Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, November 14, 2019

علوم عربیہ ۔۔۔۔آج کی ساٸنس !!!

*علوم عربیہ کسے کہتے ہیں*
از/اسامہ طیب /صداٸے وقت۔
==============================
جب 1832عیسوی میں پہلی مرتبہ ولیم ویول William Whewell نے نئی ایجادات کرنے والوں اور نئے علوم پر مہارت رکھنے والوں کے لیے "سائنٹسٹ" کی اصطلاح وضع کی تو مشرق و مغرب ہر جگہ یہ سمجھا جانے لگا کہ Scientist کا وجود دراصل مغرب میں ہوا ہے اور سائنس جدید مغرب میں پیدا ہوئی ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے، پہلے ان سائنسی علوم کے لیے *علوم عربية* کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی، اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ سائنسی علوم کا اصل تعلق عربوں یا مسلمانوں سے ہے. 
طب (Medic Science)، علم الجراحت (Surgery)، طبیعیات (Physics)، علم کیمیا (Chemistry)، علم فلکیات و ہیئت(Astronomy)، علم ریاضی، الجبرا، جیومیٹری (Mathematics)، (Algebra)، (Geometry)، علم نباتات(Botany)، جغرافیہ (Geography) کو جنہیں آج سائنسی علوم کہاجاتا ہے پہلے علوم عربیہ کے نام سے جانے جاتے تھے، ابن الہیثم،ابن رشد، البیرونی، علی بن خلاف اسپینی، الخوارزمی، ابن سینا، الزہراوی، الرازی، الکندی، المجوسی، علی بن عیسی، ثابت بن قراء، الدینوری،الادریسی، اور جابر بن حیان وغیرہ سب کے سب Scientists تھے. پر جب امت پر زوال آیا تو علوم کو تقسیم کیا گیا، جن علوم کی تقسیم پہلے نافع اور غیر نافع پر ہوا کرتی تھی اب وہ علوم دینی اور دنیاوی بن گئے، آج علوم عربية کی اصطلاح استعمال کریں تو یہ عام تاثر پیدا ہوتا ہے کہ اس سے مراد مدرسہ کی چہار دیواری میں پڑھائے جانے والے چند علوم ہیں، اس زاویہ نظر کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے. علوم کی تقسیم نے اس امت کو جس بھیانک نتیجہ سے دوچار کیا ہے کم از کم ذلت کے اس مقام پر پہنچ کر امت کو ہوش کی دوا کرنی چاہیے.
رب زدنی علما
اللهم إنا نسألك علما نافعا 

اسامہ طیب