Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, November 12, 2019

کیا واقعی میں ہم امن پسند ہیں یا کمزور ؟

 صداٸے۔وقت /ماخوذ (ہندی تحریر سے ترجمہ).
===================
سبری مالا پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ،بی جے پی کے قومی صدر نے کیرل میں انتخابی جلسہ میں سپریم کورٹ کو نصیحت دی ، آج تک سپریم کورٹ کا فیصلہ سبری مالا معاملہ پر صحیح ڈھنگار سے لاگو نہیں ہوسکا۔
عوام نے سڑک پر اتر کر سپریم کورٹ کے فیصلے کی مخالفت کی۔سیاسی پارٹیاں بھی عوام کے ساتھ ہے۔
جَلی کٹی پر کٸی بار عدالت نے فیصلہ دیا ۔تملناڈو کے عوام نے مخالفت کی ۔عدالت نے اپنا فیصلہ بدلا۔
ایس سی /ایس ٹی ایکٹ پر سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ۔دلتوں نے پورے دیش میں پرتشدد احتجاج کیا کٸی لوگوں کی جان گٸی جگہ جگہ لاٹھی چارج ہوا دلتوں پر مقدمے قاٸم ہوٸے ۔سرکار نے حالات کو دیکھتے ہوٸے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف آرڈیننس جاری کردیا۔
جاٹوں کو یو پی اے نے ریزرویسشن دیا جسے سپریم کورٹ نے خارج کردیا ۔ریزرویشن کے مطالبے کو لیکر پورے ہریانہ میں کورٹ کے فیصلہ کے خلاف پر تشدد ہنگامہ ہوا ۔سرکاری و غیر سرکاری ملکیت کو نذر آتش کیا گیا ۔
١٣ پواٸنٹ روسٹر سپریم کورٹ نے لاگو کیا ۔او بی سی طبقہ نے ہنگامہ کیا ۔پارلیمنٹ میں اس کے خلاف ممبران نے آواز اٹھاٸی۔سرکار نے آرڈیننس پاس کرکے اسکو ختم کردیا ۔
یہ صرف کچھ فیصلوں کی مثالیں ہیں اگر سارے فیصلے جن کیا عوام نے مخالفت کی لکھا جاٸے تو بہت لمبی فہرست ہوگی۔
اب مسلمانوں پر آتا ہوں۔
==================
ایک بار تین طلاق کو سپریم کورٹ نے ختم کیا فیصلے سے پہلے مسلمان اس کی مخالفت کر رہے تھے فیصلے کے بعد عدالت عظمیٰ کا احترام کیا اور خاموش رہے۔اس خاموشی کی پاداش میں حکومت نے تین سال کی سزا بڑھا دی ۔۔طلاق کا معاملہ سول سوٹ تھا سرکار نے اس کو کریمنل سوٹ بنا دیا ۔اکثریتی طبقہ نے بڑھ چڑھ کر اس فیصلے کا خیر مقدم کیا جبکہ دور دور تک اس فیصلے سے اس کا کوٸی واسطہ نہیں تھا ۔مسلمان نے کہیں کہیں ہلکی سی مخالفت کی مگر سپریم کورٹ کی شان میں گستاخی نہیں کی۔

ایودھیا مسلہ بھی سپریم کورٹ نے ختم کردیا ۔سب نے فیصلہ کو تسلیم کرلیا ۔سب امن کی اپیل کر رہے ہیں ۔کسی بھی طرح کے احتجاجی مظاہرہ کے لٸیے سب نے منع کردیا ۔لیکن اگر آٸین کے داٸرے میں رہ کر سریم کورٹ کو سپریم بول کر اویسی صاحب یا مدنی صاحب یا ظفر یاب جیلانی صاحب اس فیصلے سے متفق نہیں ہیں تو اس میں غلط کیا ہے ۔آپ ہم پر اس کا ”سواگت“ کیوں سونپ رہے ہیں
 کیا ہم کسی فیصلے سے غیر مطمٸن بھی نہیں ہو سکتے۔؟کیا غیر مطمٸن ہونا بھی امن کے خلاف ہے ۔
ہم نے ہر حال میں ملک میں امن قاٸم رکھنے کی کوشش کی ہے ۔ہم نے کبھی سڑکوں پر ریزرویشن نہیں مانگا۔ہم نے کبھی ٹرینیں نہیں روکی۔ہم نے کبھی آگ زنی نہیں کی۔ہم نے کبھی پردرشن کی آڑ میں ریپ نہیں کیا ۔ہمیں دیش و دنیا کی دہشت گرد تنظیموں سے جوڑا گیا لیکن ہمارے عمل آپ نے نہیں دیکھے ۔پارک یا سڑک کے کسی کونے میں ہماری پانچ منٹ کی نماز آپوسٹ کو تکلیف دیتی ہے لیکن ہم نے کبھی سڑکوں اور چوراہوں پر بنے مستقل مندر کے خلاف کبھی کچھ نہیں کہا ۔
ہم امن پسند ہیں یہ تو ملک میں ہم ثابت کرچکے ہیں ۔ہم کمزور ہونے کیوجہ سے امن پسند ہیں یا ملک کی محبت کی وجہ سے ۔۔۔۔۔۔یہ آپ اپنی عقل سے سوچ لیجٸیے۔
(ہندی تحریر سے ترجمہ).