں وہ  مسلمانوں کی   شکست و ذلّت  کو دیکھتے ہیں اور اس کو وہ اپنی  کامیابی   سمجھ کر  اس پر فخر و مسرت   محسوس  کرتے ہیں  ۔یہی چیز ان کے لیے   مسلمانوں کے دورِ سلطنت   کے  غم و غصّہ کا ان کے لیے مداوا ہے۔  یہ ہے دراصل وہ اسباب جو مسجد کی  شہادت  اور مسجد کے معاملہ میں صریح ناانصافی   تک حالات کو پہونچادیا ہے۔  کاش کہ یہ سلسلہ اسی پر ختم ہوتا ۔لیکن ان کے عزائم  کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہےکہ  ہندو قوم کے پاس  نہ کوئی  مثبت عقیدہ ہے نہ ہی کوئی مثبت سوچ جس پر یہ متحد رہ سکتے ہیں ۔ ان کا اتحاد      بدقسمتی سے صرف اور صرف ایک ٹانگ پر کھڑا ہوا ہے اور وہ ہے مسلم دشمنی ۔اگر یہ ٹانگ  کاٹ دی جائے تو گویا ساری ہندو قوم کی وحدت  پارہ پارہ ہوجائے گی۔ یہ ہندو فرقہ پرست فسطائی  طاقتوں کی گویا ایک مجبوری ہے کہ مسلم دشمنی  کی  پشت پر   ہندوؤں کو متحد کرو اور ان سے ووٹ  حاصل کرو ۔
سوال یہ ہے کہ آخر ان حالات میں مسلمان کیا کریں ۔ آئندہ کے لائحہ عمل سے قبل ہم کو اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ آخر بھارت کے مسلمانوں     کی ماضی قریب میں تاریخ نے ایسا کیا موڑ لیا کہ  ہر چیز  ان کے خلاف ہوگئی کہ ان کو ناکردہ گناہوں کی سزا مل رہی ہے۔نہ ہی مسلم بادشاہ ظالم تھے اور نہ ہی آج کے مسلمانوں کو ان کے کئے کی سزا ملنی چاہیے۔ پھر وہ کیا جرم تھا جس  کی ہم کو آج سزا مل رہی ہے۔ اس کا جواب ہم کو قرآن سے یہ ملتا ہے کہ مسلمان محض ایک قوم نہیں  ہیں  جس کو اللہ تعالیٰ نے  محض  حکومت کرنے کے لیے ،یہاں عمارتیں تعمیر کرنے کے لیے  اور اس کو سونے کی چڑیا بنانے کے لیے بھیجا تھا بلکہ ایک مشن کے ساتھ بھیجا تھا۔  اس مشن کے دو حصّے تھے۔ایک یہ تھا کہ اس  برِّ صغیر میں   دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام دیں  ۔دوسرے یہ کہ یہاں   کمزوروں پر جو ظلم صدیوں سے ہورہا تھا اس کو ختم کریں۔ لیکن  کچھ چند نیک نفوس کے سو ا یہاں   کا سواد اعظم اس  اہم فریضہ سے غفلت کا شکار رہا۔اور یہاں کے بادشاہ  ظلم کے شکار افراد کو ظلم سے نجات دلانے کے بجائے ان ظالموں کو اپنا وزیر ، دستِ راست اور حاشیہ نشین بنایا۔نچلی ذات کے افراد پر بدستور ظلم ہوتا رہا اور یہاں کی خواتین پر بھی ظلم ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ انگریزوں کے دور میں ستی کی رسم پر پابندی لگائی گئی۔ اگر دعوت الی اللہ کا کام  برِّصغیر میں  بڑے پیمانے پر ہوتا تو آج ہم اقلیت میں نہ ہوتے ۔ بالخصوص یہاں کی    مظلوم   قومیں فوج در فوج حلقہ بگوش اسلام ہوتے اگر ہم انکے مسیحا بن جاتے۔
