Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, November 12, 2019

اوروں کا ہے پیام اور ۔ میرا پیام اورہے۔۔۔



اسعد اعظمی(جامعہ سلفیہ بنارس) /صداٸے وقت۔
============================== 
 بابری مسجد کا قضیہ عرصہ دراز سے انصاف کے لیے در در کی ٹھوکریں کھارہا تھا۔ اتنی طویل مدت تک اس کا حل نہ نکلنے کی صرف یہی وجہ تھی کہ قطعی شواہد اور ثبوتوں کی روشنی میں اسے فیصل کرنے کی راہ میں مصلحتیں آڑے آرہی تھیں۔ اور کچھ حیا اور کچھ مصنوعی سہی رواداری خلاف انصاف فیصلہ صادر کرنے میں رکاوٹ بن رہی تھی۔ آخر کار مصلحتوں نے رواداری کا مکھوٹا نوچ پھینکا اور 9 نومبر 2019، دن کے اجالے میں وہ فیصلہ آیا کہ صرف مسلمان ہی نہیں ہر انصاف پسند انسان حیرت واستعجاب کا پتلا بن گیا۔ معاملہ چوں کہ ملک کی عدالت عالیہ سے جڑا ہوا ہے اس لیے اس پر بھلا اعتراض کیوں کر کیا جاسکتا ہے۔
ارباب حل وعقد فیصلے کے متن اور اس کی باریکیوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو سامنے لارہے ہیں۔ گودی میڈیا پر بحث ومباحثہ کی بہار آگئی ہے۔ اس غیر متوقع فیصلے نے جس طرح تمام اہل انصاف کو مایوس کیا ہے اس گناہ گار کا دل بھی حزین وملول ہے۔ لیکن ناچیز اس کا تجزیہ ایک مختلف زاویے سے کرنا چاہتا ہے۔
بابری مسجد پر مقدمات قائم کیے گئے، اس پر تالا لگوایا گیا، اس میں نماز پڑھنے پر پابندی عائد کی گئی۔ شہ زور اس میں داخل ہوکر من مانی کیے، مورتی رکھی گئی، اور پھر کثرت تعداد اور اقتدار کے نشے میں چور بھیڑ نے جس کو اپنے اکابر کی تشجیع اور ”آشیرواد“ حاصل تھا، دن کے اجالے میں اس تاریخی عبادت گاہ کو زمیں بوس کردیا۔ ہم نے اس کے لیے قانونی لڑائی لڑی۔ اللہ کے اس گھر کو حاصل کرنے اور دوبارہ تعمیر کرنے کی جو بھی کوشش ہوسکتی تھی کی۔ لیکن آخر میں مسجدکو ہم نے ہمیشہ کے لیے کھو دیا۔ لیکن جوکچھ ہوا وہ غیروں نے کیا، مقدمہ سے لے کر شہادت تک اور اس کے بعد بھی جو کچھ ہوا بت پرستوں کے ہاتھوں انجام پایا۔ کیا کبھی ہم نے اپنے گریبان میں منھ ڈال کر اس پر غور کیا کہ مسجدوں کے تعلق سے ہمارا اپنا کیا رویہ ہے؟ کیا ہم نے خود مسجدوں کے تئیں انصاف سے کام لیا ہے؟ ہماری زندگی میں مسجدوں کی کتنی حیثیت ہے، کیا شرعی پیمانے پر کبھی اسے ناپنے کی کوشش کی ہے؟۔
17/ نومبر سے پہلے کسی بھی دن بابری مسجد کا فیصلہ آسکتا ہے یہ خبر سب کے لیے فکر مندی کا باعث تھی، اور ہر کوئی ایک انجانے خوف میں مبتلا تھا۔ 8/نومبر کو رات 9/بجے کے آس پاس جب یہ خبر آئی کہ کل 9/نومبر کو ساڑھے دس بجے دن میں فیصلہ سنا دیا جائے گا تو سب کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں، اور خوف واضطراب سب کے چہروں پر عیاں تھا۔ اس خوف واضطراب کے موقع پر ہمیں اپنی مسجدوں کی طرف دوڑنا چاہیے تھا اور پاک پروردگار کے سامنے بچھ جانا چاہیے تھا۔ ہمارے رہبر نبی اکرم ﷺ کا معاملہ یہی تھا کہ ”کان إذا حزبہ أمر صلی“ (ابو داود بسند حسن) آپ کو کوئی تشویشناک معاملہ پیش آتا تو نماز کا سہارا لیتے۔ نماز ہی آپ کے لیے راحت وسکون کا باعث ہوتی تھی۔ آپ حضرت بلال کو حکم دیتے کہ ”قم یا بلال فأرحنا بالصلاة“ (ابو داود بسند صحیح) بلال! اٹھیے اور نماز قائم کرکے ہمیں راحت پہنچائیے۔
