Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, November 13, 2019

بابری مسجد کا فیصلہ اور ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل۔


بابری  مسجد  معاملے میں سب سے اطمینان  بخش پہلو یہ ہے کہ ملک کی پوری ملت نے برادران وطن کے ساتھ ایک قانونی لڑائی لڑی

تحریر : نوشاد عثمان ترجمہ : بشری ناہید/صداٸے وقت۔
==============================
اللہ تعالی فرماتا ہے: ‘دل شکستہ نہ ہو،غم نہ کرو تم ہی غالب رہوگے اگر تم مومن ہو۔’ ہماری عبادت گاہوں  کو  شہید کرنا، ہماری  شریعت میں مداخلت  کرنا، بے قصور  مسلمانوں کو بھرے بازار  شہید کر دیا جانا جیسے مظالم سے ہر وہ شخص  جو  تھوڑی سی انسانیت اپنے اندررکھتاہے بالکل مضطرب ہو جاتا ہے۔ یہ ایک فطری جذبہ ہے۔ اور ایسے وقت میں شیطان بہت جلد حاوی ہونے کی کوشش کرتا ہے جس سے انسان مایوسی کا شکار ہونے لگتا ہے یا شدت پسند ی کی طرف جا سکتا ہے۔  ایسے موقع پر  اللہ سے مدد طلب کرنا چاہیئے کہ وہ صحیح راہ دکھائے۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں اپنااحتساب کرنے کی بھی ضرورت ہیں۔ کہ ہمارے ساتھ آخر ایسا کیوں ہوا ہم جو کبھی بت شکن ہوا کرتے تھے آج ہماری بےبسی کا یہ عالم ہے کہ اللہ کی عبادت گاہ کو بت خانے میں تبدیل ہوتا دیکھنے پر اس سے دست بردار ہونے پر مجبور ہیں بابری  مسجد  معاملے میں سب سے اطمینان  بخش پہلو یہ ہے کہ ملک کی پوری ملت نے برادران وطن کے ساتھ ایک قانونی لڑائی لڑی کچھ مثتثنی افراد کو چھوڑ کر اس کام میں سارے مسلمان متحد ہوگئے تھے اب  اس فیصلے کے بعد  ممکنہ قانونی  گنجائش پر کوشش کی جا سکتی ہیں۔ لیکن کسی قوم کے تعلق سے جو بھی نتائج آتے ہیں وہ اس قوم کی سیاسی و معاشی قوت ‘ سماجی اثر و رسوخ ‘ اجتماعی اعمال ‘ کردار و معملات کا نتیجہ ہوتے ہیں  مثلا جین سماج کی تعداد 50 لاکھ سے بھی کم ہے تجارت’ سیاست’ تعلیم پر کافی پکڑ ہے اس کے ساتھ ہی مذہبی امور کی بھی پابند ہیں  اسی جین سماج نے کئ ریاستوں میں گوشت پر نکیل لگانے کے لئے اصرار کیا ہے اور اس میں کئ حد تک کامیاب رہے ہیں۔  مسلمان اگر مسجد’ مکتب ‘ مارکیٹ ‘ ملٹری اور میڈیا ان پانچ پاور سینٹر ز میں اپنا وزن قائم کرتے تو شائد آج حالات کچھ اور ہوتے۔ کیونکہ آج کل کچھ فیصلے صرف قانون اور ثبوتوں پر نہیں بلکہ حالات اور دیگر چیزوں پر بھی منحصر ہوتے ہیں۔ اس بات کو سمجھنےکی کوشش کر نی چاہیئے۔ اب جو ہو چکا اس کا ماتم کرنے کے بجائے مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں غور و فکر و دور اندیشی کے ساتھ نتیجہ خیز و قابل عمل خاکہ تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ جس کی روشنی میں ملت کا ہر فرد اپنی اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے وقف کردیں جو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے امت مسلمہ پر عائد کی ہیں۔ اس پر مولانا سید ابو الاعلی مودوی نے خطبہ مدراس میں بھارت کے مسلمانوں کے لئے چار نکاتی ایجنڈا دے دیا تھا: 1۔ دعوت 2۔ اصلاح 3۔ خدمت 4۔ اجتماعیت ان کے ذریعے ہم ان پانچوں پاور سینٹرز  پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ یہی ہمارا اصل کام ہیں جس سے ہم  اپنی طاقت یہاں قائم کر سکتے ہیں۔ ایک عرصہ سے ہم دیکھ رہے معاشرہ عدل و انصاف ناپید ہے اورجس کی لاٹھی اس بھینس یہی اصول آجکل تقریبا ہر جگہ اپنایا جا رہا ہے۔ یہ طاقت روحانی ہو ‘ عملی ہو ‘ کردار کی ہو معاشی اور تعلیمی ہو سا تھ ہی سیاسی بھی ہو۔ روحانی و ایمانی طاقت کی بھی بہت ضرورت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جس نے فجر کی نماز ترک کی اس نے دین کو ڈھا دیا۔ ” گویا جن کی فجر بستر میں ہوتی ہے وہ بابری مسجد کو نہیں بلکہ پورے دین کو ڈھا رہے ہیں۔ وہ لوگ جو اپنے محلے کی مسجدوں کو ویران رکھتے ہیں کیاواقعی ان کو بابری مسجد جانے کا دکھ ہو سکتا ہے ؟ نمازیں، تلاوت قرآن یہ ہم کو روحانی طاقت بخشتے ہیں۔ اس کو ترک کرتے ہیں تو معاشرے میں ہمارا کوئی وزن نہیں ہو گا۔ اسکے علاوہ ہمارے اپنے اسکول اور کالجز ہو جو اسلامی اورینٹیشن کے ساتھ  علم دیتے ہو۔  جس میں ٹیچرز کا استحصال نا ہوتا ہو۔ اور نا ٹیچرز صرف روزگار کے لئے جڑے ہو، ان میں بے ڈھنگے گیدرنگ نا ہوتے ہو۔ جو اگر آرکیالوجیکل افسر بنے تو وہ کیرالا کے جناب کے کے محمد صاحب کی طرح حقیقت سے پرے رپورٹ بنانےوالے نا ہو۔ جس پر آگے چل کر کوئی کورٹ اس طرح کا فیصلہ دے دیں۔ وہ طلبہ وقف بورڈ کا ایساچیرمین نا بنے جو مسجد کا سودا کرنے کےلئے تیار ہو جائے، وہ طلبہ ایسے  جج نا بن جائے جو اپنے آپ کو سیکیولر ثابت کرنے کے لئے غلط فیصلہ دے کر حق و انصاف کا خون کرنے والے بن جائے۔ اسطرح کی قانونی لڑائی لڑنے کے لئے پیسے کی بھی ضرورت ہوتی ہیں۔ مورتیاں رکھنے کے بعد بابری مسجد مقدمہ کے ابتدائی مرحلے میں پیسہ نا ہونے کی سے بھی اتنی طاقت سے لڑائی نہیں لڑی گئ تھی جتنی بعد میں لڑی گئی۔ کیونکہ ملک تقسیم ہونے کے بعد مسلمان خود پریشان حال تھے۔ اس لئے تجارت، مارکیٹ پر بھی ہم نے حاوی ہونا چاہیئے۔ ملٹری میں ہمارا اوسط بہت ہی کم ہے اس پر توجہ دینے کضرورت ہے۔ میڈیا میں جتنی اور جیسی نمائندگی ہونا چاہیئے  ویسی نمائندگی نہیں ہیں۔ کچھ لوگ ہے تو وہ اپنے آپ کو سیکیولر بتانے کے چکر میں روبیکا اور رومانہ بن جاتے ہیں یہ کام کچھ لوگ کر رہے ہیں انکا ساتھ دینے کی ضرورت ہے۔ ان لوگوں سے اگر اختلاف ہے تب بھی اسکو درکنار رکھ کر ساتھ دینےکی ضرورت ہے۔ یا کم از کم اصلاح کے نام پر ان کے کام میں روکاوٹیں نہیں کھڑی کرنی چاہیئے۔ افراد سے زیادہ مقصد کو سامنے رکھے۔ ہمارے ادارے ‘ ہماری انجمنیں ‘ کمیٹیاں ‘ اور جماعتوں میں اتفاق رکھنے کی کو شش کریں۔ جس سیاسی پارٹی پر مسلمانوں کو سب سے زیادہ بھروسہ تھا۔ (اسی پارٹی نے اس تنازعے کو جنم دے کر فتنہ بر پا کیا تھا۔)   آج اسی پارٹی نےآنکھیں پھیر لی۔ اس لئے مسلمانوں نے بہوجن ‘ برادران کے ساتھ مل کر اپنی طاقت بنانی چاہیئے۔ غرض یہ کہ جس سے جو بھی مثبت کار آمد اور اجتماعی قوت بخشنے کا کام ہو سکتا ہے وہ اس نے کرتے رہنا چاہیئے۔ ان کاموں کو کرنے کے لئے ایک بوسٹ اپ دینے کی غرض سے بھی کبھی کبھی اللہ تعالی امت کو اسطرح کے آزمائشی حالات سے گزارتا ہے۔  تاتاریوں کے ظلم کے بعد مغلیہ سلطنت بنی انگریزوں کے مظالم کے بعد دنیا میں کئ تحریکات اسلامی وجود میں آئی بابری مسجد کی شہادت کے بعد ڈاکٹر ذاکر نائک ‘ مولانا کلیم صدیقی ‘ جیسے داعی میدان دعوت میں سرگرم ہو گئے۔ مبارک کاپڑی جیسے افراد نے تعلیمی میدان میں خود کو لگا دیا ‘ اکھیل بھارتی مسلم مراٹھی پریشد جیسی ادیبوں کی تنظیمیں وجود میں آئی شودھن جیسے دعوتی اخبارات کو پھر سے نئ زندگی ملی۔ تنویر منیار جیسے کئ مسلم طلبہ و طالبات اسی سانحہ کے بعد میریٹ لسٹ میں دکھائی دینے لگے۔ یہ روشنی اسی مسجد کی ٹوٹی دیواروں کے ڈھیر سے نکلی ہے۔ یہ اس مسجد کی شہادت کا اثر تھا کہ ان لوگوں نے اپنے غم و غصے کو ایک مثبت رخ دے کر ایک مخصوص میدان میں کار ہائے نمایاں انجام دیئے۔ آج بھی جو یہ بڑا فیصلہ ہواہے اس سے مایوس ہونے کی بجائے ہم نے اپنے آپ کو دعوت ‘ اصلاح ‘ تعلیم ‘ خدمت کے کاموں میں خود کو لگا دینا چاہیئے۔ تب ممکن ہے کہ حالات بدلے اور جن ہاتھوں نے  عبادت گاہوں کا تقدس پامال کیا وہی ہاتھ پھر سے اسے ایک دن تعمیر کرنے کے لئے اٹھیں۔  ان شاء الل