Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, November 7, 2019

عدلیہ کے فیصلہ کے آنے سے قبل یہ خاموشی کیوں ہے بھاٸی۔؟؟؟

از/ نقاش ناٸطی/صداٸے وقت۔/(بشکریہ.الھلال نیوز پورٹل )
(حیدر آباد سے نشر ہونے والے مشہور اردو نیوز پورٹل الھلال نیوز ڈاٹ کام 6 نومبر 2019 پر پوسٹ ہوا مضمون)
==============================
*17 نومبر چیف جسٹس آف انڈیا کے ملازمت سبکدوشی سے پہلے،ربع صد قبل کے متنازعہ بابری مسجد، رام مندر، زمین ملکیت تنازع پر ممکنہ فیصلہ آمد آمد کے تناظر میں، ھند بھر کے مسلم امہ  میں، یہ خاموشی کیوں ہے بھائی۔ گبر آئے گا یہ ڈر اور خوف صرف مسلم امہ میں ہی کیوں؟ عدلیہ میں پیش ہوئے دلائل  کے آثار پر، طرف ثانی والی اکثریت سے امن آمان قائم رکھنے کی استدعا کی جانی چاہئیے تھی۔ لیکن یہ کیا؟ ظالموں کے مقابلے مظلوموں ہی سے ظلم سہنےکی درخواست کیوں کی جارہی ہے؟ لب مہر رکھنے کی مکرر استدعا کیوں کی جارہی ہے؟ آہ و کراہ نہ نکالنے  کی امیدیں کیوں کی جارہی ہیں؟ اور طرفہ تماشہ یہ کہ ہم پر ممکنہ ہونے والے ظلم و ستم کی تشہیر یا مدد کی گوہاڑ سے بھی مانع کیوں رکھا جارہا ہے؟ آخر کیا ہونے جارہا ہے؟ اس دیش ہندستان میں ان دنوں میں؟*

