Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, November 5, 2019

حالات حاضرہ اور مسلمانوں کے کرنے کا کام !!!



از/ ٹی یم عبد الروف خالد وانم باڑی /صداٸے وقت۔۔بذریعہ مولانا طاہر مدنی۔
==============================
حالات حاضرہ اور مسلمانوں کے کرنے کا کام 
یہ ایک  ایسا زندہ جاوید موضوع ھے جو ہر جگہ اور ہر زمانے میں سنجیدہ لوگوں کا موضوع غور و فکر رہا ھے۔ 
آج یہ موضوع اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہوگیا ھے کہ
 کیا سنجیدہ  ، کیا غیر سنجیدہ 
کیا پڑھے لکھے ،  کیا ان پڑھ 
کیا غریب، کیا امیر 
کیا مرد ، کیا عورت 
سب کا موضوع گفتگو اور موضوع بحث بن چکاہے 
اب ہم کو دیکھنا یہ ھے کہ وہ حالات کیا ہیں 
جس کی وجہ سے سب  اس موضوع پر 
غور وفکر کر رہے  ہیں ۔
آج ہندوستانی مسلمان تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں ۔
آج ہندوستانی مسلمان خوف ، اضطراب، پریشانی، کشمکش اور بے اطمینانی کے ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں 
آج ان کے جان، مال، عزت، آبرو کوئی چیز بھی  محفوظ نہیں ھے  ۔
فسادات میں جن لوگوں پر قتل کا الزام ھے ایسے لوگوں کو بھی وزرات سے نوازا جارہا ہے 
جس کی وجہ سے مجرموں  کی ہمت اور بڑھ رہی ھے ۔ اور نئے لوگوں کو جرم کرنے کے لئے  شہ مل رہا ہے ۔
آج ظلم کی انتہا یہ ہے کہ  ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم قرار دیا رہا ہے ۔
دادری کا واقعہ ہمارے سامنے ھے ۔ اخلاق نامی شخص کو قتل کردیا گیا ۔  قاتل کو معصوم بتانے اور اس کو  بچانے کی کوشش کی جارہی ھے۔ اور اخلاق کے رشتے داروں کو مختلف الزامات میں پھنسایا جارہا ھے ۔
مسلمانوں کو ورغلا نا، ا ن کواشتعال دلانا اور ان کے جذبات سے کھیلنا   دشمنان اسلام  کا
 دن رات کا مشغلہ بن گیا ھے۔
اسلامی تعلیمات اور احکامات کو ختم کرنے کے لئے  عدلیہ اور قانون ساز اداروں میں مسلمانوں کے نقطہ نظر کو خاطر میں نہیں لایا جارہا ھے ۔ طلاق ثلاثہ کے مسئلہ میں سب کو معلوم ھے کہ کس طرح عدالت  عالیہ  کی ہدایت پر  پارلیمنٹ میں  اسلامی تعلیمات  کے علی الرغم  قانون بنایا گیا ۔
 پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کو اکثریت حاصل ھونے کے بعد سے  مسلمانوں میں مایوسی ، بزدلی اور احساس کمتری  کی  کیفیت میں زبردست اضافہ ھو تا جارہا  ھے  ۔ دہشت گردی کے الزامات میں مسلسل گرفتاری جاری ھے  اور mob lynching جیسے واقعات میں مسلمانوں کو خصوصی نشانہ بنایا جارہا ھے 
ان تمام حادثات کی وجہ سے  مسلم نوجوانوں کے ذہنوں میں سوالات اٹھ رہے ہیں کہ
 ہم اہل ایمان ہونے کے باوجود ہمیں کیوں مسلسل آزمایا جارہا ہے ۔  شک و شبہ اور دین سے بے اعتمادی  کے سلسلے کا آغاز ہوچکا ہے ۔ مزید ملت احساس  مظلومیت کے نفسیات کا شکار ھوتی جارہی ھے۔جس کے نتیجے میں ملت کے اندر  خود احتسابی کے بجائے ہر کمزور ی کو  مخالفین کی ریشےدوانی گردانا جایا جارہا ھے 
 اور دوسروں کو دینے کے بجائے دوسروں سے مطالبے کا رویہ پیدا ھوتا جارہا ھے ۔ ضرورت ھے کہ  امت کو  احساس مظلومیت کے نفسیات کے پھندے سے  نکال کر انہیں  خیر امت کی حیثیت سے  ذمہ داری ادا کرنے کی جانب توجہ دلائی جائے  ۔ تاکہ ان کو دوسروں سے  لینے کے بجائے انسانیت کو کچھ دینے کا جذبہ اور ارادہ پیدا ہو 
اس ضمن میں بہت ساری باتیں ھو سکتی ہیں ۔ ان میں سے صرف چند ایک اہم باتوں  کی طرف اشارہ کیا جارہا ھے ۔


