Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, November 7, 2019

جہاں نما کی سیر۔۔۔۔قسط 7۔( ذکر خیر آباد کا )


از/فضیل احمد ناصری /صداٸے وقت۔
===========================
*خیر آباد کا رخ*
......,,,..............
پروگرام کی ترتیب پہلے یہی تھی کہ اولاً مبارک پور جایا جائے، اس کے بعد خیر آباد، مگر مفتی صاحب نے اس میں ترمیم کرتے ہوئے کہا کہ پہلے خیر آباد چلتے ہیں، وہاں سے حاجی بابو کو لے کر مبارک پور جائیں گے۔ میں نے کہا ‌: بہت اچھا! اب ہم خیر آباد کی طرف چلے۔ یہ سٹھیاؤں سے تقریباً 7 کلو میٹر پر جانبِ مشرق ہے۔ پندرہ بیس منٹ گاڑی دوڑی ہوگی کہ مفتی صاحب نے بتایا: اب ہم خیر آباد میں ہیں۔ یہ سن کر میرا رواں رواں مست ہو گیا۔ یہ وہی خیر آباد تھا جہاں شاگردِ *داغ* سائل دہلوی کے باکمال تلمیذ مولانا شبلی شیدا جیسے استاذ الشعرا پیدا ہوئے۔ جس نے مولانا نذیر صاحب جیسی عظیم شخصیت کو جنم دیا۔ مولانا ڈاکٹر ابواللیث صاحب ملیشیاوی زید مجدہم اسی سر زمین سے اٹھے۔ مفتی حبیب الرحمٰن صدر مفتی دارالعلوم دیوبند کا وطن یہی پاک بوم ہے۔ راجہ خیر اللہ شاہ اس کے بانی کہے جاتے ہیں، جن کی وفات 1716ء میں ہوئی۔ قسمت کی خوبی دیکھیے، سو سال سے پہلے یہی خاک علم و فن کے لحاظ سے بنجر تھی، پھر دیکھتے ہی دیکھتے وقت نے ایسا پلٹا کھایا کہ محض ایک صدی میں علم و عرفان یہاں بہاریں دکھا رہے ہیں۔ جید علما کی ایک لمبی قطار یہاں کھڑی ہوئی ہے۔ اس وقت خیر آباد علم اور علما سے ہرا بھرا ہے۔


خیر آباد کی آبادی کم و بیش 30 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں 24 مسجدیں اور کئی ادارے ہیں۔ دیوبندیوں کے ساتھ کئی اور اسلامی فرقے بھی یہاں بستے ہیں۔ عصری ادارے بھی یہاں اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں۔

میں خیر آباد جوں ہی پہونچا، کھٹا کھٹ کی زور دار آوازیں کانوں سے ٹکرانے لگیں۔ یہ آوازیں 28 سال پہلے مئو میں بھی سن چکا تھا اور 15 برس قبل مہاراشٹر کی بھیونڈی میں بھی۔ میں نے مفتی یاسر صاحب سے پوچھا کہ پاور لوم چل رہا ہے کیا؟ جواب دیا: ہاں! پتہ چلا کہ یہاں کی سب سے بڑی صنعت یہی ہے۔ پارچہ بافی یہاں کا سب سے مقبول کام ہے۔ خیر آباد میں اس صنعت کا آغاز 1964 میں ہوا۔

*مولانا ضیاءالحق خیر آبادی کے قلم کدے پر*

صدیقِ مکرم مولانا ضیاءالحق خیر آبادی سے مولانا یاسر صاحب کی بات ہو چکی تھی۔ ہم سیدھے ان کے قلم کدے پر پہونچے۔ مولانا اس وقت اپنے چچا کے گھر تھے۔ انہوں نے ہمیں دیکھا تو شفقت و عنایت کی پھواریں برساتے ہوئے تیزی سے لپکے، جیسے انہیں کسی انمول شے کے ہاتھ سے نکل جانے کا خطرہ ہو۔ مصافحہ معانقہ ہوا۔ ان کے چہرے کی تابانیاں کچھ نہ پوچھیے۔ پیشانی کی لکیریں جگمگا رہی تھیں۔ تپاک سے اپنے گھر لے گئے۔ ان کے ساتھ مفتی منظور صاحب بھی تھے، جن کے فتاویٰ کا چرچا میں اسلامیہ میں سن چکا تھا۔ ان سے ملاقات نے مزہ دوبالا کر دیا۔ 

