Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, November 15, 2019

بابری مسجد کا فیصلہ اور ہماری ذمے داریاں!!!.


*سید سعادت اللہ حسینی ، امیر جماعت اسلامی ہند*/صداٸے وقت۔
==============================
(بابری مسجد کے فیصلہ کے فوری بعد ۹ نومبر کی شام مرکز جماعت میں کیے گئے خطاب کا ٹرانسکرپٹ ہے)

اس وقت بابری مسجد سے متعلق سپریم کورٹ کا جو فیصلہ آیا ہے۔ یہ فیصلہ ہم سب کے لیے  انتہائی،تکلیف اور مایوسی کا باعث  ہے۔سپریم کورٹ میں جس طریقہ سے کیس رکھا گیا تھا،جس قدرمضبوط دلائل و شواہد پیش کیے گئے تھےاورجس طرح  سے ہمارے وکلاء نے اس مقدمہ کی پیروی کی تھی،اس سے ہم سب کو توقع اور غالب امید تھی کہ فیصلہ بابری مسجد کے حق میں آئے گا۔
مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا ۔ یہ بات صحیح ہے کہ مسلمانوں نے پہلے روز سے یہ بات کہی ہے کہ وہ عدالت کا فیصلہ تسلیم کریں گے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، جو مسلمان ابھی کہہ رہے ہیں یا حکومت کی تبدیلی کے بعد سے یہ بات کہہ رہے ہیں، بلکہ جب سے یہ مقدمہ چل رہا ہے ،اس وقت سے ہی مسلمانوں کا موقف یہی ہے کہ ’’سپریم کورٹ جو فیصلہ کرے گا ۔ اس کا احترم کریں گے ،اسے قبول کریں گے۔‘‘

سپریم کورٹ کے فیصلے کے احترام کی بات اس لیے کہی گئی ہے کہ رول آف دی لا (قانون کی حکم رانی) کی بڑی اہمیت ہے۔ کوئی بھی معاشرہ قانون کی حکم رانی کے بغیرامن کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ اسلام بھی فتنہ و فساد کو پسند نہیں کرتا  اور قانون کی حکم رانی کے بغیر فتنہ و فساد کا تدارک نہیں ہو سکتا ۔معاشرہ میں امن قائم نہیں رہ سکتا ۔

 ہم فتنہ و فساد کو پسند نہیں کرتے ، اسلام بھی فتنہ و فساد کو پسند نہیں کرتا اور نہ لاقانونیت کو پسند کرتا ہے۔اسی لیے ہم نے یہ کہا تھا کہ ہم امن کے ساتھ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے دلائل کے ساتھ اپنی بات رکھیں گے اور سپریم کورٹ جو فیصلہ دے گا ہم اس کا احترام کریں گے۔ اس لیےسپریم کورٹ کے فیصلے کے احترام کی بات پر ہم آج بھی قائم ہیں۔حتمی طور پر جو فیصلہ ہوگا ، اس کا احترام کیا جائے گا وہی نافذ ہوگا ۔ 