1 ) امت کو بزدلی اور پست ہمتی سے نکالنے کی ضرورت ھے۔ اس کے لیے ہمیں 
 انعام اور آزمائش کے سلسلے میں اللہ تعالی کی سنت کیا ھے اسے سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ھے۔
نعمتیں،  آسائش، جزا، یہ سب اہل ایمان کو جنت میں دیا جائے گا ۔
جہاں تک اس دنیا کا معاملہ ھے ۔ اہل ایمان کو آزمائش کے ذریعے سے ان کے ایمان اور اسلام کا امتحان لیا جاتا ھے۔ یہ صرف آج کے دور کی بات نہیں ۔ بلکہ اول دن سے اللہ تعالی کی یہ سنت رہی ھے کہ اہل ایمان کو خوف ، بھوک ، مال اور جان اور ثمرات کے نقصانات سے
آزمایا جاتا ھے۔ ولنبلونکم بشی من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرات
( بقرہ ۱۵۵)
قرآن و حدیث میں انبیاء کرام کی سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ
آزمائش کی جتنی شکلیں ہوسکیتں ہیں ۔ ان سب سے انبیاء کرام کو گزارا گیا  ۔ تاکہ امت 
کو  ان کی زندگیوں سے رہنمائی حاصل ھو۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو غیروں نے ستایا۔تو حضرت عیسی علیہ السلام کو اپنوں نے ستایا ۔ حضرت موسی علیہ السلام کو غیروں
 اور اپنوں نے دونوں نے ستایا۔ اللہ کے رسول 
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا کچھ معاملہ کیا گیا ان سے سب ہم واقف ہیں صحابہ کرام کو بھی آزمائش کے دور سے گزرنا پڑا۔ مکہ نہیں بلکہ مد ینہ جہاں اسلامی ریاست قائم ھوچکی تھی اس  کے تعلق سے 
حضرت عمر فاروق رضی اللہ کہتے ہیں کہ ہم مدینہ میں راتوں میں  اپنے بستر کے ساتھ تلوار رکھ کر سوتے تھے کیونکہ ہمیں خوف رہتا تھا کہ کہیں دشمن رات میں ہم پر دھاوا نہ بول دے۔ 
صحابہ کے بعد تابعین،  تبع تابعین،  ائمہ کام  سب کو آزمائش سے دوچار کیا گیا ۔
امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کو قید کیا گیا اور وہیں ان کو  زہر دے کر شہید  کیا گیا ۔
الغرض سارے ہی اہل ایمان کو کسی نہ کسی پہلو سے آزمائش سے دوچار کیا جاتا ھے ۔ آزمائش اور مشکلات کی کیا شکل ھو اور ان کی کیفیت اور کمیت کیا ھو ۔ یہ اللہ کی
 مرضی پر موقوف ھے۔ مزید یہ بات بھی واضح ھو کہ مشکلات اور مصائب عذاب نہیں ۔ بلکہ آزمائش اور امتحان ھے ۔ آزمائش اور امتحان  کے یہ وہ اسلامی  تصورات ہیں جو ہم سے پست ہمتی،  بزدلی،  مایوسی دور کرتا ھے۔اور ہمارے اندر بلند ہمتی، نڈر ،  حوصلہ مند اور
 پر امید بناتا ھے۔ جو اس وقت مسلمانوں کی سخت ترین ضرورت ھے۔ 