*اکثریتی آبادی کے دعویداران محافظ کی، سنگھی زمام حکومت اور وہ بھی ویر سمراٹ 56" سینے والے شکتی سالی مہان مودی جی کی تمام تر کرپاؤں کے باوجود، تمام حکومتی مشینری ،انٹیلیجنس ایجنسیاں انکے تابع رہنے کے باوجود، سابقہ گجرات ممبئی و دیگر صوبوں کے ان کے زمام اقتدار مسلم مائینورٹیز پر منظم فسادات کے الم و غم بھری داستانوں کے باوجود، ہم مظلوم مسلمانوں کو اپنی قوت برداشت دکھانے کے پروچن کیوں دئیے جارہے ہیں؟ قربانیوں کی مانگ ہم سے ہی کیوں کی جارہی ہے؟ ہزاروں سالہ  گنگا جمنی ہندو مسلم تہذیبی عدلیہ سے تو پچیس کروڑ مسلمانوں کو انصاف کی امیدیں  وابسطہ ہیں۔ گزشتہ پچیس سال سے دیش کی مختلف عدلیہ سے ہوتے ہوتے دیش کی سب سے بڑی عدلیہ میں اس ربع صد تنازعہ کی ملکیت کا فیصلہ آنا ہے۔زمین ملکیت کا فیصلہ، ملکیت کاغذات دیکھ کر ہی کئے جاتے ہیں نا، یاکہ آستھا پر۔اور اگر آستھا ہی دیکھنی ہے تو ہم پچیس کروڑ مسلمانوں کی بھی یہ آستھا ہے کہ ایک مرتبہ جہاں مسجد بن گئی تو تا قیامت وہ مسجد ہی رہے گی۔ہاں اگر مسلمانوں نے کسی غلط جگہ پر غیر قانونی مسجد بنائی ہے تو یہ الگ بات ہے۔ لیکن ہمارے نبی آخر الزمان سرور کونیں حضرت محمدﷺ نے تو ہمیں، جو تعلیمات دی ہیں ہم نے کبھی کسی کی ناجائز جگہ زبردستی ہتھیا کر اپنی عبادگاہ کبھی نہیں بنائی ہے۔ جب ہجرت بعد مدینہ میں پہلی مسجد بنانے کا وقت تھا تو مدینہ کا ہر انصاری صحابی، مسجد بنانے اپنی زمین دینے کے لئے تیار تھا لیکن آپﷺ کی اونٹنی جس جگہ بیٹھ کر مسجد بنانے کی جگہ پسند کی تھی وہ زمین یتیم بچوں کی تھی آپﷺ نےاس جگہ کی پوری قیمت بچوں کو ادا کر، اس جگہ پر مسجد تعمیر کی تھی۔ ہم مسلمان کیونکر اپنے نبیﷺ کی تعلیمات کے خلاف جاکر، بھگوان رام کے مندر کو توڑ کر کیونکر وہاں بابری مسجد بنا سکتے ہیں؟ اور ساڑھے پانچ سو سال قبل جب ایودھیا میں شہنشاء بابر کے حکم سے میر باقی نے وہاں مسجد بنائی تھی تو انہیں ایام بھگوان رام کے سچے بھگت  والمیکی گنگا کنارے بیٹھ راماین لکھ رہے تھے۔ اگر واقعی ان ایام میر باقی نے بھگوان رام کے مندر کو توڑ کر بابری مسجد بنائی ہوتی تو کیا والمیکی نے اپنے اپنیاس راماین میں رام کے مندر کو توڑ کر بابری مسجد بنانے کی بات، ایک آدھ دوہے میں تو کہی ہوتی؟ اور بھگوان رام تو ہزاروں سال پہلے جنمے راجہ ڈشرتھ کے بیٹے تھے ۔یقینا انہوں نے راجہ ڈشرتھ کے محل میں جنم لیا ہوگا نہ کہ کسی مندر میں۔اور ویسے بھی ایودھیا ہی میں رام جی کے جنم استھان کہنے والے، پہلے سے  رام جنم استھان کہلانے والے 9 مندر ہیں۔ پھر کیوں کر بابری مسجد والی جگہ رام کا جنم استھان  ہوسکتی ہے؟ کئی سو سال پرانے ایودھیا والے پورے 9 رام جنم استھان مندر کی پھر کیا حقیقت ہے؟ اگر ہندو بھائیوں کی آستھا بابری مسجد والی جگہ ہی رام کا جنم استھان  ہے تو ایودھیا میں پہلے سے موجود 9 رام جنم استھان مندر کہلانے والے غلط رام جنم منادر ڈکلیر کردیا جائیگا؟ پہلے ان 9 مندروں کو مسمار کر، اسے زمین بوس کیا جائے گا؟ اور پھر بابری مسجد والی مسلمانوں کی جگہ پر بھویہ مندر تعمیر جائے گا؟ ہزاروں سال پہلے کے آسمانی دھرم ہندو مت کی پرانی دھارمک کتابوں میں،مختلف ویداس اور منو اسمرتی میں،  بھگوان رام کی جائے پیدائیش کا کچھ تو تذکرہ ہونا چاہئیے تھا؟ لیکن کہیں کسی بھی ھندو دھارمک کتابوں میں بھگوان رام کی جائے  پیدائش کے بارے میں لکھا نہیں ہے۔ ایودھیا ہی میں موجود کئی سو سال پرانے،پہلے سے موجود بھگوآن  رام جنم استھان 9  مندر کو  غلط جگہ پر بنائے مندر کیاکہا جائیگا؟اور سب سے اہم بات آرکیالوجیکل ڈیپارٹمنٹ کی بابری مسجد والی جگہ کھدائی میں، پرانے بھگوان رام جنم استھان مندر کے آثار ملنے کے بجائے،قبرستان کے آثار اورانسانوں کی ہڈیاں علاوہ اسکے  جانوروں کی ڈھیر ساری ہڈیاں ملنے سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ بابری مسجد والی جگہ بابری مسجد بنانے سے پہلے بھی مسلمانوں کی  رہائشی  آبادی  اور قبرستان کا حصہ تھی۔ کیا ایسے ہزاروں سال سے مسلمانوں کے تصرف و ملکیت والی جگہ، غلط آستھا کے نام سے ملکی قانون کو درکنار کر زبردستی ہتھیاتے ہوئے، بھگوان رام کا جنم استھان  بھویہ مندر بنانا ہزاروں سالہ آسمانی وید دھرم کو کیا شوبھا دیتا ہے؟ مسلمانوں سے زبردستی حاصل کی ہوئی جگہ پر اگر مندر بن بھی جائے تو شردھالوؤں کی شردھا ایشور تک کیا پہنچ پائے گی؟ یہ سوچنا ، ہزاروں سالہ گنگا جمنی تہذیبی ہندواسیوں کا کام ہے۔ کل کے فرنگیوں کے تلوے  چاٹنے والے یہ شدت پسند سنگھی، اپنی گندی سیاست چمکانے کے لئے، اگر کروڑوں ہندو بھائیوں کی آستھا سے کھلواڑ کررہے ہیں تو کیا اس چمنستان ہندستان کی کروڑوں  ہندد جنتا،ان جنونی سنگھئوں  کو اس پوتر دھرتی پر خون کی ہولی کھیلنے کی اجازت دیگی؟*

*ہم پچیس کروڑ ہندستانی مسلمانوں نے تو، بابری مسجد والی ہزاروں سالہ اپنی جگہ کے، اپنے مالکانہ حقوق عدلیہ میں ثابت کرنے کے باوجود  عدلیہ کا جو بھی فیصلہ آئیگا پوری دیانت داری کے ساتھ اسے ماننے کا آشواشن دیش کی عدلیہ کو دے چکے ہیں۔ اب دیش کی عدلیہ جو بھی فیصلہ کرے گی، چاہے کہ مسلمانوں کے خلاف ہی کیوں نہ فیصلہ آئے، ہم اسے ماننے پر، وچن بند ہیں۔ پھر کیوں ہم مسلمانوں ڈرایا جارہا ہے؟ربع صد پرانے عدلیہ کا فیصلہ آنے سے کچھ دنوں پہلے یہ خاموشی  آخر سمجھ سے بالاتر یے۔ بھگوان ایشور اللہ ہی اس چمنستان ہندستان کی ہزاروں سالہ گنگا جمنی ہندو مسلم بھائی بھائی والی آثاث کومستقبل کے صدیوں  سال تک باقی رکھے۔ وما علینا الا البلاغ*