مگر فیصلے کے احترام کا مطلب یہ  ہر گز نہیں ہے کہ ہم صدفی صد  اس سے اتفاق کریں ۔اس فیصلہ میں جو غلط باتیں ہیں ، ان سے ہم اختلاف کریں گے اور اس اختلاف کا اظہار بھی کریں گے۔یہ ہمارا جمہوری حق ہے۔سپریم کورٹ یا ملک کا قانون بھی یہ نہیں کہتا کہ آپ ہر حالت میں سپریم کورٹ کی باتوں پر ایمان لے آئیں ۔فیصلے کے خلاف کوئی کام یا عملی اقدام  آپ نہ کریں یہ قانون کا مطالبہ ہے، ہم اس مطالبے پر عمل  کریں گے، فیصلہ کی خلاف ورزی نہیں کریں گے ۔ لیکن فیصلے میں جو نقائص ہیں ، جو کمزوریاں ہیں ، ان کم زوریوں کا اظہار بھی کریں گے۔سپریم کورٹ کے ایک  سابق جج جناب ورما صاحب ، کا قول اس وقت  میڈیا میں نقل کیا جارہا ہے  کہ ’’سپریم کورٹ سپریم ہے، وہ معصوم عن الخطا یا غلطیوں سے پاکinfalliable نہیں ہے۔غلطی اس سے ہو سکتی ہے۔‘‘ ہم سمجھتے ہیں کہ اس فیصلے میں بہت ساری غلطیاں ہیں، بہت ساری کم زوریاں ہیں۔ جس طریقہ سے ٹائٹل سوٹ یعنی مقدمہ ملکیت کا فیصلہ کیا گیا ہے وہ انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ساتھ ہی فیصلے کے تفصیلی بیان  میں بہت ساری باتیں ایسی بھی ہیں، جو مسلمانو ں کے موقف کی تائید کرتی ہیں۔ خاص طور پر جو ڈبیٹ اور گفتگو، اس طویل عرصہ میں بابری مسجد کے حوالے سے چلی ہے اور جس کی بنیاد پر  ایک تاریخی بیانیہ یا ہسٹوریکل ڈسکورس کھڑا کرنے کی کوشش کی  گئی ہے، سپریم کورٹ نے اس معاملے میں مسلمانوں کے موقف کی تائیدکی ہے۔ مثلاً اس پورے فیصلے کی سب سے اہم بات جو فرقہ پرستوں  کے پورے نریٹیو کو ڈھیر کرتا ہے وہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے یہ کہا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ بابری مسجد مندر توڑ کر بنائی گئی۔ 

میں سمجھتا ہو ں کہ یہ غیر معمولی طور پر اہم  بات ہے ۔ اس سےہم تاریخ کی بحث  کا پورا دھارا موڑ سکتےہیں۔ عدالت نے فیصلہ دے دیا ہے ،لیکن ملک کی ضمیر کی عدالت کے سامنے آپ تفصیلات رکھ سکتے ہیں۔ اپنا موقف بیان کر سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بہت وضاحت کے ساتھ یہ بات کہی ہے کہ مندر توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی۔ اس کا کوئی ثبوت ،کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔اس فیصلہ کے مطابق، اس زمین کے نیچے سے اسٹرکچر ضرور برآمد ہوا ہے مگر وہ اسٹرکچر کیا ہے؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔ وہ اسلامی اسٹریکچر نہیں ہےلیکن اس کے بھی شواہد نہیں ہیں کہ وہ ہندو اسٹرکچر ہے۔فیصلہ میں یہ بات بھی واضح طور پر کہی گئی ہے کہ یہ اسٹرکچر بارہویں صدی کا اسٹرکچر ہے، جب کہ بابری مسجد سولہویں صدی میں بنی ہے۔بارہویں سے سولہویں صدی کے درمیان چار سوسال کے دوران یہاں کیا تھا ؟ اس کا کوئی تاریخی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ اس لیے یہ بات رول آوٹ ہے، اس کی کوئی شہادت موجود نہیں ہے کہ مسجد مندر توڑ کر بنائی گئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت اہم بیان ہے اور خاص بات ہے۔ اس سے وہ تاریخی بیانیہ جسے یہاں کے فسطائی اور فرقہ پرست عناصر کھڑا کرنا چاہتے تھے اس کی پر زور تردید ہوتی ہے۔ ہمیں اسے بھرپوراستعمال کرنا چاہیے اور  ملک کے عوام کے سامنے یہ بات واضح طور پرلانا چاہیے ۔ 

