Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, November 21, 2019

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

از/مولانا طاہر مدنی /صداٸے وقت۔
=============================
برسہا برس سے زیر التواء مقدمے کا فیصلہ بالآخر 9 نومبر 2019 کو طویل اور صبر آزما انتظار کے بعد آہی گیا. بابری مسجد کی زمین اس فیصلے کی رو سے مندر کیلئے فراہم کردی گئی اور سنی وقف بورڈ کیلئے 5 ایکڑ زمین فراہم کرنے کی ہدایت سرکار کو دی گئی تاکہ وہاں مسجد کی تعمیر ہوسکے.
اس فیصلے پر مختلف انداز سے تبصرے ہورہے ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہے گا. شہریوں کا یہ ایک بنیادی حق ہے. بہت سارے غیر مسلم دانشوروں نے بھی فیصلے پر تنقید کی ہے اور اسے غیر منصفانہ قرار دیا ہے.
خوش آئند پہلو؛
1... اس فیصلے میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ 1528 میں بابری مسجد کوئی مندر توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی. یہ بات بہت اہم ہے کیونکہ ملک میں مسلسل یہ جھوٹ پھیلایا گیا تھا کہ یہ مسجد رام مندر توڑ کر بنائی گئی تھی.
2.. عمارت کے نیچے کھدائی میں جو ڈھانچہ برآمد ہوا، اس کے بارے میں کورٹ کا کہنا ہے کہ نہ مسجد کا ہے اور نہ ہی مندر کا..
3... یہ بھی خوش آئند بات ہے کہ کورٹ نے تسلیم کیا کہ 1949 تک نماز اس مسجد میں ہوتی رہی.
4..  عدالت نے یہ بھی کہا کہ 1949 میں غلط طریقے سے مورتی مسجد میں رکھ دی گئی اور مسجد کی حرمت پامال کی گئی.
5... یہ بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ 1992 میں غیر قانونی طریقے سے مسجد شہید کی گئی، یہ ایک مجرمانہ عمل ہے.
6.. 5 ایکڑ زمین بطور متبادل دینے کی ھدایت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وقف بورڈ کی ملکیت عدالت کی نگاہ میں ثابت ہورہی ہے اس لیے معاوضہ دیا جا رہا ہے.
7.. دفعہ 142 کے استعمال سے یہ ثابت ہورہا ہے کہ عدالت شواہد کی بنیاد پر فیصلہ لینے کی پوزیشن میں نہیں تھی.
8.. انتہائی حساس معاملے میں خلاف توقع فیصلہ آنے کے باوجود مسلمانوں نے جس صبر و برداشت کا مظاہرہ کیا اور ملک میں امن قائم رکھنے میں جو مدد کی، وہ ایک تاریخی کارنامہ ہے جسے مؤرخ بھلا نہیں سکتا.
9.. اس فیصلے کے خلاف جس طریقے سے برادران وطن نے آواز اٹھائی اور اسے غیرمنصفانہ قرار دیا، اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ ملک کا اجتماعی ضمیر ابھی زندہ ہے.
10.. عدالت نے آستھا کا سہارا لے کر یہ ثابت کر دیا کہ مقدمہ میں مسلم فریق کا پہلو مضبوط ہے.
فیصلے کے بعد...
فیصلے کے بعد دو امور بطور خاص زیر بحث ہیں، ریویو پٹیشن اور 5 ایکڑ زمین کو قبول کرنا یا مسترد کر دینا....
ریویو پٹیشن تو ایک قانونی اور آئینی حق ہے، سپریم کورٹ نے خود 9 دسمبر تک اسے داخل کرنے کا موقع دیا ہے. اس لیے اگر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اس کافیصلہ کیا ہے تو ہمیں اس کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ اس فیصلے کے نقائص اور تضادات اجاگر کیے جاسکیں اور باقاعدہ ریکارڈ پر آجائیں. آج اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو کل یہ کہا جائے گا کہ اگر فیصلہ اطمینان بخش نہیں تھا تو نظر ثانی کی اپیل کیوں نہیں کی گئی. فیصلے کو تسلیم کرنے کا یہ مطلب نہیں ہوتا ہے کہ ہم اپنےدستوری و آئینی حقوق سے دستبردار ہوجائیں. سپریم کورٹ میں متعدد معاملات میں ریویو پٹیشن داخل ہوئی ہے. جو لوگ بورڈ کے فیصلے کی مخالفت کر رہے ہیں، ان کا موقف کمزور ہے. یہ کہنا کہ اس سے امن و امان متاثر ہوگا بالکل غلط اور بے بنیادبات ہے، آئین اور دستور کی روشنی میں کوئی اقدام نقض امن کا سبب نہیں ہوتا ہے. امن و امان اس وقت متاثر ہوتا ہے جب لوگ قانون اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں اور انتظامیہ تماشائی بنی رہتی ہے.
5 ایکڑ زمین کی پیش کش کو مسترد کرنے کا فیصلہ بھی بورڈ نے بہت دور اندیشی کے ساتھ کیا ہے. اگر اسے قبول کرلیا گیا تو یہ سودا بازی ہوگی اور تاریخ میں لکھا جائے گا کہ مسلمانوں نے 5 ایکڑ زمین کے بدلے تاریخی بابری مسجد کو بیچ دیا، آنے والی نسلیں، ہم پر تھوکیں گی کہ ہمارے پوروج اتنے گئے گزرے تھے کہ اللہ کے گھر کا سودا کرلیا. مسجد کی جگہ ناقابل تبدیل ہے، وہ وقف للہ ہے، اس پر کوئی سودا بازی نہیں ہوسکتی. آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور جمعیت علماء ہند سمیت تمام تنظیموں نے اس خیرات کو مسترد کرنے کی بات کہی ہے، اس کے باوجود اگر وقف بورڈ اسے قبول کرتا ہے تو یہ مسلمانوں کے زخم پر نمک پاشی ہوگی اور ایسی جگہ بننے والی مسجد میں نماز پڑھنے کیلئے کسی غیرت مند مسلمان کا دل گوارا نہ کرے گا.
اس فیصلے کا انتہائی خطرناک پہلو یہ ہے کہ ایک غلط نظیر قائم ہورہی ہے، اس ملک میں اگر آستھا اور آثار قدیمہ کے محکمہ کی مشکوک رپورٹس کی بنیاد پر فیصلے ہوں گے تو کوئی عبادت گاہ محفوظ نہیں رہے گی. اس لیے اس کے خطرناک عواقب و مضمرات سے لوگوں کو آگاہ کرنا بہت ضروری ہے.
فیصلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اس قانون کا اس میں تذکرہ ہے جو ملک میں عبادت گاہوں کی 1947 کی پوزیشن کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے. کچھ تنظیمیں اس ملک میں گڑے مردے اکھاڑنے کے کام میں لگی ہوئی ہیں، سیاسی مقاصد اور ووٹوں کے پولرائزیشن کیلئے منصوبہ بند طریقے سے کام کرتی ہیں اور بنیادی عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے جذباتی مسائل کا سہارا لیتی ہیں، مذکورہ قانون ایسی طاقتوں کے منصوبوں کو ناکام بنا سکتا ہے اگر حکومت ذمہ دارانہ ایکشن لے.
اطمینان کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے آخری حد تک اللہ کے گھر کو بچانے کی کوشش کی اور اب جو آخری قانونی آپشن بچا ہے، اسے بھی استعمال کرنےجارہے ہیں، امید ہے 6 دسمبر سے قبل ہی ریویو پٹیشن داخل ہوجائے گی. بابری مسجد کے یوم شہادت پر مسجد شہید کرنےوالوں کی جلد از جلد  سزا کا مطالبہ پوری قوت سے ہونا چاہیے کیونکہ اب تو سپریم کورٹ نے بھی کہ دیا ہے کہ مسجد کو گرانا مجرمانہ عمل ہے.
وہ تمام تنظیمیں، ادارے اور افراد شکریہ کے مستحق ہیں جنہوں نے پوری محنت اور طاقت سے کیس کی پیروی کی اور محاذ پر ڈٹے رہے، اللہ جزائے خیر سے نوازے. آمین
اس وقت ہمارے کرنے کے کام کیا ہیں؟
1.. قضیہ بابری مسجد کے تعلق سے مسلمانانِ ہند کا باوقار ادارہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ جو بھی فیصلہ کرے اور جو بھی اسٹینڈ لے، ہمیں پورے طور سے ساتھ دینا چاہیے اور بھانت بھانت کی بولیاں بولنےوالوں کو گھاس نہیں ڈالنی چاہیے.
2.. مساجد کو آباد رکھنے کی پوری کوشش ہمارے ایمان کا تقاضا ہے، اگر پڑوس کی مسجد ہم آباد نہ کریں تو دیگر مساجد کی حفاظت کیسے کر سکیں گے.؟
3..  امت کی اصلاح اور اسے اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالنا بہت ضروری ہے کیونکہ دنیا ہمیں دیکھ کر ہمارے دین کے بارے میں رائے قائم کرتی ہے.
4..  برادران وطن سے مضبوط تعلقات رکھنا بہت ضروری ہے، ان کی غلط فہمیاں دور کرنی ہے اور درد مندی کے ساتھ ان تک اسلام کا پیغام رحمت پہونچانا ہے.
5... خدمت خلق کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جائے اور بلا تفریق مذہب و ملت سب کی مدد کی جائے، کیونکہ بندوں کے حقوق کی ادائیگی ضروری ہے.
6... قرآن مجید کا وسیع پیمانے پر تعارف کرایا جائے، یہ رب العالمین کا کلام ہے جو سارے انسانوں کی ھدایت کے لیے نازل ہوا ہے.
7... سیرت رسول کو پیش کیا جائے، کیونکہ آپ رحمت عالم بن کر تشریف لائے تھے اور آپ کا اسوہ حسنہ سب کے لیے مشعل راہ ہے.
8.... علم کی روشنی عام کی جائے کیونکہ جہالت ہی تمام بیماریوں کی جڑ ہے.
9.. قیام عدل و قسط کیلئے جدوجہد کی جائے اور مظلوموں کے حق میں آواز اٹھائی جائے.
10... امت کے حوصلے کو پست نہ ہونےدیا جائے اور توکل کی صفت پیدا کی جائے.
طاہر مدنی، 22 نومبر 2019