 ہماری صدیوں  کی لاپروائی  کے نتیجہ میں جب مشیّت ِ یزدی نے   ہم کو حکومت  و سیادت  کے منصب سے معزول کرکے انگریزوں  کو اقتدار سونپا تو ان انگریزوں کو بھی ہم نے عدو سمجھا لیکن کبھی ہم نے انکو اسلام کامدعو نہیں  سمجھا۔چنانچہ آزادی کے بعد ہم اس سے بد تر غلامی کے دور میں داخل ہوچکے ہیں۔  اللہ تعالیٰ نے چونکہ ہم کو  دنیا کی اصلاح کے کام پر لگا یا تھا اور ہم نے بھارت میں اصلاح کا کا م انجام دینے کے فریضے کو بھلادیا۔صرف  اپنی ہی قوم کی اصلاح کے نام پر ہم نے خود کو مختلف مسلکوں میں بانٹ لیا اور اسلام کی آبیاری کے بجائے مسلکوں کی حفاظت میں لگ گئے۔ اس دوران     ہندوؤں کی حیوانیت میں روز افزوں اضافہ ہوتا رہا ۔ آج انکی ساری حیوانیت کا رخ  ہماری طرف اس سزا کے طور پر کردیا گیا ہے جو ہم نے دانستہ و نادانستہ صدیوں سے کرتے رہے۔آج اسی حیوانیت کا شکار ایک تاریخی مسجد  ہوئی جو ہماری عظمت ِ رفتہ  کا نشان  تھی جو 70 سالوں سے انصاف کی منتظر تھی۔ سوال یہ ہے کہ اس حیوانیت کا شکار کون  کون  ہوگا اور کب  تک ہوتا رہے گا۔
حضرات !  اب ان حالات میں ہمیں کیا کرنا ہے ہمیں اسکا جائزہ لینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلاَ تَهِنُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ۳:۱۳۹
دل شکستہ نہ ہو ، غم نہ کرو ، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔آل عمران 139
اس آیت ِمبارکہ میں ہمارے لیے تسلی کا ایک خزانہ ہے۔ چاہے حالات کتنے ہی مایوس کن ہوں قرآن ہمیں   تاریکیوں میں ایسی روشنی   عطاکرتا ہے جہاں  سے  کامیابی کی منزل صاف دکھائی دیتی ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ کامرانی و کامیابی کی ایک شرط ہے وہ یہ ہے کہ ہم ایمان کے تقاضوں کو پورا کریں۔ اس آیت کو پیش کرتے ہوئے عام طور پر کہاجاتا ہے کہ امّت ِ مسلمہ کے غلبہ کو مشروط کیا گیا ہے ایمان سے۔لیکن ایمان کے تقاضوں کوتفصیل سے بیا ن نہیں کیا جاتا۔ایمان کے تقاضوں میں سے بالخصوص وہ تقاضے جو عمل ِ صالح کے ساتھ دعوت الی اللہ  سے متعلق ہیں  وہ بیان نہیں کیے جاتے۔عام لوگ سمجھتے ہیں کہ جب ہم نیک بن جائیں گے تو غلبۂ اسلام ہمار ا منتظر رہے گا۔ایسا نہیں ہے۔ یہاں پر ایمان کا وہ تقاضا مراد ہے جو ہمارے مقصدِ وجود سے متعلق ہے۔ایمان کے تقاضوں کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آئے گی کہ سب کچھ کرتے ہوئے ہم ایک اہم کام سے غافل ہیں وہ یہ ہے کہ ہم اپنے مقصدِوجود  کا شعور کھوچکے ہیں ۔آج بھارت میں   ہمارے  باعزّت  وجود   کا انحصار اس  امر پر ہے کہ ہم اس مقصد کو روبہ عمل لائیں ۔  اس مقصد کو اس آیت میں پیش کیا گیا ہے۔
وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا۔۔۔ البقرۃ۱۴۳
اور اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک "امّتِ وسط" بنایا ہے ، تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔البقرۃ۱۴۳