حاجی بابو سے میرا پرانا یارانہ ہے اور محبت و یگانگت کی کئی کئی علتیں۔ میں نے مدرسہ دینیہ غازی پور میں پورا ایک سال بسم اللہ کے گنبد میں گزارا ہے۔ یہاں ایک دو سال قبل مولانا اعجاز احمد اعظمیؒ اپنی علمی مسند بچھا کر گورینی جا چکے تھے۔ میرے کئی اساتذہ دینیہ سے نکل کر مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ، دربھنگہ پہونچے تو ان کی تقلید میں میں نے بھی اسلامیہ کو اپنا نیا مسکن بنایا۔ حضرت مولانا اعجاز احمد اعظمیؒ یہاں بکثرت تشریف لاتے، ان کے ہمراہ مولانا ضیاءالحق صاحب بھی بارہا آئے۔ جب میں اسلامیہ سے دیوبند پہونچا تو مولانا میرے ہم سبق بنے ۔ مولانا اعظمیؒ جب بھی دیوبند آتے تو مولانا خیر آبادی کی طرح میں بھی مرحوم کی خدمت میں جاتا۔ اس طرح بات تعارف سے بڑھ کر تعلق تک جا پہونچی۔ فراغت کے بعد میرا ان کا رابطہ ختم ہی ہو گیا تھا، لیکن ادھر پانچ چھ برسوں سے نہ صرف یہ کہ تعلق ہے، بلکہ راہ و رسم نے تکلفات کی ساری رسمیں توڑ دی ہیں۔ 

مولانا خیر آبادی کی ذات مجھ جیسوں کے لیے تحریک کا درجہ رکھتی ہے۔ بڑے کام کے خود بھی ہیں اور اپنے مخلص دوستوں کو بھی کام میں کھویا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ نام تو ضیاءالحق ہے، مگر حاجی بابو سے بھی خوب متعارف ہیں۔ پیدائش 1395ھ کی ہے۔ ابھی ڈیڑھ برس کے بھی نہ ہوئے تھے کہ ان کے والدین حج کو گئے تو اپنے اس نو نہال کو بھی ساتھ لے گئے۔ بس تب سے وہ ضیاءالحق کم اور حاجی بابو زیادہ ہیں۔ مولانا اعجاز احمد اعظمیؒ سے خصوصی رشتہ رہا۔ عربی کی ساری فنی کتابیں انہیں سے پڑھیں۔ مدرسہ شیخ الاسلام شیخو پور میں جب تک پڑھا، جماعت بندی سے ہٹ کر اور خالص قدیم طرز پر۔ گروہ بندی کا ذائقہ انہوں نے دیوبند میں آ کر چکھا۔ فراغت کے بعد اپنے استاذ کے زیرِ سایہ شیخو پور میں معلم الصبیانی بھی کی۔ ترقی کرتے میزان سے مشکوۃ تک پہونچے۔ وہیں سے ماہ نامہ ضیاء الاسلام نکالا اور بارہ برسوں تک اس کی ادارت سنبھالی۔ تاریخ، شخصیات اور ادب سے انہیں خصوصی لگاؤ ہے۔ وہ لکھتے ہیں تو جی چاہتا ہے کہ پڑھتے رہیے۔ جمعیۃ علمائے ہند کے زیرِ انتظام مولانا سید محمد میاں صاحبؒ پر سیمینار انہیں کی سرکردگی میں ہوا تھا۔ اس کے سارے مقالات *سیدالملت* کے نام سے انہوں نے ہی مرتب کیے ہیں۔ موصوف اس وقت سکھٹی مبارک پور میں مدرسہ تحفیظ القرآن کے مدرس ہیں۔ سہ ماہی رشد و ہدایت کے مدیر بھی یہی ہیں۔

وقت برائے نام تھا، مگر مولانا نے اس کے باوجود بھی پوری، جلیبی اور روٹی انڈے سے ضیافت کی۔ چائے سرِ دست چھوڑ دی گئی۔ مبارک پور اور دوسرے مقامات پر مولانا کو بھی جانا تھا، اس لیے انہوں نے تیاری کا وقت مانگا۔ ہم بھی اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مدرسہ منبع العلوم خیر آباد کے لیے نکل پڑے۔

[اگلی قسط میں پڑھیں: مدرسہ منبع العلوم خیر آباد کی زیارت]