Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, December 3, 2019

6 دسمبر ، ایک یوم سیاہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شہادت بابری مسجد ، نا قابل فراموش سانحہ۔

از/ مولانا طاہر مدنی، قومی جنرل سیکرٹری، راشٹریہ علماء کونسل/صداٸے وقت۔
=================================
٦ دسمبر ہندوستان کی تاریخ کا ایک سیاہ دن ہے، ستائیس سال قبل اسی دن ایودھیا میں واقع تاریخی مسجد بابری کو شہید کیا گیا اور آئین و قانون کی دھجیاں دن کی روشنی میں اڑائی گئیں اور ریاستی و مرکزی حکومت تماشائی بنی رہی. کسی مہذب اور پابند قانون قوم سے اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا کہ اس طرح دن دھاڑے تمام یقین دہانیوں کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں سیکورٹی فورسز کی موجودگی میں اتنی بڑی قانون شکنی انجام دے اور اس پر فخر بھی کرے.
افسوسناک بات یہ ہے کہ آج تک مسجد شہید کرنے والوں کے خلاف مقدمہ فیصل نہیں ہوسکا جبکہ انصاف میں تاخیر بہی ناانصافی ہے. اب تو سپریم کورٹ نے بھی یہ کہدیا ہے کہ مسجد کو گرانا ایک مجرمانہ عمل ہے. دیکھنا یہ ہے کہ اس معاملے کا فیصلہ کب تک آتا ہے.
سپریم کورٹ نے اس پرانے تنازعہ میں فیصلہ سنایا ہے، اس پر تبصرے ہورہے ہیں اور بہت سارے برادران وطن نے بھی اسے غیر منصفانہ قرار دیا ہے. دستوری حق کی روشنی میں ایک ماہ کے اندر نظر ثانی کی اپیل کی گنجائش ہے، جمعیت علماء ہند کی جانب سے اپیل داخل ہوچکی ہے اور جلد ہی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی اپیل بھی داخل ہونے والی ہے. ان اپیلوں پر کورٹ کا کیا موقف ہوگا، جلد ہی پتہ چل جائے گا.

اس فیصلے میں چند امور بالکل واضح ہوگئے ہیں؛
1.. بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی.
2.. مسجد میں مورتی غیر قانونی طریقے سے رکھی گئی تھی.
    ٣... مسجد کی شہادت ایک مجرمانہ عمل ہے.
یہ سب انتہائی اہم امور ہیں، اس کے باوجود مسجد کے خلاف فیصلہ اور زمین مندر کو دے دینا، بہت حیرت انگیز اور غیر منصفانہ ہے. اس بار ٦ دسمبر کے موقع پر کیا مطالبہ ہونا چاہیے؟ اور کیا بات رکھنی چاہیے؟
ایک مطالبہ یہ ہو کہ مسجد کی شہادت کے ذمہ دار افراد پر مقدمہ کی کاروائی روزانہ سماعت کی بنیاد پر ہو اور جلد از جلد سزا دی جائے.
دوسرا مطالبہ یہ ہو کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر دائر نظر ثانی کی اپیلوں پر منصفانہ سماعت ہو اور فوری طور پر اسٹے دیا جائے.
تیسرا مطالبہ یہ ہو کہ پانچ ایکڑ زمین کی پیشکش مسترد کی جاتی ہے، اسے فیصلے سے حذف کر دیا جائے، مسجد پر کوئی سودا بازی نہیں ہوسکتی.
چوتھی بات یہ واضح کردی جائے کہ ہم بابری مسجد کو کبھی فراموش نہیں کرسکتے، مسجد تھی اور مسجد رہے گی. مسجد وقف للہ ہوتی ہے، اس سے دستبردار ہونے کا حق نہ کسی فرد کو ہے اور نہ کسی ادارے کو...
یہ بات بھی بالکل واشگاف انداز سے بیان کردی جائے کہ پوری اسلامی تاریخ اس بات پر شاھد ہے کہ کبھی کسی خانہ خدا کو بت کدہ بنانے کیلئے نہیں دیا گیا اور نہ ہی کسی مسلک میں اس کی کوئی گنجائش ہے. مساجد توحید کا مرکز ہوتی ہیں، ان کو شرک کا اڈہ بنانے کی گنجائش کیسے ہوسکتی ہے؟

آئیے عہد کریں کہ بابری مسجد کی بازیابی کی پرامن جدوجہد جاری رہے گی اور تمام مساجد کو آباد رکھنے کی دینی ذمہ داری بھی ہم بخوبی نبھائیں گے. ان شاء اللہ.
٤ دسمبر ٢٠١٩ع