ہم فیصلہ آنے کی خبر سن کر گھبرائے اور دوڑے، مگر کدھر کو؟ نہ مسجد کی طرف، نہ نماز کی طرف، نہ اللہ کی طرف، ہمارا رخ راشن کی دکانوں کی طرف تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دکانوں پر وہ بھیڑ لگی کہ مت پوچھیے۔ یہ دکانیں دیر رات اس وقت تک کھلی رہیں جب تک ان کا اسٹاک ایک ایک کرکے ختم نہ ہوگیا۔ کاش اس سے فارغ ہوکر ہی صبح فجر میں مسجدوں کا رخ کرتے، لیکن اس دن بھی حسب معمول گنتی کے لوگ ہی جو عام دنوں میں آتے ہیں وہی آئے۔ صبح آٹھ نو بجے سے پھر راشن ہی جمع کرنے پر توجہ رہی۔
بت پرستوں کے ہاتھوں ایک بابری مسجد گرائے جانے کا ہمیں کتنا غم ہے۔ لیکن کیا کبھی ہم نے یہ بھی غور کیا کہ ہم نے خود مسلکی وفکری اختلاف کے چلتے کتنی مسجدوں پر دن کے اجالے میں اور رات کی تاریکی میں پھاوڑے چلائے ہیں، اور انہیں ڈھا دیا ہے۔ ادھر بابری مسجد ڈھانے والے عوام کو سادھووں اور کٹر پنتھی لیڈروں کی تحریک اور آشیر واد حاصل تھا، تو ادھر سادہ لوح مسلمانوں کو ان کے مذہبی رہنماؤں کی سرپرستی اور خفیہ یا خاموش تایید حاصل تھی۔
ادھر اکثریت کے زعم میں بابری مسجد پر قبضہ کرکے مسلمانوں کو بے دخل کردیا گیا اور انہیں عبادت سے روک دیا گیا، تو ادھر ہمارا حال یہ ہے کہ جن لوگوں سے ہمارا کسی طرح کا اختلاف ہے اور ہم ان سے تعداد اور طاقت میں بالا ہیں تو ان کی مسجدوں پر غاصبانہ قبضہ کرتے ہیں، انہیں بے دخل کرتے ہیں، انہیں وہاں نماز پڑھنے سے بزور قوت روک دیتے ہیں۔ اسی تعداد اور طاقت کے چلتے اپنی اقلیتوں کو مسجد بنانے سے روکتے ہیں۔ اس کے لیے تھانہ پولس اور کورٹ کچہری کا چکر لگاتے ہیں، اور اللہ کاگھر نہ بننے پائے اس کے لیے بے دریغ پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ کتنی مسجدیں ہیں جن پر قبضہ اوربرتری کے لیے ہم برسہا برس مقدمے لڑ تے ہیں۔ وقتاً فوقتاً دونوں فریق میں ضرب وحرب کے دل خراش مناظر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مسجدوں کے اندر ہماری لڑائیاں ہوتی ہیں اور اینٹ پتھر سے حملے ہوتے ہیں۔ تولیت کو لے کر جھگڑے ہوتے ہیں، امامت وخطابت پر جھگڑے ہوتے ہیں۔
مسجدیں جو اللہ کا گھر اور عبادت کی جگہیں ہیں ان کو ہم نے مسلکی اعتبار سے تو نامزد کیا ہی تھا مگر اس پر اکتفا نہ کرتے ہوئے ان مسجدوں پر یہ کتبے لگوائے کہ یہ فلاں مسلک کی مسجد ہے اس میں ”غیروں“ کا داخلہ ممنوع ہے۔ یہی وہ مسجدیں ہیں کہ شرعی تعلیمات کے مطابق ان کا دروازہ بوقت ضرورت غیر مسلموں تک کے لیے کھلا رہتا ہے.