اسی طرح 1949 میں مورتیاں رکھنے کے عمل کے بارے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ بالکل غلط عمل تھا ۔ یہ توہین آمیز اور مجرمانہ فعل تھا۔ اسی طرح 1992 میں مسجد کو گرادینے کا عمل بھی مجرمانہ عمل تھا ۔ ایک بڑی اہم بات  یہ کہ مذہبی عبادت کے مقدمات سے متعلق قانون ۱۹۹۱ The Places of Worship (Special Provisions) Act, 1991] ] ہمارے ملک کی پارلیمان نے برسوں پہلے منظور کر رکھا ہے۔اس قانون کے تحت یہ بات کہی گئی ہے کہ 1947میں مذہبی مقامات کی جو حیثیت تھی وہی باقی رہے گی،سوائے بابری مسجد کے۔ کیوں کہ بابری مسجد کا معاملہ اس وقت ایک اہم تنازعہ بن چکا تھا اور عدالت میں زیر غور تھا اس لئے اس کو مستثنی رکھا گیا ہے ، لیکن باقی جومذہبی مقامات ہیں، ان کے سلسلے میں کہا گیا ہے کہ 1947 کی پوزیشن باقی رہے گی۔ 1947 میں جو مسجد تھی وہ مسجد رہے گی جو مندر تھا وہ مندر رہے گا۔ کوئی پرانا تاریخ کا دعوی لے کر مسجد کو مندر میں اور مندر کو مسجد میں تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ اس فیصلہ میں  سپریم کورٹ نے بہت ہی ستائش اور تعریف و تحسین کے ساتھ اس قانون کو مضبوطی عطا کی ہے۔ یعنی بنارس اور دیگر مقامات کے سلسلے میں جو دعوے ہیں،ان پر گویا سپریم کورٹ نے روک لگائی ہے۔ یہ بات بھی ہمیں ملک کے عوام کے سامنے لانی چاہے کہ اب ان سارے دعووں کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی  ہے اور یہ کہ اب اس طرح کے تنازعاٹ ختم ہوجانے چاہیے۔

*ہماری ذمہ داری*
ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ ہماری جوذمہ داری ہو سکتی تھی وہ ہم نے ادا کی ہے۔بہت سے لوگ سوشل میڈیا پر یہ بات بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر ہم مصالحت کے ذریعہ مسجد دے دیتے تو اچھا ہوتا۔ کیوں اتنا لمبا مسئلہ چھیڑا گیا؟اتنی لمبی لڑائی لڑنے  کی کیا ضرورت تھی؟ نتیجہ تو وہی نکلا۔ اگر پہلے ہی عزت سے دے دیتے تو مسئلہ بہت پہلے ختم ہوجاتا۔ ایسی باتیں سوشل میڈیا پر جگہ جگہ چل رہی ہیں۔
 ہمیں یہ بات اچھی طرح سجھ لینی چاہیے کہ یہ لڑائی ،یہ جد وجہد کس لیے تھی ؟ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری یہ لڑائی، یہ جدوجہد اصلاً ملک میں قانون کی حکم رانی کو یقینی بنانے کے لیے تھی۔ اگر کمزوروں پر دباو ڈال کر ان کے حقوق غضب کئے جاتے رہیں اور کمزور دب کر صلح کرتے رہیں تو سماج میں انارکی اور لاٹھی کے راج کی شروعات ہوجاتی ہے۔ صرف مسلمانوں کو نہیں بلکہ ملک کے تمام شہریوں کو مسلمانوں کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ مسلمانوں نے ایک لمبی جد و جہد کے ذریعہ قانون کی حکم رانی کو یقینی بنایا ۔طاقت کو قانون کے سامنے جھکنے پر مجبور کیا۔ اگر مسلمان درمیان کے کسی مرحلے میں مصالحت کر لیتے تو موبو کریسی (ہجومی طاقت ) کی بالا دستی ملک میں قائم ہو جاتی۔ یہ بات طے ہو جاتی  کہ کوئی بھی موب اکٹھا کرکے من مانے طریقہ سے کچھ بھی کر سکتا ہے۔اس وقت جو فیصلہ آیا ہے، وہ غلط ہو یا صحیح بہر حال سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے۔ قانونی عمل مکمل ہوا ہے۔اس سے قانون کی حکم رانی مستحکم ہوئی جو ملک کے دستوری ڈھانچے اور ملک کے قانونی نظام کے لیے مسلمانوں کا بہت بڑا کنٹری بیوشن ہے۔