2)  آزمائش کے اوقات میں ہمیں حکم دیا گیا ھے کہ واستیعنوابالصبر والصلوتہ 
صبر اور نماز سے مدد لی جائے 
 صبر کا مطلب صرف  مشکلات کو برداشت کرنا نہیں  ھے ۔ بلکہ  ایمان اور اسلام پر استقامت کے ساتھ قائم رہنا بھی ھے ۔
اگر صبر کا مادہ نہ ھو تو ایمان پر قائم رہنا 
بھی مشکل ھوجائے گا ۔
یہاں نماز سے مراد فرض نماز نہیں بلکہ نفل
 نماز یں مراد ہیں  ۔ نماز کے تصور میں دعا شامل ھے لہذا   نوافل نمازوں کی مدد سے آزمائش کو دور کرنے اور آزمائش سے پناہ ما نگنے کے لیے دعا کرتے رہنی  چاہئے ۔

3) اللہ تعالی کسی بھی انسان کو اس کی مقدرت اور قوت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا ۔ لا یکلف اللہ نفسا وسھا 
اللہ تعالی کی طرف سے یہ یقین دہانی خود مسلمانوں کو ہمت باندھنے کے لئے کافی ھے 

4) ۔ اس میں شک نہیں کہ ھندوستان میں مسلمانوں کے لئے حالات بہت سخت ھیں ۔لیکن ان حالات کا موازنہ دوسرے ممالک جیسے مینمار،  افغانستان، سیریا،  یمن، عراق، وغیرہ  سے کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حالات  نسبتا یہاں  بہت بہتر ہیں ۔ اس کے لئے  ہم کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے ۔ 

5)  مسلمانوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے کے لیے NRC استعمال کیا جارہا ھے۔ 
دنیا کے دو سو ملکوں میں 191 ملکوں میں NRC یا اسکے مساوی شناختی کارڈ رائج  ھے۔ تمام مسلم ممالک میں NRC یا اسکا متبادل موجود  ھے۔ صرف ھندستان،  برطانیہ، آسٹریلیا،  نیوزی لینڈ اور چند ایک ممالک میں نہیں ھے۔ internal security کے لئے یہ ایک ملکی ضرورت ھے۔ لہذا اس کی مخالفت نہیں کرنا ھے ۔ دیر یا سویر NRC  پورے ملک میں آنے والا ھے۔ البتہ اس کے لئے  آج ہی سے تیاری کرنی ھے۔
ہمارے تمام دستاویزات مثلا  راشن کارڈ،  ادھار کارڈ، پاس پورٹ اور الیکشن شناختی کارڈ ، driving licence میں نام پتہ اور دوسرے ضروری تفصیلات میں صحیح درج ھو ان سب میں  یکسانیت synchronise لانا ھے  جب یہ کام ھوجائے گا تو خود بخود NRC کا دھاچک دل سے نکل جائے گا ۔اور دوسروں کو استحصال exploitation کا موقع نہیں ملے گا ۔ تاہم یہ بات بھی ذہنوں میں رہنی چاہیے کہ ماضی کی قوموں نے انبیاء کرام تک کو اس بات کی دھمکی دی تھی کہ تم کو ہماری ملت میں 
واپس آنا ھوگا ورنہ تم کو  ملک بدر کردیا 
جائے گا یا تم  قتل کردئے جاو گے ۔ 

6)   آزمائش کے رد عمل میں بسا اوقات غیر قانونی ، تخریبی اور خفیہ سازشی کاموں کا خیال پیدا ھوسکتا ھے۔ انسانی تاریخ کا تجربہ ھے کہ اس طرح کے کاموں  میں  فائدہ سے زیادہ نقصان ھوتا ھے۔ لہذا ایسے حرکات سے مکمل طور پر پرہیز کرنا چاہئے ۔ سن 1993 ممبئ کے فسادات کے بعد جو بم دھماکے ھوئے ۔ ان کے منفی اثرات آج تک بھی ہیں ۔ اور ان دھماکوں میں جو معصوم مارے گئے۔ اس کے لیے دھماکہ کرنے والوں کو اخرت میں جواب دہی بھی کرنی ھے ۔

7) ۔ اشتعال انگیزی کے وقت قوت برداشت کا مظاہرہ  ھونا چاہیے ۔  منافقون کے سردار عبداللہ ابی ابے کے کارستانیوں کے باوجود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
 اسے خاموشی کے ساتھ برداشت کرتے رہے ۔
 یہ بزدلی نہیں ہے ۔ بلکہ long term فائدہ پہنچانے والا موقف strategy ھے 

