از ـ محمود احمد خاں دریابادی /صداٸے وقت۔
=============================
۸ نومبر شام تقریبا ساڑھے پانچ بجے موبائیل کی گنھٹی بجی، مین نے دیکھا دہلی لینڈلائین نمبر تھا، میں کچھ کام کررہا تھا، میں نے یہ سمجھ کر نظر انداز کردیا کہ کسی میڈیا والے کا فون ہوگا، بابری مسجد کے متوقع فیصلے کے تعلق اس ان دنوں میڈیا والے بہت پریشان کررہے تھے، گو اُس وقت تک فیصلے کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوا تھا، دومنٹ بعد پھر فون کی گھنٹی بجی میں نے رسیو کیا، دوسری طرف سے آواز آئی " میں این ایس اے صاحب کے آفس سے اُن کا پی ایس بول رہاہوں، این ایس اے صاحب بات کرنا چاہتے ہیں،
فوری طور پر میں نہیں سمجھ سکا کہ یہ این ایس ایے صاحب کون ہیں، چند سکینڈ بعد آواز آئی میں اجیت ڈوبھال بول رہا ہوں، تب میں سمجھا کہ نیشنل سیکورٹی ایزوائزر صاحب ہیں، میں نے کہا فرمائیے، انھوں نے کہا کہ یہ جو فیصلہ آنے والا ہے اس تعلق سے ایک مختصر سی میٹنگ ۱۰ نومبر کو میرے گھر پر ہورہی ہے، آپ کو تشریف لانا ہے ـ
میں نے کہا کہ ہم لوگ ممبئی میں کوشش کررہے ہیں، کئی علاقوں میں میٹنگیں کرچکے ہیں، ائمہ وعلماء کرام کو یاددہانی کروائی جاچکی ہے کہ اپنی تقریوں اور خطبات میں لوگوں کو تاکید کریں کے بابری مسجد سے متعلق جو بھی فیصلہ آئے اس کا احترام کیا جائے، اگر ہمارے حق میں آتا ہے تو اللہ کا شکر ادا کریں اور کسی طرح کا جشن، جلسے اور فتح کے جلوس سے احتراز کریں، خدانخواستہ ہمارے حق میں فیصلہ نہیں آتا تب بھی اس کو اللہ کی مرضی سمجھ کر پورے تحمل اور صبرو ضبط کے ساتھ قبول کریں ـ
دوسری طرف سے کہاگیا کہ ہمیں آپ کی کوششوں کی اطلاع ہے، ہم چاہتے ہیں کہ اسی طرح کی باتیں آپ مختلف مذاہب کے سربراہوں کے سامنے بھی کردیں اس سے بہت اچھا پیغام جائے گا اور ملک میں امن وامان کی صورت حال قائم رکھنے میں ہماری مدد بھی ہوگی ـ میں نے پوچھا کہ ممبئی سے اور کون آرہا ہے اُنھوں نے میرے علاوہ انجمن اسلام کے صدر ڈاکٹر ظہیر قاضی اور بریلوی جماعت سے سعید نوری کا نام لیا، انھوں نے یہ بھی کہا کہ آپ کا ایمیل ایڈریس ہمارے پاس ہے ہم اس پر دعوت نامہ بھیج رہے ہیں، تھوڑی ہی دیر میں.دعوت نامہ بھی آگیا ـ
اسی دن شام نوبجے کے قریب پتہ چلاکہ کل یعنی ۹ نومبر کوصبح ساڑھے دس بجے فیصلہ آجائے گا ـ مجھے بہت تعجب ہوا کہ ڈوبھال صاحب نے ۱۰ کو میٹنگ بلائی ہے اور فیصلہ ۹ ہی کو آرہا ہے، ایسا کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ اتنا بڑا فیصلہ جس کا تعلق ملک کے دوبڑے طبقات سے ہے، اور فیصلے کے بعد پورے ملک میں امن وامان قائم رکھنے کے لئے جنگی پیمانے پر تیاریاں کی جارہی ہیں، اور ملک کی سلامتی کا سب اہم ذمہ دار فیصلے کی تاریخ سےلاعلم ہے ؟