یہ ایک اہم آیت ہے  جو سورہ البقرہ کے عین وسط میں واقع ہوئی ہےاور اس میں لفظ" وسط"  آیا ہے۔ اس آیت کا یہ ایک ادبی اعجاز ہے  اور اسی آیت  میں ایک نہایت ہی اہم منصب سے  امّت ِ مسلمہ  کو سرفراز کیا  گیا ہے۔ یہ  ہے شھادت علی الناس کامنصب ۔ یعنی  یہ امّت  حق کی شھادت  پیش کرے ۔اللہ کے پیغام کو اللہ کے بندوں تک پہونچائے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی پوری زندگی  کو شھادت علی الناس  کے فریضے کی ادائگی کے لئے وقف کردیا تھا ۔
 اس ضمن میں ہم حسب ذیل کاموں کو آج ہی سے انجام دینے کا عزم کریں:
1) اللہ سے رجوع کریں اور  تعلق باللہ کو مضبوط کریں ۔
2)طویل عرصہ سے دعوت الی اللہ کے فریضہ سے غفلت پر اللہ سے توبہ و استغفار کریں۔ 
3)غیر مسلموں سے رابطے بڑھائیں اور  ان کے سامنے مثالی مسلمان کا کردار پیش کریں۔ 
4) ہم  سب ملکر  دعوت الی اللہ کا عزم کریں۔ ہمارے ربط میں  موجود ہر غیر مسلم بھائی کو اپنا مدعو سمجھیں۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اندر داعیانہ تڑپ پیدا کرے، ہماری زبان کی گرہ کو کھول دےاور  ہماری زبان میں تاثیر پیدا کرے۔ ہمارے سینے کو رشد وہدایت سے بھر دے تاکہ بصیرت کے ساتھ ہم  اپنے ہموطنوں کو اللہ کی طرف دعوت دیں۔ 
5) ہمارے مسلمان بھائی جو غفلت کی زندگی گزار رہے ہیں ان کی اصلاح کی کوشش کریں تاکہ اسلام کی غلط نمائندگی نہ  ہو۔ 
6)نئی نسل کی ایسی تربیت کریں کہ وہ داعی امت بن کر اٹھے۔ اسکول اور کالج میں اسلام کو پیش کرنے والی طلباء   و طالبات کی ٹیم بنائیں۔دینی  مدارس کے طلباء  میں دعوتی شعور کو پیداکرنے والے کورسس پڑھائیں۔
7)ہر گاؤں میں کم از کم ایک داعی ہو جو مقامی زبان میں غیر مسلموں میں اسلام کو پیش کرے اور مسلم آبادی میں دینی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرے۔ 
8)خطیب حضرات پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے مسلکوں سے اوپر اٹھکر دینِ اسلام کے تقاضوں کو امت کے سامنے پیش کریں۔ اپنےخطبوں کے ذریعے عام مسلمانوں میں عملِ صالح  کی ترغیب دیں۔ان کی معاشرت کی اصلاح کریں۔ شرک، بدعات و خرافات،شادی بیاہ کی  غیر اسلامی رسومات ،اسراف  اور  تمام معاشرتی برائیوں سے بچنے  کی تلقین کریں ۔
9)باعمل مسلم بھائیوں کو دعوت الی اللہ کے کام پر ابھاریں۔
10)میڈیا اور سوشیل میڈیا کے ذریعے  امربالمعروف و نہی عن المنکر کے عظیم فریضے کو انجام دیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم کو ایمان  کے تمام تقاضوں   کو پورا کرنے کی توفیق عطافرما۔ بالخصوص  دعوت الی اللہ کا شعور ہمیں عطا فرماتاکہ ہمارا معاشرہ ایک دعوتی معاشرہ بن جائے جیسے صحابہ کرام کے دور میں دعوت  دی جاتی تھی۔اے اللہ ہمیں اس عمل کی توفیق عطافرما جو تیرے غضب سے بچائے اور تیری رحمت کو  ہمارے لیے واجب کردے۔