 8)  حالات کا ایک رخ یہ ھے کہ  مسلمانوں کے لیے رکاوٹیں اور مشکلات بہت زیادہ ہیں ۔ حالات کا دوسرا رخ یہ ھے کہ اسی وقت ہمارے لئے  مواقع opportunities بھی بہت زیادہ ہیں اج اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں کے مسائل print media, electronic media اور social media کے موضوع بحث بن چکے ہیں ۔ ایسے میں دعوت اسلامی کے لیے راہیں آسان ھو گئی ہیں ۔ اس طرح کے مواقعوں  سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی ضرورت ھے۔

9)   آج ھندو مسلم کشمکش کو کم کرنے کی ضرورت ھے۔ اس کے لیے ان سے زیادہ سے زیادہ روابط بڑھانے کی ضرورت ھے  
 اللہ کے رسول حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے پہلے مکہ میں حلف الفضول نام ایک انجمن  بنایا گیا تھا ۔ اس انجمن کا مقصد مظلوموں کو ان کا حق دلوانا تھا ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس انجمن سے وابستہ تھے۔ 
بنوت کے بعد مدینہ میں ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا 
کہ اسطرح کا کوئی ادارہ آج  بنایا جاتا تو میں اس میں ضرور شریک رہتا  ۔ 

اس کے لئے  common issues پر common plateform کے ذریعے برادران وطن سے زیادہ سے زیادہ روابط بڑھانے کی کوشش کی جائے ۔
مسلمان بالعموم اپنے ہی مسائل سے دلچسپی لیتے ہیں ۔ جیسا کہ مسلم پرسنل لاء کا مسئلہ،  اردو زبان کا مسئلہ،  علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا مسئلہ وغیرہ وغیرہ ۔ 
سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو ملکی اور انسانی مسائل سے دلچسپی لینے اوران کے حل کے لئے کوشش کرنے کی ضرورت ھے۔ یہ صرف وقت کی ضرورت ہی نہیں بلکہ دین کا تقاضا بھی ھے 

10) حضرت یوسف علیہ السلام بادشاہ عزیز مصر  وقت سے کہتے ہیں کہ میرے ذمہ ملک کا مالیات کا شعبہ حوالہ کرے۔ میں امانت دار بھی ھوں اور علم بھی رکھتا ہوں ۔ اور بادشاہ وقت ان کے کردار اور صلاحیتوں سے متاثر ہوکر  ملک کی باگ ڈور ہی حوالے کردیتا ھے۔ سیرت یوسف علیہ السلام سے یہ سبق ملتا ھے ہم کو ریاست اور  ملکی policies میں intervene ھونا ھے ۔ اس کے لئے مسلمانوں کو اپنی سیرت اور اپنی صلاحیتوں کو  اونچا اٹھانے کی ضرورت ھے۔ ھر دن حکومت کی جانب سے کوئی نہ کوئی پالیسی کا اعلان ھوتے رہتا ھے۔ ان سب میں اسلامی اور میانہ روی کا نقطہ نظر پیش کرنا ھے۔ 

11)  سماج میں تبدیلی لانے کے لیے دینی جماعتیں صرف تعلیم اور روحانی پہلو کی طرف توجہ دے رہے ہیں ۔ درنحالکہ 
 اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ھجرت کے بعد مدینہ میں روحانیت کے لئے مسجد نبوی، تعلیم کے لئے اصحاب الصفہ اور معاش کے لئے مدنیہ مارکیٹ قائم کیا۔ سیرت کے اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے روحانیت اور تعلیم کے ساتھ معاش کو بھی یکساں اہمیت دی تھی ۔ 
اتباع سنت کا تقاضا ھے کہ  سماج اور ملک  میں مطلوبہ تبدیلی لانے کے لئے زندگی کے مختلف شعبوں میں سے ان تین محاذ پر  ترجیحی priority طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے . 