مجھے امید ہوگئی کہ اب فیصلہ آجانے کے بعد اس میٹنگ کی ضرورت نہیں رہے گی اور منسوخ ہوجائیگی ـ ........ دوسرے دن فیصلہ آگیا ....... فیصلہ آنے کے بعد جو کیفیت سارے مسلمانوں کی ہوئی وہی میری بھی تھی........... افسوس، بےبسی اور مایوسی کی ملی جلی کیفیت، ......... میں تقریبا چار بجے تک میٹنگ کی منسوخی کی اطلاع کا منتطر رہا، کوئی اطلاع نہیں تھی، میں نے اُن کے دفتر میں فون لگایا، دوسری طرف اُن کے پی ایس تھے، میں نے پوچھا کہ کل کی میٹنگ ہوگی یا نہیں، انھوں نے کہا کہ ہوگی، میں نے کہا کہ اب کیا ضرورت ہے، فیصلہ آگیا، سب جگہ امن شانتی ہے ـ دوسری طرف سے کہاگیا کہ ہمیشہ اسی طرح امن شانتی رہے اس لئے میٹنگ کی ضرورت ہے بلکہ اب زیادہ ضرورت ہے، اس لئے آپ ضرور تشرہف لائیے، ہم سب منتظر ہیں ـ
میں نے ٹکٹ کروالیا تھا، واپس کرتا تب بھی کچھ ہاتھ نہ آتا، اتوار کی چھٹی تھی، یہ بھی سوچا اپنی بات پہونچانے کا موقع ہے اس لئے جانا چاہیئے ـ
خیر وقت پر پہونچ گئے، دروازے پر خود استقبال کے لئے ڈوبھال صاحب کھڑے تھے،........... اندر وسیع لان میں شامیانہ لگا تھا، چاررخی نشتیں
تھیں، کئی جانے پہچانے مسلم چہرے نظ آئے، نوید حامد، پروفیسر اخترالواسع، مجتبی فاروق، مولانا آصغر امام مہدی، سراج قریشی، مولانا کلب جواد، دیوان اجمیر، نظام الدین درگاہ کے فرید نِظامی وغیرہ، پورے ملک سے آئے ہوئے ہندو مذہبی رہنماؤں کی تو بڑی تعداد تھی، کرناٹک، مدراس، کیرالا، شمالی ہندوستان کے کئی مٹھوں کے سربراہ، مجھے صرف ایک معروف نام یاد ہے بابا رام دیو، باقی رہنماؤں کے القاب وآداب کے ساتھ نام پکارے گئے جو یاد نہیں رہے، اخبارات میں خبر آئیگی تو اس میں نام ہونگے، وشیو ہندو پریشد کے بھی کئی نمائندے تھے ـ
میٹنگ کے آغاز میں دوبھال صاحب نے استقبالیہ کلمات کے ساتھ یہ بھی کہا کہ میٹنگ کی تاریخ کا جب اعلان کیا تب تک پتہ نہیں تھا کہ ایودھیا سے متعلق فیصلہ پہلے آجائے گا، انھوں نے یہ بھی کہا کہ اب فیصلہ آچکا ہے اور فیصلے کے بعد ملک بھر میں لااینڈآڈر کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا، مکمل امن وآمان قائم رہا اس لے لئے تمام ملک کے باشندےخاص طور پر مسلمان شکرئے کے مستحق ہیں اور یہی صورت حال آیندہ بھی قائم رہے تاکہ ملک پر امن ماحول میں ترقی کرسکے، آج کی میٹنگ اسی لئے بلائی گئی ہے کہ اپ سبھی مذہبی رہنماوں کی رہنمائی اور مشوروں کی روشنی میں کوئی ٹھوس لائحہ عمل کی مرتب کیا جاسکے ـ
