Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, December 5, 2019

فرمان یا انصاف۔۔۔۔۔۔مولانا اجوداللہ پھولپوری...بابری مسجد کی شہادت کی 27 ویں برسی پر خصوصی پیش کش۔



ازقلم -: اجوداللہ پھولپوری/صداٸے وقت۔
=============================
ملک ہندوستان اپنے کثیر الجہات مجموعہ اور مختلف مذاہب و ادیان کے کلچر اور مذہبی معاملات و مقامات کو یکساں حقوق دینے کی وجہ سے دنیا میں اپنا ایک الگ اور منفرد مقام رکھتا تھا اور مختلف تہذیب و تمدن کی رعایت دہی کی وجہ سے دنیا اسکو سراہتی رہی ہے مگر آج کل کے ماحول کی دھارا کچھ زیادہ ہی الٹی بہنے لگی ہے کچھ ملک دشمن عناصر باطنی طور پہ یہاں کے جمہوری اقدار اور سیکولرازم کے تانے بانے کو بکھیرنے میں کامیاب ہوگئے وہ تو بھلا ہو اقلیتوں کا جس نے غم کے گھونٹ کو گلے سے اتار کر ظاھری تانے بانے کو بچا کے رکھا ھے اور رکھنا بھی چاہئے اسلئے کہ یہی ایک سچے اور محب وطن شہری کا فریضہ ہے
بابری مسجد معاملہ میں سپریم کورٹ کے حالیہ حکم نامہ سے نہ یہ کہ پورے ملک کی اقلیت سکتہ میں ہے بلکہ اکثریت کا انصاف پسند طبقہ بھی انگشت بدنداں ہے ادارہ فیضان اشرف بھی اس غیر مطمئن حکم نامہ سے غمگین و دلبرداشتہ ہے موجودہ فیصلہ کا احترام اپنی جگہ پر، لیکن دلبرداشتگی کی بڑی وجہ اُس یقین و بھروسے کی شکستگی ھے جو نائن الیون کو سر دست منظر عام پہ آئی جس کی تائید سپریم کورٹ کے سابق جج اشوک کمار گنگولی کی اس بات سے بھی ہوتی ہے جو انہوں نے فیصلہ آنے کے بعد کھلے طور پہ کہی .....
جسٹس گنگولی نے ٹیلی گراف کو دیئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ اقلیتوں نے پیڑھیوں سے دیکھا ہے کہ وہاں ایک مسجد تھی مسجد توڑی گئی اب سپریم کورٹ کے حکم نامہ پر یہاں ایک مندر بنے گا اس فیصلہ نے میرے من میں ایک شک پیدا کیا ہے قانون کا طالبعلم ہونے کی وجہ سے مجھے اسے قبول کرنے میں تھوڑی دقت ہورہی ھے جسٹس گنگولی نے کہا ۱۸۵۴/۵۷ میں بھلے ہی نماز پڑھنے کے ثبوت نہ ملے ھوں لیکن ۱۹۴۹ سے یہاں نماز پڑھی گئی ھے اور یہ ثابت بھی ہے
ہمارا قانون جب وجود میں آیا تو یہاں نماز پڑھی جارھی تھی ایک ایسی جگہ جہاں نماز پڑھی گئی اور اس جگہ پر ایک مسجد تھی تو پھر اقلیتوں (مسلمانوں) کو پورا حق ہے کہ وہ اپنی مذھبی آزادی کی حفاظت کریں قانون نے جس کا اختیار سب کو دے رکھا ہے
جسٹس گنگولی نے کہا اس فیصلہ کے بعد مسلمان کیا سوچے گا؟ وہاں سالوں سے ایک مسجد تھی جسے توڑدیاگیا اور اب سپریم کورٹ نے وہاں مندر بنانے کا حکم دے دیا ہے یہ فیصلہ اس دلیل پہ دیاگیا ہےکہ زمین رام للا سے جڑی تھی صدیوں پہلے زمین پر مالکانہ حق کس کا تھا کیا سپریم کورٹ اسے طے کریگا؟ سپریم کورٹ کیا اس بات کو بھول جائیگا کہ جب قانون آیا تو وہاں ایک مسجد تھی؟ قانون میں شقیں ہیں اور سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہیکہ وہ اسکی حفاظت کرے سپریم کورٹ کے سابق جج گنگولی نے کہا کہ قانون کے وجود میں آنے سے پہلے وہاں کیا تھا یہ طے کرنا سپریم کورٹ کی ذمہ داری نہیں ہے تب بھارت کوئی آزاد ملک نہیں تھا تب وہاں مندر تھی یا مسجد بدھسٹوں کا عبادت خانہ تھا یا عیسائیوں کا چرچ اس پر فیصلہ کرنے بیٹھینگے تو کئی مسجد مندر اور دیگر عبادت گاہوں کو توڑنا پڑیگا ہم بہت پرانے حقائق کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھ سکتے۔
انہوں نے کہا کہ جب سپریم کورٹ نے یہ کہ دیا کہ وہاں نماز پڑھی جاتی رہی ہے تو مسجد تسیلم کرنا چاہئے آپ غور کریں ایک ایسی مسجد جو پانچ سو سال سے وہاں کھڑی ہے پانچ سو سال بعد آپ اسکا فیصلہ کیسے کرینگے؟عدالت میں جس فریق نے اپنے دستاویزات پیش کئے اسے درکنار کرکے آثار قدیمہ کی رپوٹ کی بنیاد پر کیسے فیصلہ کرسکتے ہیں؟جب انکے پاس حق ملکیت کے دستاویزات موجود ہیں تو ٹائٹل سوٹ کی بنیاد پر فیصلہ کیوں نہیں ہوا؟
(بحوالہ بی بی سی ھندی ۱۰ نومبر ۲۰۱۹)
سپریم کورٹ ایک قابل احترام ادارہ ہے اسکا احترام ہر ہندوستانی کی ذمہ داری ہے لیکن ضروری نہیں کہ اسکا ہر فیصلہ اچوک ہو اور اسپر سوال کرنا جرم ٹھہرے اگر قانون میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کو پرکھنا اور اس پر عدم اطمینان ظاہر کرنا جرم ہوتا تو یقینا اسکے آگے کے راستہ مسدود ہوتے لیکن قانون ہمیں اجازت دیتا ہیکہ ھم سپریم کورٹ کے فیصلہ پر نظر ثانی کی اپیل کرسکیں اسکے علاوہ بھی دو شقیں ھیں جو اس بات پر دال ھیں کہ supreme court is good but not God سپریم کورٹ بھی اس بات کی اجازت دیتا ہیکہ اسکے فیصلہ کو جانچا پرکھا جاسکتا ہے ایسا کرنا جرم نہیں ہے بس خیال رہے سپریم کورٹ کی عزت و احترام پہ داغ نہ لگے اس پہ کسی قسم کے کرپشن کا الزام بھی قانونا جرم ہے لہذا اس سے بہر قیمت بچا جائے اور دوسروں کو بھی روکا جائے آپکی یاددہانی کیلئے تحریر کردوں کہ جب سبری مالا فیصلہ کے خلاف جو کہ سپریم کورٹ کی طرف سے آیا تھا ایک ہجوم سڑکوں پہ اترا تو ملک کے موجودہ وزیر داخلہ امت شاہ نے کھلے لفظوں میں کورٹ کے فیصلہ کے الٹ اس ہجوم کی حمایت کا اعلان کیا تھا بہر حال مجھے لگتا ہیکہ ہمارے قائدین و دانشوران نیز ہمارے انصاف پسند ہندو بھائیوں کو قانون کے دائرہ میں رہتے ھوئے فیصلہ کے تمام صفحات کو پڑھنے اور سمجھنے کے بعد اسکی کمیوں کو اور ان بنیادوں کو جن پر عدم اطمینان ہو عوام کے سامنے جلد از جلد لانا چاھئے تاکہ عوام فیصلہ پر غلط تبصرہ کرنے سے محفوظ رہ سکے اور اس فیصلہ کے خلاف مسلم پرسنل لاء و جمعیت العلماء نیز سنی وقف بورڈ کو مشورہ ہے کہ میدان عمل کے آخری کنارے اور سرے تک جائیں تاکہ ہم عنداللہ گرفت سے محفوظ رہ سکیں
