Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, November 12, 2019

نہ مصر دنیا کی ماں ہے اور نہ بھارت دنیا کا باپ!!!

از/مولانا طاہر مدنی/صداٸے وقت۔
*************************
کبھی کبھی آدمی ایسی بات کہدیتا ہے جس پر بعد میں اسے خود بھی پچھتاوا ہوتا ہے. مجھے یقین ہے کہ برادر محترم مولانا اصغر علی امام مہدی صاحب، امیر جمعیت اھل حدیث نے 10 نومبر کو قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال کے گھر پر ہونے والی نشست میں جو اظہار خیال کیا، اس پر خود  پشیماں ہوں گے اور بہتر یہی ہے کہ اس کیلئے صاف طور پر معذرت کرلیں.
اول تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ جب 9 نومبر کو فیصلہ آگیا تو یہ میٹنگ ملتوی کردی جاتی، لیکن اس کے باوجود اگر ملتوی نہیں کی گئی تو ملی قیادت کی جانب سے اس کا بائیکاٹ ہونا چاہیے تھا، تاکہ یہ پیغام جاتا کہ اس غیر منصفانہ فیصلے سے ہم بہت دکھی ہیں اور اس نے ہمارے اعتماد اور بھروسے کو توڑ کر رکھ دیا. لیکن بائیکاٹ نہیں ہوا، جمعیت اہل حدیث، جماعت اسلامی، مسلم مجلس مشاورت کی قیادت سمیت متعدد قابل ذکر شخصیات نے نہ صرف شرکت کی، بلکہ مسکراتے ہوئے تصاویر کھینچوائی، شوشل میڈیا پر جس طرح کی فوٹوز آئی ہیں، انہیں دیکھ کر انتہائی افسوس اور رنج ہوتا ہے. صرف 24 گھنٹہ قبل ملت اسلامیہ ہند پر سپریم کورٹ کا سیاہ فیصلہ کوہ رنج و الم بن کر گرا، جس سے پوری ملت دکھی اور متاثر... اور ہم ایک ایسے سرکاری دربار میں حاضری دے رہے ہیں جس کا مکین دہلی سے سری نگر تک ظلم و ستم کی داستان رقم کرنے والی ٹیم کا کلیدی کردار ہے.... کیا ضروری تھا وہاں جانا، اور حاضری درج کرانا اور اگر چلے ہی گئے تو زور دار احتجاج درج کرانا چاہیے تھا. اس فیصلے کی خامیوں کو اجاگر کرنا چاہیے تھا، اس کے خطرناک نتائج و عواقب سے خبردار کرنا چاہیے تھا اور مضمرات پر روشنی ڈالنی چاہیے تھی.... یہ کہنا چاہیے تھا کہ ڈوبھال صاحب! یہ ملک آستھا سے چلے گا یا دستور سے، ملکیت کے فیصلے شواہد پر ہوں گے یا کھدائی کی مشکوک رپورٹس پر، عدالت مظلوموں کا ساتھ دے گی یا ظالموں کا، عبادت گاہیں محفوظ رہیں گی یا غیر محفوظ، مسلمان اس ملک میں برابر کے شہری ہیں یا نمبردو کے ہیں، دستور میں دی گئی مذہبی آزادی برقرار رہے گی یا نہیں رہے گی؟ پوری قوت استدلال کے ساتھ ان سوالات کو اٹھانا چاہیے تھا اوراگر اس کی اجازت نہ ملتی تو سیدھے واک آؤٹ کرنا چاہیے تھا. متعدد لوگ یہ کہ رہے ہیں کہ جو کچھ طے ہوا تھا اس کے مطابق بیان جاری نہیں ہوا، اگر ایسا ہوا تو آپ لوگ ایک مشترک بیان جاری کر دیجیے، تاکہ تصویر صاف ہوجائے.
کوئی انصاف پسند اس فیصلے کی تائید نہیں کرسکتا. متعدد غیر مسلم دانشوروں نے اس پر کھل کر تنقید کی ہے اور اس کی خامیوں کو اجاگر کیا ہے. یہ کہنا کہ نہ کسی کی ہار اور نہ کسی کی جیت، بالکل خلاف واقعہ بات ہے. زمین کی ملکیت کا جھگڑا تھا، ایک فریق ہندو اوردوسرا مسلمان، عدالت نے متنازعہ زمین ہندو فریق کو دے دی اور مسلم فریق کو محروم کردیا، ہندو فریق جیت گیا اور مسلمان ہار گیا حالانکہ شواہد مسلمان فریق کے حق میں تھے. یہ صاف صاف ہار اور جیت کا معاملہ ہے، آخر آنکھوں میں دھول ڈالنے کی کوشش کیوں ہورہی ہے. اگر ثبوتوں اور شواہد کی بنیاد پر فیصلہ ہوتا تو دفعہ 142 میں دیئے گئے خصوصی اختیارات کا استعمال کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی.
اس فیصلے کی کمیوں کو اجاگر کرنا اور ریویو کی اپیل داخل کرنا بہت ضروری ہے تاکہ تمام امور ریکارڈ پر آجائیں. جہاں تک مسجد کے بدلے 5 ایکڑ زمین قبول کرنے کا معاملہ ہے تو اسے بالکل مسترد کر دینا چاہیے کیونکہ ہمیشہ ہمیش کیلئے سودابازی کا داغ لگ جائے گا اور آنے والی نسلیں لعنت بھیجیں گی کہ ہمارےپوروج اتنے گرے ہوئے تھے کہ خانہ خدا کےبدلے قطعہ اراضی کی خیرات کو قبول کرلیا......
مر جائیں گے، ایمان کا سودا نہ کریں گے
ایسا نہ کریں گے، کبھی ایسا نہ کریں گے

طاہر مدنی... 12 نومبر 2019