مسلمان توکل پر یقین رکھتے ہیں۔ توکل اسلامی فلسفہ کا بنیادی اور اہم تصور ہے،جس کا راست تعلق ایمان سے ہے۔ توکل کیا ہے ؟ توکل کی دو شرطیں ہیں: ایک تو تدبیر اختیار کرنا اور آخری حد تک کرنا۔ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: اونٹ کو باندھ کر توکل کرو کھلا چھوڑ کر نہیں ۔ مطلب آخری ممکنہ حد تک تدبیر اختیارکرو۔ الحمد للہ ،مسلمانوں نے اس معاملہ میں آخری حد تک کوشش کی ۔ہائی کورٹ گئے ، سپریم کورٹ میں گئے ۔ ملک کے ماہرترین وکلاءاور قانون دانوں کی خدمات حاصل کیں ۔ میڈیا کے سامنے اپنا مقدمہ رکھا ۔ ملک کے عوام کی ضمیر کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کیا۔ مصالحت کے لیے طرح طرح سے دباؤ ڈالے جاتے رہے ،لیکن کبھی اس دباؤ کے شکار نہیں ہوئے۔ استقامت کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے رہے اور اپنی آخری کوشش جواللہ کے گھر کی حفاظت کے لیے  ہو سکتی تھی، الحمدللہ اسے ہم مسلمانوں نے انجام دیا۔ اس پر ہم سب کو اطمینان ہونا چاہے کہ الحمدللہ ہم نے آخری کوشش کی ۔ اس طرح توکل کی  پہلی شکل ’ آخری حد تک تدبیر ، کو ہم نے اپنے امکان کی حد تک پورا کرنے کی کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ ان کوششوں کو قبول کرے اور ان میں کوئی کسر رہ گئی ہے تو اسے معاف فرمائے۔

اب دوسری شرط کا مرحلہ ہے۔ توکل کی دوسری شرط یہ ہے کہ آخری کوشش کے بعد جو فیصلہ ہو جائے ، جو نتیجہ نکلے ، وہ ہم اللہ پر چھوڑ دیں۔ہم یہ سوچیں کہ اللہ جو کرے گا ہمارے لیے اچھا کرے گا  ۔ اس میں کچھ نہ کچھ خیر ہوگا۔ بہ ظاہر شر نظر آتا ہے مگر اس میں کوئی نہ کوئی خیر کا پہلو ہوگا۔ یہ اللہ تعالی سے امید رکھیں ۔ یہ بھی توکل کی اہم شرط ہے۔ہم نے آخری کوشش کی ۔ اب ہمارے وکلا ءدیکھ رہے ہیں کہ کیا اور بھی کسی کوشش کا امکان باقی ہے؟ ریویو پٹیشن وغیرہ کا امکان ہے ،اگر ہے تو وہ بھی کر لیں گے۔ مگر آخری کوشش جو ہوسکتی ہے وہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہم کریں گے ۔ کیوں کہ ہم اس کے مکلف ہیں، جب ہماری ذمہ داری اور آخری کوشش پوری ہو جائے گی، تو پھر ہم اس مسئلے کو اللہ پر چھوڑ دیں گے اور ہم سمجھیں گے کہ ان شاءاللہ اس سے کچھ نہ کچھ خیر ضرور برآمد ہوگا۔ پوری اسلامی اورانسانی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ بظاہر شر نظر آنے والے واقعات سے ،بظاہر نامناسب نظر آنے والے معاملات سے اللہ تعالی نے غیر معمولی خیر پیدا کیا ہے۔ 