12)  امت کے درمیان  ایک ایسا ادارہthink tank  بھی ھونا چاہیے جو  ملک کے مستقبل میں  متوقع سیاسی حالات،  تہذیبی و ثقافتی یلغار ،  تہذیبی ارتداد کے نت نئے نئے راستوں کی نشاندہی کرکے امت کی صحیح رہنمائی کرے۔

13)  موجودہ حکومت کے ہر کام کے تعلق سے بہت زیادہ بد گمانی کرنے اور منفی انداز اختیار کرنے سے بچنا چاہیے  ۔ حکومت کی پالیسیوں کا مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں سے جائزہ لینا ھے۔ مثلا swatch bharat کا اسکیم ھے ۔ پاکی صفائی کے لئے بہت ہی اچھا اسکیم ھے ۔ اس طرح کے پروگرام میں حصہ لینا چاہیے 

 14)  کھیل کود اور فنون لطیفہ کو دینداری کے خلاف سمجھا جاریا ھے ۔ جس کی وجہ سے نوجوان نسل دین سے قریب آنے سے کتراتا ھے درنحالیکہ سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کے درمیان  دوڑ کا مقابلہ ھوتا تھا ۔ گھوڑا سواری اور تیراک سیکھنے کی تاکید ھے۔ اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ
 بی بی آئشہ رضی اللہ عنہا کو کرتب بتائے تھے۔ شادیوں  میں دف بجانے کا رواج تھا۔ خود اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی پاکیزہ شعر و شاعری سے دلچسپی لیتے تھے 
لہذا sports, entertainment,  اور اسلامی ادب ، فنون لطیفہ کے میدانوں  میں کام کرنے کی ضرورت ہے ۔اور ان کو اسلامی رخ دینے کی ضرورت ہے ۔ فنون لطیفہ زندگی کا ایک اہم شعبہ ھے ۔ جس کے اثرات پوری زندگی پر پڑتے ہیں ۔ اس کو نظر انداز کرنے ہی کے نتیجے میں  دوسروں کو فائدہ اٹھانے  اور ملت کو بگاڑنے کا پورا موقع ملا ۔  ماضی کی طرح  اس غلطی کا دھرانا نہیں ھے ۔

15) ملت کے اندر اتحاد کو پیدا کرنا اور اس کو قایم رکھنا فرض کا درجہ رکھتا ھے۔ جیسا نماز فرض ھے روزہ فرض ھے اسی طرح اتحاد برقرار رکھنا بھی فرض ھے ۔ آج ملت کے اندر جتنی جماعتیں ہیں ۔ سب کو معلوم ھونا چاہیے کہ سب کے تعاون اور اشتراک ہی سے سماج اور ملک میں  مطلوبہ تبدیلی آسکتا ھے۔ کسی ایک جماعت سے مطلوبہ تبدیلی لانا 
نا ممکن اور محال  ھے۔ لہذا سب کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے کاموں کو قدر کی نگاہ سے دیکھے 

16)  نیک کاموں میں تعاون کرنا   اور برائیوں سے روکنا بھی امت کا بنیادی فریضہ ھے۔ دونوں کام بیک وقت کرنے کا حکم ھے۔
 افراط و تفریط سے بچ کر اعتدال کی راہ اختیار کرنا ھے۔ ورنہ امت کا اتحاد اس سے متاثر ھوگا۔ اتحاد کی خاطر برائیوں کو برداشت نہیں کرناھےاور برائیوں سے  مصالحت بھی  نہیں کرنا ھے ۔ مگر  برائیوں سے عدم تعاون نیکیوں کے ساتھ  تعاون کے لئے  رکاوٹ نہیں بننا چاہیے ۔ بھٹکے ھوئے لوگوں کی اصلاح ان سے الگ ہونےاور کٹ جانے  سے نہیں بلکہ ان کے اچھے کاموں میں تعاون کرنے سے بھی ھو سکتا ھے ۔ 

17)  امت  جو بھی کام کرے اسے ہمہ جہتی انداز سے کرے۔ مخصوص پہلوؤں سے کام کرنے سے معاشرے میں جزوی تبدیلی ہی آسکتا ھے  کلی تبدیلی نہیں آسکتا ھے ۔  جبکہ اسلام کو کلی تبدیلی مطلوب ھے ۔ ادخلو فی السلم کافہ یعنی پورے کے پورے اسلام میں داخل ھو جاؤ 
لہذا فرد اور دینی جماعتوں کے کام کا خاکہ اسی انداز سے ہونی چاہئے 
 اپنی اصلاح،  ملت کی اصلاح اور حکومت کی اصلاح  یہ تینوں کام بیک وقت کرنے کی ضرورت ھے۔ اپنی اصلاح کے کام سے سب کو اتفاق ھے۔ ملت کی اصلاح کے کاموں سے اکثریت کو اتفاق ھے۔ جہاں تک حکومت کی اصلاح کا مسئلہ ھے اکثر یہ سمجھتے ہیں
 کہ یہ ہمارے بس کی بات نہیں ھے اس لئے
 یہ ہمارا کام نہیں ھے۔ عمل قوم لوط کو 
سپریم کورٹ نے decriminilise کردیا ۔
 کیا یہ ہماری ذمہ داری نہیں ھے کہ اسکی اصلاح کرے ۔ بس  یہ ایک مثال ھے۔ اور پچاسوں مثالیں دی جاسکتی ہیں ۔

18) اسلام صرف اخروی نجات کا ضامن نہیں ھے بلکہ دنیاوی زندگی کے مسائل کا بہترین اور واحد حل بھی ھے۔ اسلام کو اس حثیت سے دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے 

19)   یہ بات ذہنوں میں تازہ رہنی چاہیے کہ اسلام کی دعوت اور اسلام کا پیغام افاقی ھے۔ اللہ تعالی رب العالمین ھے۔ اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم رحمتہ للعالمین ھے قرآن ھدی للناس ھے۔ 
لہذا دوسروں کو یہ بات بتانے کی ضرورت ھے کہ جس خدا پر ہم ایمان لائے ہیں ۔وہ صرف مسلمانوں کا خدا نہیں ۔ بلکہ ان کا خدا بھی ھے
 ہم۔جس رسول پر ایمان لانے ہیں ۔ وہ صرف مسلمانوں کے رسول نہیں بلکہ رحمت العالمین ہیں ۔ اور ہم جس کتاب پر ایمان لانے ہیں ۔ وہ صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ ھدی للناس ھے ۔ 

20)  ملت کے اندر اتحاد  پیدا کرنے کے لئے بہترین ذریعہ شہر کی سطح پر مساجد کا ایک وفاق ھو ۔ اگر شہر بہت بڑا ھے تو علاقائی سطح پر  سو سو مساجد پر مشتمل وفاق بنایا جائے ۔ ہر دو تین ماہ میں  مساجد کے ذمہ داروان مل بیٹھے اور مقامی حالات کا جائزہ لیکر مقامی کام کا خاکہ بنائے ۔ اس سلسلے میں شہر کی جامع مسجد یا بڑی مسجدوں یا شہر کی سماجی کارکنوں کو پہل کرنے کی ضرورت ھے۔ بعض مقامات میں اس کا ڈھیلا ڈھالا نظم ھے جو صرف رویت ھلال کی حد تک ھے ۔ اس کے کاموں کے دائرے کار کو وسعت دینے کی ضرورت ھے۔ جیسے  رسوم ورواج کا اصلاح کا  معاملہ ھے ۔ تصفیہ اور کونسلنگ کا معاملہ ھے 
اس کے اصول اور ضوابط بناکر محلہ کی مسجد کمیٹی کے ذریعے سے نافذ کرسکتے ہیں
علاوہ ازیں  
محلہ کے مسجد کی انتظامیہ کمیٹی بلعموم مسجد کی نظم و نسق تک محدود ہوگئی ھے۔ محلہ کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں لیتے 
۔اس رویہ کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔ اور عوام کے مسائل کو ممکنہ حد تک حل کرنے کی کوشش کرنا ھے ۔ عوام کے مسائل کو جاننے اور اس کے لئےعوام سے رابطہ قائم کرنے کے لیے مسجد انتظامیہ کمیٹی کے علاوہ ایک اور  کمیٹی عوام سے رابطہ اور تبادلہ خیال کے لئے  پانچ سات افراد پر مشتمل بنائی جائے اور یہ کمیٹی  ہر ہفتے لازما  متیعنہ دن اور متیعنہ وقت پر بیھٹک کرے اور محلہ کے اراکین سے تبادلہ خیال کرے۔ اور اس کمیٹی کی تشکیل کا  باقاعدہ  اعلان مسجد کے نوٹس بورڈ پر ھو ۔ اور اراکین سے درخواست کی جائے کہ وہ محلہ کے مسائل کو اس کمیٹی کے سامنے پیش کر یں 

اللہ تعالی ہم سب کو حالات حاضرہ میں   صحیح موقف اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ امین ۔