اس کے بعد میٹنگ میں موجود تقریبا تمام افراد نے مختصر خطاب کیا، غیر مسلم رہنماوں نے الفاظ کی تبدیلی تقریبا یہی بات کی کہ یہ فیصلہ نہ کسی کی ہار ہے نہ جیت ہے، اس فیصلے سے مطمئن نہ ہونے کے باوجود مسلمانوں جس ضبط وتحمل کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابل تعریف ہے، ویشیو ہندو پریشد والوں نے بھی خلاف توقع امن وبھائی چارے کا پیغام دیا ـ
مسلمانوں کی طرف سے جو تقریرں ہوئیں وہ بھی بیشتر ایک ہی جیسی تھیں، فیصلے سے مطمئن نہ ہونے کے باوجود پورے ملک میں مسلمانوں کی طرف سے بے مثال صبر تحمل کا مظاہرہ، امن امان کا قیام اور آئندہ بھی اسی کی خواہش ـ
صرف تین تقریرں ایسی تھیں جن میں کچھ دیگر مسائل کا ذکر اور مشورے تھے ـ
احقر نے اپنی چند منٹ کے خطاب میں تین پوائنٹ اُٹھائے، سب سے پہلے تو یہ کہا کہ مسلمانوں جس تحمل مظاہرہ کیا اس کے پیچھے چھوٹی بڑی تنظیموں، جماعتوں، افراد خصوصا علماء کرام اور ائمہ مساجد کی محنتیں ہے، مسلم عوام نے فیصلے سے اختلاف کے باوجود اپنے بڑوں کے کہنے پر دل پر پتھر رکھ لیا، کہیں بھی امن قانون کے لئے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا، یقین ہے کہ آئندہ بھی امن وامان قائم رہے گا ـ
دوسری بات میں نے یہ کہی کہ یہ فیصلہ تو ہوچکا، اب اس کے بعد دیگر عبادت گاہوں میرا اشارہ کاشی متھرا سے لیکر تین ہزار مسجدوں کی طرف تھا جس کو تمام حاضرین سمجھ بھی گئے، وہاں اس طرح کی صورت حال نہ پیش آئے اس پر اپ کو نظر رکھنی چاہیئے ـ
تیسری بات میں نے یہ عرض کی تھی این آرسی پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے، مگر شہریت سے متعلق سیٹیزن شپ امینمنٹ بل میں مذہب کی بنیاد پر جو بھید بھاؤ کی بات کی جارہی ہے اس مسلمانوں میں سخت تشویش ہے ـ
اس میٹنگ کا دعوت نامہ ملنے کے بعد میں اس شش وپنج میں تھا کہ شریک ہونا چاہیئے یا نہیں، یہاں میں نے اپنے ساتھ کام کرنے والے سرگرم دوستوں سے مشورہ کیا، سب کو تفصیل بتائی، ممبئی سے شریک ہونے والوں کے نام بتائے، سب نے مقامی مصلحتوں کو اھمیت دیتے ہوئے اصرار کیا کہ جانا چاہیئے، میں نے حضرت مولانا ولی رحمانی صاحب مدظلہ کو فون کرکے صورت حال بتائی، پہلے تو انھوں نے دوسری بات فرمائی مگر جب میں نے یہاں کی مقامی مصلحتوں کے بارے میں بتایا تو کچھ مفید مشوروں کے ساتھ جانے کی اجازت دیدی ـ
آخر میں صرف اطلاع کے لئے یہ عرض ہےدہلی ہوائی جہاز سے آمد ورفت کے اخراجات، مختصر وقت کے لئے دہلی قیام، دہلی میں مقامی استعمال کے لئے گاڑی وغیرہ کا انتظام بندے نے ذاتی طور پر کیا تھا، ذوبھال صاحب کے یہاں صرف لنچ میں شرکت ہوئی ـ