سپریم کورٹ کے فیصلہ کو جانچا جائے تو بہت سی باتیں غیر مطمئن کرتی ھیں کورٹ شیعہ وقف بورڈ اور نرموہی اکھاڑے کو اول وہلہ میں کنارے کردیتا ہے لیکن جب سرکار کو مندر کی تعمیر کیلئے ٹرسٹ بنانے کا حکم دیتا ہے تو نرموہی اکھاڑے کو بھی اس میں شامل کرنے کا حکم دیتا ہے سپریم کورٹ اپنے اجمالی فیصلہ میں تسلیم کرتا ہے کہ مندر توڑ کر مسجد کی تعمیر نہیں کی گئی زمین میں جو نشانیاں ملی ہیں وہ بھی واضح نہیں کرتی ہیں کہ وہاں مندر ہی تھا سینتالیس تک نماز ہونے کا اقراری بھی ہے رام للا کی زمین ہونے کو بھی کورٹ نے تسلیم نہیں کیا انچاس میں مسجد کے اندر مورتی رکھنے کو غلط بھی سمجھتا ہے بانوے میں مسجد کے گرانے کو جرم بھی مانتا ہے اور پھر مسلمانوں کو وہاں سے دور مسجد کیلئے زمین دینے کا صوبائی یا ملکی حکومت کو پابند کرتے ہوئے انہیں مجرمین کو مندر تعمیر کرنے کی اجازت بھی دیتا ہے جو اسکے گرانے میں پیش پیش رہے یہ سارے گھماؤ پھراؤ ہر ذی شعور کی سمجھ سے پرے ہیں ایک چونکانے والا نکتہ جسکو فیصلہ کے دن چیف جسٹس نے نقل کیا اور اس کی خبر الیکٹرانک میڈیا کے توسط سے تحریرا و صوتا نشر بھی ہوئی وہ یہ کہ سنی وقف بورڈ کے لئے شانتی پورو قبضہ دکھانا اسنبھو ہے ( پر امن قبضہ دکھانا ناممکن ہے) اگر واقعی یہ خبر سچائی لئے ہوئےنشر کی گئی ہے تو بڑی ہی فکر انگیز ہے اسلئے کہ کہنے کو تو یہ ایک سطر کی چھوٹی سی تحریر ہے پر اسکے نیچے زخموں سے چور چور دبے عدلیہ کا بھاری بھرکم وجود نظر آرہا ہے اور کہیں نہ کہیں عدلیہ کی طرف سے یہ کھلا اعتراف بھی ہیکہ مسجد کی جگہ مسلمانوں کی ہی تھی لیکن ہم قبضہ دلانے سے عاجز ہیں لہذا ہم نے اس فیصلہ کو ملکیت سے ہٹ کر دینے کا فیصلہ کرلیا ویسے فیصلہ کو دیکھا جائے تو خود چیف جسٹس کے سابقہ اقوال اور فیصلہ میں کافی تضاد ہے چیف جسٹس نے بارہا اس بات کا اظہار کیا تھا کہ فیصلہ بہر صورت ملکیت پہ ہوگا لیکن جب نائن الیون کو فیصلہ آیا تو وہی درد لئے ہوئے تھا جس سے سبھی آشنا ہیں 67 ایکڑ کے بدلہ 5 ایکڑ زمین سے بہلا دیا گیا....
عدل و انصاف محبت کا سبق مانگا تھا
ہم نے کب زخم پہ اپنے ہی نمک مانگا تھا
یہ خوشی اور نوازش ہو مبارک تجھکو
ہم نے خیرات نہیں مانگی تھی حق مانگا تھا۔
بابری مسجد کے حوالہ سے جتنا بھی لکھ دیا جائے کم ہے یہ مسجد اپنے پیچھے ایک لمبی تاریخ رکھتی ہے اس نے مسلمانوں کا عروج و زوال دونوں دیکھا ہے آج بھلے ہی مصلحتوں سے لبریز فیصلے اسکے وجود کو ختم کرلیں لیکن تاریخ کبھی اسکو بھلا نہیں پائیگی
اس وقت جبکہ امت مسلمہ اور اسکے ملی و دینی شعائر کو انصاف سے دور کیا جارہا ہے تو من حیث القوم امت کی ذمہ داری بنتی ہیکہ وہ اسباب پہ غور و خوض کرے اور اسکے تدارک کی فکر اوڑھے اور ساتھ ہی مسجدوں کے ساتھ خود بھی انصاف کرتے ہوئے اسکے تقاضے (نماز) کو پورا کرے کثرت استغفار سے وابستہ ہوجائے اللہ سے رجوع کو لازم پکڑلے اپنی راتوں کو گریہ و زاری سے مزین کرلے ان شاءاللہ بہار رفتہ قدم بوسی کو حاضر ہوجائیگی۔