Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, November 14, 2019

فاطمہ لطیف کی خود کشی ! آخر ذمے دار کون ؟


 *طہ جون  پوری* /صداٸے وقت/مورخہ 15 نومبر 2019.
jaunpuri786@gmail.com
==============================
         جمہوریہ  بھارت میں یہ بات اکثر و بیشتر دیکھنے کو ملتی  ہے، کہ  یہاں کی اقلیتیں، پسماندہ اقوام اور مسلمان جسمانی اور ذہنی ہراسانی، کا شکار ہوتی رہی ہیں۔ کبھی بازارمیں، تو کبھی گاؤں میں، کبھی اسکول میں اور کبھی کالج و یونیورسٹی میں، اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ اور پھر ان مصیبتوں سے ہمیشہ ہمیش کے لیے چھٹکارا پانے کے لیے، بہتوں نے  مجبور ہوکر پھانسی کا پھندا چوم لیا۔
          چناں چہ گذشتہ دنوں  یونیورسٹی آف حیدرآباد کے  پی ایچ ڈی اسکالر، روہت ویمولا، اور  بی وائی ایل  نایر ہاسپٹل ممبئی میں سال دوم کی ٹرینگ میں ڈاکٹر پایل تڑوی کا ایسا ہی معاملہ سامنے آچکا ہے۔ جہاں دونوں نے ذہنی ہراسانی سے مجبور ہو کر، خود کشی کرلی تھی۔ اور اب تازہ معاملہ فاطمہ لطیف کا ہے۔

          فاطمہ لطیف  19 سالہ خاتون،  انڈین انسٹی ٹیوٹ  آف ٹیکنالوجی مدراس، کی طالبہ تھی۔ اس بنت حواء کا تعلق’’ کولام، کیرالا‘‘ سے تھا۔  فاطمہ، ’’ گوئنڈی‘‘ میں واقع،  آئی آئی ٹی –ایم کے کیمپس ، سریو ہاسٹل میں،  کمرہ نمبر: 346  میں رہائش پذیر تھی۔ سنیچر کو 30-11 بجے تک اس کا کمرہ بند تھا۔ جب اس کے دوستوں نے کمرے کا دروازہ  توڑا،  تو وہ  پنکھے سے لٹکی ہوئی پائی گئی۔

          فاطمہ لطیف کوئی معمولی طالبہ نہیں تھی، بلکہ اس کا آئی آئی ٹی میں داخلہ ہی ایک سنگ میل تھا، مزید وہ ایک ذہین و فطین اور ذی استعداد طالبہ تھی۔ وہ اپنے درجے  میں  ٹاپر تھی۔ اس حادثہ نے  اہل خانہ کے وجود کو ہلادیا۔ اس خود کشی کی جب وجوہات تلاش کی گئیں، تو معلوم ہوا، کہ اس نے اپنی اس موت کا ذمہ دار، ایک  استاد ’’سدرشن  پدمانابھن‘‘ کو ٹھہرایا ہے۔ چناں چہ اس کے والد ”عبدالطیف“ نے  ’’کیرالا ‘‘ کے وزیر اعلی   Pinarayi Vijayan کو   تفتیش کےلیے؛ ایک درخوست دی ہے. اور  بھارتی وزیر اعظم کو ایک خط لکھ کر انصاف مانگا ہے۔

          اب سوال یہ نہیں کہ یہ محض ایک جان گئی ہے۔ اس کا تو انصاف ملنا چاہیے اور کیپٹل پنشمنٹ ہونا چاہیے، سوال تو یہ ہے کہ، کیا  یہ سسلسلہ یہیں ختم ہوجائے گا؟ لیکن حالات جس رخ کا پتہ دے رہے ہیں، اس سے ایسا ہی لگتا ہے، کہ یہ سلسلہ ختم نہیں ہوگا، تا آں کہ اس سوچ کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دیا جائے،  جو ہمیشہ ذات کے نام پر ، مذہب کے نام پر بھید بھاؤ کرتی ہے۔ اور معصوموں کا اپنا شکار بناتی ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے ، وہ علماء؛  جو اہل زبان ہیں اور ان کالج و یونیورسٹی میں ان کی رسائی ہوسکتی ہے، وہاں تک پہونچیں،یا مواصلات جدید ذرائع کو اختیار کریں، اور اس پیام نبوی سے دنیا کو روشناس کرائیں۔ کہ کسی عرب والے کو عجم  پر، کسی عجم والے کو عرب  پر، کسی گورے کو کالے پر، اور کسی کالے کو گورے پر  فوقیت حاصل نہیں ، ہاں صرف ایک وجہ سے فوقیت حاصل ہوسکتی ہے، اور وہ ہے، پرہیزگاری. بہت ممکن ہے، کہ اس پیغام کو بہت سے برداران وطن سنی ان سنی کردیں، لیکن اس پیغام کو دوسرے پیرایے اور دوسری تعبیر میں پہونچایا جائے، اس لیے کہ محمد عربیﷺ کی ہی تعلیم اور اس پر عمل سے دنیا؛ سکون کا گہوارہ بن سکتی ہے. ذات پات کے جھگڑے اور جاہلیت جدیدہ کی رسمیں مٹ سکتی ہیں،  بس تیرے ضمیر میں پوشیدہ ہے راز زندگی کہدے، اس لیے اس میدان میں کام کرنے کی سخت ضرورت ہے۔

اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے

پھر دیکھ خدا کیا کرتاہے۔

اور  یہ بات یقینی ہے، کہ علماء کی جو نسبت ہے، اس لحاظ سے وہی اس خدمت کو انجام دے سکتے ہیں۔ اللہ نے انھیں زیور علم، قران و حدیث سے آراستہ کیا ہے، اس لیے یہ خدمت انھیں کے موزوں ہے۔

شاید کہ اتر جائے ترے دل میں  میری بات۔

اللہ تعالی ہم سب کو اپنے ابدی دین کا آفاقی پیغام پہونچانے کے لیے قبول فرمائے.

آمین