سیدنا یوسف ؑ کے واقعہ سے  معلوم ہوتا ہے کہ صحرا کے ایک تاریک کنویں کی وحشت ناک تنہائی  کو اللہ تعالی نے ان کے لیے  مصر کے تخت وتاج کا پہلا زینہ بنایا ۔ پھر مصر کی جیل کی طویل قید کو دوسرا زینہ بنایا۔ اللہ تعالی عجیب طریقوں سے اپنی مشیت پوری کرتا ہے ۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس میں خیر کیا ہے۔ہم آخری حد تک اپنی ذمہ داری ادا کریں گے، وہ ہم نے کی ہے۔ اب اس کے بعد معاملے کو اللہ پر چھوڑدیں ۔

ایک بات جو قابل غور ہے کہ اس کے بعد ہماری کیا ذمہ داری ہے؟ اس سلسلے میں بھی ہمیں سوچنا چاہیے ۔یہ بات ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہے کہ ہماری اصل ذمہ داری، اس ملک میں دعوت دین کی ہے،جواس ملک میں ہمارے بہت سے مسائل کا حل ہے۔ ہم اس ملک میں اپنے آپ کو خیر امت سمجھیں ۔یہاں کے تمام انسانوں اور کروڑوں کی آبادی  کواپنا مخاطب سمجھیں،  انھیں اللہ کے بندے سمجھیں،  ان سے تعلق قائم کریں۔ ان سے برادران رشتہ استوار کریں،ان کی غلط فہمیوں کو دور کریں  ، ان کے دل میں جو نفرت کے بیج ہیں انھیں ہٹائیں، ان کے دلوں کو جیتیں، عدل کی ،انصاف کی ،اسلام کی تعلیمات ان کے سامنے پیش کریں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے، ہمارا فریضہ ہے ۔ یہ احساس امت مسلمہ کے اندر پیدا ہوجائے گا تو یہ مسئلہ بھی حل ہوگا اور اس جیسے سینکڑوں مسائل بھی حل ہوں گے ۔ 

ہمارا لانگ ٹرم ایجنڈا،اصل مقصد اور نصب العین یہ ہے  کہ ہمیں خیر امت بننا ہے ۔ مثالی امت بننا ہے۔ انسانوں کے سامنے خداکا پیغام پہنچانا ہے۔ اپنے آپ کو طاقت ورEmpowered  بنانے کی کوشش کرنی ہے۔اس نصب العین پر ہماری توجہ رہے ۔اس عظیم نصب العین کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک چھوٹا مسئلہ ہے ،چھوٹی رکاوٹیں ہیں ۔ ایسی رکاوٹیں اس راہ میں  آتی رہتی ہیں۔ہمیں ان رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش ضرور کرنی ہے لیکن ان میں الجھ کر نہیں رہنا ہے۔بابری مسجد کےاس فیصلے سے جو تکلیف ہمیں پہنچی ہے وہ فطری بات  ہے ، ایمان کا تقاضا ہے۔لیکن اس تکلیف کے نتیجے میں ہم کو مستقل طور پر مایوس نہیں ہونا ۔ ناامید نہیں ہونا ہے ۔ اپنے اصل کام کے سلسلہ میں حوصلہ و ہمت نہیں ہارنا ہے۔ ہم اپنے اصل کام سے وابستہ رہیں گے تو ان شاءاللہ یہ مسئلہ بھی حل ہوگا اور ایسے اور بھی مسئلے حل ہوں گے اور ہمارا یہ سفراپنے نصب العین کی طرف جاری رہے گا۔ اس نازک گھڑی میں،  میں یہی گزارش کروں گا کہ ہم تمام اپنی اصل ذمہ داریوں کی طرف متوجہ ہوں ۔اور یکسوئی سے انہیں انجام دینے کی فکر کریں۔اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو اور  ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

(پیش کش: محب اللہ قاسمی،معاون شعبہ تربیت مرکز)