مگراور اگر کوئی ”غیر“ مسلک کا ہماری مسجد میں کبھی آجاتا ہے تو اس کو بزور طاقت نکال دیتے ہیں اور اس بے ہودہ عمل کی تایید میں کتابیں تصنیف کرکے اپنے لوگوں سے واہ واہی بھی لوٹتے ہیں۔ گویا ہم اپنے اس عمل سے آیت کریمہ (ومن أظلم ممن منع مساجد اللہ أن یذکر فیہ اسمہ وسعی في خرابھا- سورہ بقرہ:114) کا خود کو مصداق ٹھہراتے ہیں۔
ان ساری باتوں کو سامنے رکھیے اور اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا ہم مسلمان مسجدوں کے تعلق سے انصاف کرتے ہیں؟ کیا جو مسجدیں ہماری ملکیت میں ہیں ان کا حق ادا کرتے ہیں؟ اگر نہیں -اور واقعی نہیں کرتے- تو دوسروں سے انصاف کی امید کرنا کس منطق سے درست ہوسکتا ہے۔ کہیں بابری مسجد کیس میں ہماری ناکامی اللہ رب العزت والجلال کی طرف سے ہماری ان بد اعمالیوں اور ناانصافیوں پر تنبیہ تو نہیں۔ یاد رہے اللہ کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی۔ اللہ کی گرفت کس شکل میں ہو کہا نہیں جاسکتا۔ جب برائیاں اور بد اعمالیاں بڑھتی ہیں، نا انصافی اور ظلم وتعدی کا بازار گرم ہوتا ہے تو قادر مطلق کا قہر ٹوٹتا ہے اور اس کا غیظ وغضب نازل ہوتا ہے۔
ہماری مسجدوں کا جو حال ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ۔ مسلم آبادی کے بیچوں بیچ واقع مسجدیں بھی نمازیوں کے لیے ترستی رہتی ہیں۔ وہی مسجدیں جو جمعہ کی نماز میں بھر جاتی ہیں، پانچ سو سات سو مصلیوں سے پُر رہتی ہیں، انہیں عام نمازوں میں ڈیڑھ دو صف بمشکل نمازی ملتے ہیں۔ اور فجر میں وہ بھی گھٹ کر آدھے ہوجاتے ہیں۔ کتنی مسجدیں ہیں کہ فجر میں وہاں اذان نماز ہی نہیں ہوتی۔ دیگر نمازوں میں بھی معاملہ بہت اچھا نہیں ہوتا۔
بابری مسجد کے حالیہ فیصلے پر رونے دھونے اور اِن کو اُن کو کوسنے کے بجائے ہم اسے اپنے لیے رب ذو الجلال کی طرف سے تازیانہ مانیں۔ اسے اپنے کرتوتوں اور بد اعمالیوں کی سزا تصور کریں۔ اسے درس عبرت کے طور پر لیں۔ اپنا محاسبہ کریں۔ نوجوان نسل سے خصوصا میری التجا ہے کہ جذبات کی رو میں بہنے کے بجائے سوجھ بوجھ سے کام لے اور گہرائی میں اتر کر حالات کا تجزیہ کرے۔ سوشل میڈیا پر لفظی جنگ، مناظرہ بازی اور ہم بڑے کہ تم بڑے کے چکر میں نہ پڑ کر سنجیدگی اور متانت کی طرف آئیں۔ قانون الٰہی کو بھی مد نظر رکھیں اور باعزت زندگی کے تقاضوں کو بھی سمجھنے اور برتنے کی کوشش کریں۔
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید  کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات